ہانگ کانگ سے متعلق امریکی ایکشن ناکام ہوتا دکھائی دے رہا ہے، چین

اپ ڈیٹ 30 مئ 2020
پیپلزڈیلی کے مطابق  چین کو اپنی خودمختاری اور سلامتی میں کمی پر مجبور کرنے کی کوشش کرنا صرف خیالی پلاؤ ہوسکتا ہے—فوٹو: اے ایف پی
پیپلزڈیلی کے مطابق چین کو اپنی خودمختاری اور سلامتی میں کمی پر مجبور کرنے کی کوشش کرنا صرف خیالی پلاؤ ہوسکتا ہے—فوٹو: اے ایف پی

چین کی حکمراں جماعت کمیونسٹ پارٹی کے اخبار نے کہا ہے کہ امریکا کی جانب سے ہانگ کانگ کے لیے کچھ تجارتی مراعات کا خاتمہ چین کے اندرونی معاملات میں 'سنگین مداخلت' ہے اور یہ ناکام ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔

امریکی خبررساں ادارے 'اے پی' کی رپورٹ کے مطابق چین کے اخبار پیپلزڈیلی میں آج (بروز ہفتہ) کے اداریے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے اعلان کے ردعمل میں مذکورہ بیان دیا گیا۔

اخبار نے لکھا کہ کسی بیرونی قوتوں کی جانب سے ہانگ کانگ کے معاملات میں مداخلت کی مخالفت کرنا چین کے تمام عوام کا پختہ عزم ہے۔

اس میں کہا گیا کہ ہانگ کانگ کے معاملات میں مداخلت کی کوشش کا غالبانہ اقدام اور چین کے داخلی امور میں سنگین مداخلت سے چینی عوام خوفزدہ نہیں ہوں گے جبکہ یہ ناکام ہورہی ہے۔

اخبار نے لکھا کہ بلیک میلنگ یا جبر کے ذریعے چین کو بنیادی مفادات بشمول خودمختاری اور سلامتی میں کمی پر مجبور کرنے کی کوشش کرنا صرف خیالی پلاؤ اور دن میں خواب دیکھنا ہوسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: چین کی پارلیمنٹ نے ہانگ کانگ نیشنل سیکیورٹی بل منظور کرلیا

دوسری جانب ناقدین کا کہنا ہے کہ نیشنل پیپلز کانگریس کی جانب سے ہانگ کانگ پر سیکیورٹی قانون سازی کا نفاذ 'ایک ملک، دو نظام' کے فریم ورک کے تحت ہانگ کانگ کے علیحدہ سول، قانونی اور معاشی اداروں کو برقرار رکھنے کے بیجنگ کے عزم کی نفی کرتا ہے۔

تاہم یہ واضح نہیں کہ اس اقدام سے ہانگ کانگ میں امریکی کمپنیوں یا ایشیا کے مالیاتی حب کے طور پر اس کی حیثیت پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

خیال رہے کہ بیجنگ کی جانب سے امریکی اقدام کے ردعمل میں کیے جانے والے مخصوص اقدامات کی تفصیل دینا باقی ہے تاہم پیپلز ڈیلی نے اپنے اداریے میں کہا ہے کہ چین بھرپور جوابی کارروائی کے لیے تیار ہے اور آپ صرف شرمناک ناکامی کے منتظر ہیں۔

ادھر ہانگ کانگ میں سیکریٹری برائے جسٹس ٹریسا چینگ نے کہا کہ یہ مکمل طور پر جھوٹ اور غلط ہے کہ علاقہ اپنی خودمختاری سے محروم ہورہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ چین کے مرکزی حکام کے پاس ہانگ کانگ کی قومی سلامتی سے متعلق اقدامات اٹھانے کا مکمل حق ہے۔

دوسری جانب یہ قیاس آرائیاں ہیں کہ واشنگٹن کی جانب سے ردعمل کے طور پر کریک ڈاؤن میں ملوث افراد بشمول ہانگ کانگ پولیس فورس کے اراکین کو امریکی سفری پابندیوں یا دیگر کا سامنا ہوسکتا ہے۔

ہانگ میں امریکی چیمبر آف کامرس کی صدر تارا جوزف نے کہا کہ یہ اب واضح ہے کہ ہانگ کانگ چین اور امریکا کی کشیدگی کے درمیان پھنس گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ خصوصی تجارتی تعلق کے خاتمے سے مختلف کاروبار کو متعدد سوالات کا سامنا ہے۔

'امریکا داخلی امور میں مداخلت بند کرے'

علاوہ ازیں چین نے ہانگ کانگ کے لیے متنازع حفاظتی قانون پر امریکا پر اقوام متحدہ کو یرغمال بنانے کا الزام عائد کرتے ہوئے مغربی ممالک کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس کے داخلی معاملات سے دور رہیں۔

