نئے نوول کورونا وائرس نے چند ماہ کے اندر دنیا کو بدل کر رکھ دیا ہے۔

اس وائرس کے اثرات کب تک برقرار رہتے ہیں، یہ کہنا تو فی الحال مشکل ہے مگر ایسا نظر آتا ہے کہ اس کے بعد بھی زندگی میں بہت کچھ تبدیل ہوجائے گا، جیسے صفائی کی عادات، گھر سے باہر گھومنا اور دیگر۔

اس حوالے سے گوگل کی اپ ڈیٹ رپورٹ سے تو ایسا ہی عندیہ ملتا ہے جو اس نے اسمارٹ فون لوکیشن ڈیٹا کی مدد سے تیار کی ہے تاکہ دنیا بھر میں حکومتی عہدیداران کو عوامی نقل و حمل کو سمجھنے میں مدد مل سکے، جس کے مطابق وہ اپنے ردعمل کو ترتیب دے سکیں۔

کووڈ 19 کمیونٹی موبیلیٹی رپورٹس کے نام سے گوگل نے اس ڈیٹا کو اپریل کے شروع میں جاری کیا تھا اور اب اسے 25 مئی تک اپ ڈیٹ کیا گیا ہے۔

اس رپورٹ کے لیے گوگل نے ایسے افراد کا ڈیٹا استعمال کیا جنہوں نے اپنی لوکیشن ہسٹری گوگل میں اسٹور کرنے کے آپشن کو اختیار کررکھا ہے، تاکہ یہ جاننے میں مدد مل سکے کہ لوگ سماجی دوری کی حکومتی ہدایات کی کس حد تک تعمیل کرہے ہیں۔

اس کے لیے پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک کے ڈیٹا کو جاری کیا گیا اور اپریل میں کمپنی کا کہنا تھا ' اس وقت جب عالمی برادری کووڈ 19 وبا پر ردعمل ظاہر کررہی ہے، وہیں عوامی طبی حکمت عملیوں جیسے سماجی دوری کے اقدامات پر زور دیا جارہا ہے تاکہ وائرس کے پھیلائو کو سست کیا جاسکے، اس مقصد کے لیے ہم نے ڈیٹا اکٹھا کیا تاکہ بتایا جاسکے کہ مخصوص مقامات پر اب کتنے لوگ ہوتے ہیں، مقامی کاروبار پر کس وقت زیادہ رش ہوتا ہے'۔

گوگل کی جانب سے ہر ملک میں عوامی نقل و حرکت کے مقامات کو 6 کیٹیگریز میں تقسیم کیا گیا۔

ریٹیل اینڈ ریکریشن میں ریسٹورنٹس، کیفے، شاپنگ سینٹرز، تھیم پارکس، میوزیم، لائبریریز اور سنیما گھروں کو شامل کیا گیا۔

گروسری اینڈ فارمیسی میں سودا سلف کی مارکیٹیں، فوڈ وئیر ہائوس، فارمرز مارکیٹ، کھانے پینے کی دکانیں، میڈیکل اسٹور شامل تھے۔

پارکس میں ساحلی مقامات، پلازے اور دیگر عوامی مقامات کو شامل کیا گیا۔

ٹرانزٹ اسٹیشنز کی کیٹیگری میں پبلک ٹرانسپورٹ مراکز شامل تھے۔

ورک پلیسز دفاتر پر مشتمل کیٹیگری تھی جبکہ ریذیڈنس لوگوں کے گھروں کو کور کرنے والا شعبہ تھا۔

گوگل کے ڈیٹا میں پہلے پاکستان میں 16 فروری سے 29 مارچ تک ان کیٹیگریز کا ڈیٹا جاری کیا گیا تھا اور اب اپریل سے 25 مئی تک کے اعدادوشمار جاری کیے گئے ہیں۔

فروری سے مارچ تک ریٹیل اینڈ ریکریشن یعنی ریسٹورنٹس، ہوٹلوں اور دیگر مقامات پر لوگوں کے جانے کی شرح میں 70 فیصد تک کمی آئی تھی جبکہ اپریل سے 25 مئی تک یہ شرح بڑھی مگر اب بھی معمول کے مقابلے میں 39 فیصد کم ہے۔

گروسری کیٹیگری یعنی اشیائے خورونوش کی خریداری کے لیے گھر سے باہر نکلنے کی شرح شروع میں 55 فیصد تک کم ہوگئی تھی جو نئے ڈیٹا میں 37 فیصد کم رہی، پارکس یعنی تفریحی مقامات پر جانے کی شرح جو پہلے 45 فیصد تک گھٹ گئی تھی وہ نئے ڈیٹا میں محض 5 فیصد رہ گئی یعنی لوگوں نے تفریحی مقامات پر زیادہ جانا شروع کردیا ہے۔۔

اسکرین شاٹ
اسکرین شاٹ

پبلک ٹرانسپورٹ کے مراکز پر جانے کی شرح پہلے 62 فیصد کم ہوئی تھی جو اب 33 فیصد رہ گئی ہے ، جبکہ دفاتر جانے والے افراد کی تعداد میں پہلے41 فیصد کم بتائی گئی تھی جو اب 70 فیصد تک کم ہوگئی ہے۔

اس کے مقابلے میں گھروں پر لوگوں کی موجودگی میں پہلے 18 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا تھا جو اب 16 فیصد رہ گیا۔

اسکرین شاٹ
اسکرین شاٹ

وویسے تو یہ 16 فروری سے 25 مارچ تک ہونے والی تبدیلیاں ہیں مگر ڈیٹا سے اندازہ ہوتا ہے بنیادی طور پر لاک ڈاؤن کے دوران لوگوں کی نقل و حرکت میں نمایاں کمی آئی تھی مگر پابندیاں نرم کرنے کے بعد لوگوں نے اب گھر سے باہر زیادہ وقت گزارنا شروع کردیا ہے اور اس دوران کورونا وائرس کے کیسز اور اموات کی شرح بھی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔

گوگل نے یہ بھی بتایا ہے کہ ڈیٹا میں کسی فرد کی معلومات کی شناخت نہیں کی جاسکتی اور نہ ہی کسی مخصوص کیٹیگری والے مقام پر جانے کے اعدادوشمار دیئے گئے۔

تبصرے (0) بند ہیں