قبل ازیں ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ امریکا، برطانیہ، کینیڈا اور آسٹریلیا نے چین کے قانون کے حوالے سے منصوبہ پر تنقید کی جس سے علیحدگی، ریاستی طاقت سے بغاوت، دہشت گردی اور قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے ہر کارروائیوں ہوگی جبکہ ساتھ ہی چینی سیکیورٹی ایجنسیوں کو ہانگ کانگ میں کھلے عام کام کرنے کی اجازت ہوگی۔

یہ بھی پڑھیں: چین کا مجوزہ قانون: تائیوان کا ہانگ کانگ کے لوگوں کو 'ضروری مدد' فراہم کرنے کا اعلان

چین کی ربر اسٹیمپ پارلیمنٹ نے جمعرات کو اس قانون کے منصوبوں کی منظوری دی تھی جس کے بعد گزشتہ سال ہانگ کانگ میں سات ماہ تک بڑے پیمانے پر جمہوریت کے حق میں پرتشدد مظاہرے سامنے آئے تھے۔

سفارتی ذرائع نے بتایا کہ چین نے تنازع کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر ڈالنے کے لیے امریکا کی ابتدائی کوششوں کو روک دیا تھا جس کے بعد امریکا اور برطانیہ جمعہ کو اس کے بارے میں غیر رسمی بحث کرنے میں کامیاب ہوگئے۔

اس حوالے سے چاروں ممالک نے ایک مشترکہ بیان میں کہا کہ چین کے ہانگ کانگ میں آزادیوں کی ضمانت کے لیے بین الاقوامی ذمہ داریوں کے دوران بیجنگ کا پیش کردہ سیکیورٹی قانون ’براہ راست متصادم‘ ہے۔

انہوں نے 1997 میں برطانیہ سے اس کی حوالگی کی شرائط کے تحت چین کے اندر ہانگ کانگ کی خصوصی حیثیت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’مجوزہ قانون ایک ملک، دو نظاموں کے فریم ورک کو نقصان پہنچائے گا‘۔

دوسری جانب بیجنگ کا کہنا ہے کہ اس نے چاروں ممالک کے خلاف باضابطہ احتجاج درج کرایا ہے۔

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے پریس بریفنگ میں کہا کہ ’ہم متعلقہ ممالک پر زور دیتے ہیں کہ وہ چین کی خودمختاری کا احترام کریں اور ہانگ کانگ اور چین کے داخلی امور میں مداخلت بند کریں‘۔

انہوں نے امریکی نقطہ نظر کو ’بے معنیٰ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ چین امریکا کو ’اپنے مقاصد کے لیے کونسل کو یرغمال بنانے کی اجازت نہیں دے گا‘۔

ان کا کہنا تھا کہ ’ہم امریکا پر زور دیتے ہیں کہ وہ اس بے ہودہ سیاسی جوڑ توڑ کو فوری طور پر بند کرے‘۔

مزید پڑھیں: ہانگ کانگ کے معاملے پر برطانیہ، امریکا ’مداخلت‘ سے باز رہیں، چین

ادھر برطانوی سیکریٹری خارجہ ڈومینک راب نے کہا تھا کہ ’اگر چین اس نئے قانون کو آگے بڑھاتا ہے تو لندن ہانگ کانگ کی حوالگی کے وقت اس کی عوام کو ملنے والی ایک خصوصی حیثیت برطانوی نیشنل (اوورسیز) پاسپورٹ ہولڈرز کے حقوق کے بارے میں اپنے قواعد وسیع کرے گا'۔

تاہم ژاؤ لیجیان نے خبردار کیا کہ بیجنگ کو ’اسی طرح کے اقدام پر جوابی اقدامات‘ کا حق حاصل ہے۔

چین کی پارلیمنٹ کا ووٹ واشنگٹن کے ہانگ کانگ کو دیئے گئےاس خصوصی درجہ کو منسوخ کرنے کے کچھ ہی گھنٹوں بعد سامنے آیا، جس اس علاقے کو تجارت اور معاشی مراعات سے محروم رکھنے کی راہ ہموار ہوگی۔

امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے 27 مئی کو امریکی کانگریس کو آگاہ کیا تھا ہانگ کانگ اب امریکا کی جانب سے ترجیحی تجارتی اور کمرشل حیثیت کا مستحق نہیں رہا۔

انہوں نے کہا تھا کہ یہ حیثیت اس لیے واپس لی گئی ہے کیونکہ چین ہانگ کانگ کو اعلی سطح پر خودمختاری کی اجازت دینے کے لیے برطانیہ کے ساتھ اپنے حوالگی کے معاہدے کی پاسداری نہیں کر رہا ہے۔

علاوہ ازیں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ انتظامیہ ہانگ کانگ کے ساتھ خصوصی تعلق کے تحت کیے گئے معاہدوں کا خاتمہ شروع کرے گی جو چین کے ساتھ نہیں کیے گئے تھے۔

انہوں نے کہا تھا کہ اس میں کچھ برآمدات پر دیے گئے استثنیٰ کو واپس لیا جانا بھی شامل ہے۔

ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا تھا کہ چین نے ایک ملک دو نظام کے فارمولے کو ایک ملک ایک نظام سے تبدیل کردیا ہے۔

خیال رہے کہ ہانگ کانگ کے برطانیہ سے چین حوالگی سے قبل ’ایک ملک، دو نظام‘ ماڈل پر اتفاق ہوا تھا، جس کے تحت ہانگ کانگ کو 2047 تک کچھ آزادیوں کی ضمانت دی گئی تھی۔

یہ مختصر آئین جس کے تحت ہانگ کانگ کے معاملات پر حکمرانی کی گئی ہے، چین کو علاقے کی حوالگی کے بعد سے حکام کو قومی سلامتی کے قوانین نافذ کرنے کا پابند کرتا ہے۔

تاہم 2003 میں بھی زبردست مظاہروں نے ایسا کرنے کی کوشش کو ناکام بنادیا گیا تھا اور ہانگ کانگ کی حکومت نے جمہوریت کی حامی تحریک کو بڑھتے ہوئے دیکھتے ہوئے اسے روک دیا تھا۔

علاوہ ازیں گزشتہ روز چین کے سرکاری میڈیا نے کہا تھا کہ یہ قانون ہانگ کانگ میں امن اور خود مختاری کے تحفظ کے مفاد میں ہے۔

ہانگ کانگ نیشنل سیکیورٹی بل کی منظوری

واضح رہے کہ 2 روز قبل چین کی پارلیمان نے کثرت رائے سے ہانگ کانگ پر قومی سلامتی کی قانون سازی کے براہ راست نفاذ کی منظوری دے دی تاکہ شورش، بغاوت، دہشت گردی اور غیر ملکی مداخلت سے نمٹا جاسکے۔

گزشتہ ہفتے جاری ہونے والے مسودے کے مطابق یہ قانون مرکزی چین کے سیکیورٹی اداروں کو کھلے عام ہانگ کانگ میں کاروائیاں کرنے کی اجازت دے گا۔

مذکورہ قانون کی تفصیلات آئندہ آنے والے ہفتوں میں سامنے آئیں گی اور ممکنہ طور پر ستمبر میں لاگو ہوجائے گا۔

اس سلسلے میں نیشنل پیپلز کانگریس اسٹینڈنگ کمیٹی کو قانون سازی تیار کرنے کا ذمہ دیا گیا ہے جس کا اجلاس جون میں متوقع ہے اور بیجنگ نے کہا ہے کہ اسے ’جلد از جلد‘ منعقد کیا جائے۔

مزید پڑھیں: چین کا ہانگ کانگ کیلئے نئے سیکیورٹی قوانین لانے کا منصوبہ

خیال رہے کہ چینی حکومت نے گزشتہ ہفتے نیشنل پیپلز کانگریس میں قانون پیش کیا تھا جس کے بارے میں پارلیمان کے ترجمان نے کہا تھا کہ یہ قانون مالیات کے گڑھ کہلائے جانے والے شہر میں ’میکانزم کے نفاذ‘ کو مضبوط کرے گا۔

قانون کی منظوری سے ایک روز قبل ہی امریکا نے اپنے قوانین کے تحت ہانگ کانگ کی خصوصی حیثیت ختم کردی تھی جس سے اس شہر کے لیے تجارتی مراعات ختم کرنے کا راستہ ہموار ہوگا کیوں کہ امریکا نے چین پر اس علاقے کی خود مختار حیثیت ختم کرنے کا الزام بھی لگایا۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس میں چین کی جانب سے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن اور ایشیائی مالیاتی حب پر کنٹرول مضبوط کرنے سے ہانگ کانگ کے معاملے پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے۔

ہانگ کانگ میں مظاہرے

واضح رہےکہ گزشتہ سال اکتوبر میں ہانگ کانگ میں بڑے پیمانے پر ہونے والے احتجاج و مظاہرے مجرمان کی حوالگی سے متعلق مجوزہ قانون کے خلاف کیے گئے تھے، جس نے جمہوری سوچ رکھنے والے ہانگ کانگ کے عوام اور بیجنگ کی حکمراں جماعت کمیونسٹ پارٹی کے درمیان شدید اختلافات کو بےنقاب کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ہانگ کانگ میں سیاسی بحران: چین کےخلاف احتجاج پر 300 افراد گرفتار

جس پر گزشتہ برس پولیس اور مظاہرین کے مابین کشیدگی شروع ہوگئی تھی جو کئی ماہ تک جاری رہی۔

اگرچہ احتجاج کا آغاز پرامن طور پر ہوا تھا تاہم حکومت کے سخت ردعمل کے بعد یہ احتجاج و مظاہرے پرتشدد ہوگئے تھے۔

احتجاج کے بعد یہ بل، جس کے تحت ہانگ کانگ کے شہریوں کو ٹرائل کے لیے مرکزی چین بھیجنے کی اجازت دی جانی تھی، واپس لے لیا گیا تھا تاہم اس کے باوجود احتجاج کئی ماہ تک جاری رہا تھا جس کی وجہ حقوق کے لیے ووٹنگ کرانے اور پولیس کی کارروائیوں کی آزادانہ تحقیقات کے مطالبے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں