لکھاری سندھ کے سابق وزیرِ خزانہ ہیں۔
لکھاری سندھ کے سابق وزیرِ خزانہ ہیں۔

پاکستان کی سیاست میں عمران خان اور جہانگیر ترین کی کہانی کوئی نئی نہیں۔ ایوب اور یحییٰ، بھٹو اور کھر، ضیا اور چشتی کی کہانیاں تو آپ کو یاد ہی ہوں گی۔ حتیٰ کہ سابق صدر آصف زرداری جو بگڑے دوست رکھنے کے لیے مشہور ہیں، وہ بھی ذوالفقار مرزا کا ساتھ کھو بیٹھے۔

پاکستان کی بے رحم سیاست مضبوط بندھنوں کو اکثر آزمائش میں ڈال دیتی ہے۔ عمران خان اور جہانگیر ترین کے معاملے میں اس سوال نے شروع سے ہی ستا رکھا ہے کہ اس قصے کا اختتام کیسا ہوگا؟

اس وقت عمران خان سیاہ و سفید کے مالک بنے ہوئے ہیں کیونکہ ان کے سر پر مسلسل اسٹیبلشمنٹ کا ہاتھ ہے۔ اس حمایت کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ موجودہ وزیرِاعظم کو اسٹیبلشمنٹ ایک کم لاگتی حکمران سمجھتی ہے۔

کم لاگتی کے تصور کو سمجھنے کے لیے آپ کو پاکستان کی سیاسی کہانی سمجھنی ہوگی جو اس مستقل گفت و شنید کے عمل کی کہانی ہے جس پر پاکستان کے سایسی خاندانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان طاقت کا توازن ٹکا ہوتا ہے۔

سیاسی لیڈران، چاہے وہ جونیجو اور جمالی جیسے چھوٹے ہوں یا آصف زرداری، نواز شریف اور چوہدری برادران جیسے طاقتور، سب کو اکثر ایک جانب اسٹیبلشمنٹ اور دوسری جانب ان سیاسی خاندانوں سے مذاکرات کرنا پڑے ہیں جو انہیں ووٹ دلواتے ہیں۔ یہ جتنے مضبوط ہوتے ہیں اتنا ہی بھاری سودا طے کرتے ہیں۔

پھر ان خاندانوں کے سیاسی اور معاشی عزائم میں بہتری لانے کے لیے ان کی تخصیص اور ریاستی طاقت کا استعمال اس گنجائش کے اعتبار سے ہوتا ہے جتنی گنجائش اسٹیبلشمنٹ دینے کے لیے راضی ہوتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کو عمران خان اپنی کم لاگتی کی وجہ سے بھا گئے کیونکہ انہوں نے اس مذاکراتی گنجائش پر قابض ہونے کی کوشش تک نہیں کی۔

عمران خان کے حوالے سے مثبت پہلو یہ سمجھا جاتا ہے کہ وہ اتنے ہی پائیدار ہیں جتنے کہ شوکت عزیز تھے، جبکہ منفی پہلو یہ ہے کہ ان سے خاندانوں کو ٹھیک سے سنبھالا نہیں جا رہا ہے۔ مولانا فضل الرحمٰن اور عموماً صلح جو طبیعت رکھنے والے چوہدری برادران کے ہاتھوں پہنچنے والے حالیہ دھچکے اسی بات کی مثال ہے۔

اصل میں چوہدری خاندان کی جانب سے یوں ٹی وی پر بیٹھ کر آئی ایس آئی چیف سے ہونے والی گفتگو بیان کرنا معمولی بات نہیں، جس میں انہوں نے سابق آئی ایس آئی سربراہ شجاع پاشا سے متعلق کہا تھا کہ کس طرح انہوں نے عمران خان کی پارٹی کے لیے پاکستان مسلم لیگ (ق) میں سے سیاستدانوں کو لے اڑانے کے لیے کردار ادا کیا تھا.

عمران خان کی جانب سے خطرناک مذاکرات کار کی حیثیت سے بچ نکلنے کا عمل ان کے عہدے کی مدت میں طول کے لیے تو اچھا ثابت ہوسکتا ہے لیکن اس کے نتیجے میں اسٹیبلشمنٹ کو ہر سیاسی و انتظامی سطح پر معاملات خود طے کرنا ہوں گے۔ حتیٰ کہ اسٹیبلشمنٹ میں شامل چند افراد اس اہمیت سے محظوظ بھی ہوتے ہیں۔ تاہم چھوٹی سطح پر خاندانوں سے براہ راست مذاکرات کو سنبھالنا بہت ہی کٹھن کام ثابت ہوتا ہے کیونکہ اسٹیبلشمنٹ اس کام کو انجام دینے کی مطلوبہ تیاری ہی نہیں رکھتی۔

اگر عمران خان براہِ راست رابطے شروع کردیں تو اس سے ایک طرف نہ صرف ان کی اہمیت کم ہوجائے گی جبکہ دوسری طرف پہلے سے کمزور ریاستی ادارے مزید گرسکتے ہیں یوں اقتصادی ٹھہراؤ کے ساتھ ساتھ پالیسی میں خلا بھی پیدا ہوجائے گا.

جہانگیر ترین سمجھے کہ یہاں کوئی گنجائش باقی ہے۔ ان کے انٹرویوز میں سیاسی خاندانوں پر ان کے اثر و رسوخ اور تحریک انصاف کے ساتھ ان خاندانوں کے تعلقات کو بڑھانے میں ان کی ثالث کاری کے کردار کی افادیت کا اشارہ ملتا ہے۔ وہ ان چندہ بڑے ٹائیکون میں سے ایک ہیں جو ضیا کے وقت میں تخلیق کردہ اجارہ داری کا فائدہ اٹھانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے منتخب کیے گئے تھے۔

یہ وہی اجارہ داری ہے جس نے چند افراد کو دولت بنانے کے زبردست مواقع فراہم کیے اور نہایت امیر لوگوں کا ایک ایسا طبقہ تخلیق کیا جس نے خود کو پاکستان کے مضبوط سیاسی خاندانوں میں شمار کرلیا۔

جہانگیر ترین اور ان کے کزن ہمایوں اختر ان اجارہ داریوں میں شامل تھے۔ نقصان کا شکار پاکستان کے مقامی پیپسی ڈسٹری بیوٹر ریاض بوٹلرز کی قسمت بدلنے اور پاکستان میں امیر کھلاڑیوں میں سے ایک بن جانے کے لیے چینی کی صنعت میں قدم رکھنے کے ان کے کارنامے نے ضیا کی موت کے بعد یہ ثابت کیا کہ کارنامے انجام دینا صرف نواز شریف کے ہوشیار بچوں کو ہی نہیں آتا۔

جہانگیر ترین اور ان کے ساتھیوں کو اسٹیبلشمنٹ کی اس قدر حمایت حاصل تھی کہ 1989ء میں جب ایف آئی اے نے ان کے خلاف تحقیقات کی کوشش کی تو پنجاب پولیس نے اس کے منہ پر خاموش طمانچہ دے مارا۔

اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ رہے ایسے ماضی اور سیاسی خاندان کا نیا نویلا درجے ملنے پر جہانگیر ترین نے سمجھا کہ عمران خان کے دورِ اقتدار کے دوران وہ خاندانوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان مذاکرات کی راہ نکال لیں گے۔

تاہم جہانگیر ترین کا حساب کتاب غلط ثابت ہوا۔ عمران خان نے ان کی دولت سے ماضی میں فائدہ بھلے ہی اٹھایا ہو لیکن وہ اسٹیبلشمنٹ کی طیش کا خطرہ مول لے کر خود کو معاملات سے جوڑے رکھنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے یہ اندازہ لگایا کہ اسٹیبلشمنٹ مختلف حصوں کا ایک مجموعہ ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ اس لیے خوش ہے کیونکہ اس میں شامل افراد خوش ہیں اور انتظامیہ اور خاندانوں سے براہِ راست رابطوں کی طاقت سے محظوظ ہو رہے ہیں۔

جیسے ہی عمران کو یہ عندیہ ملا کہ اسٹیبلشمنٹ کو جہانگیر ترین کا ریاستی سبسڈی کا حصول کھٹکنے لگا ہے تو انہوں نے جھٹ سے خود کو ایک طرف کردیا۔ اچانک عمران خان کے آگے ایک بار پھر ماجد خان جیسا معاملہ سامنے تھا مگر اس مرتبہ میدان کھیل کا نہیں بلکہ سیاست کا تھا۔ ہم سب کو میانداد کے خلاف عمران خان کی وہ بغاوت یاد ہے کہ جس میں وہ ماجد خان کا استعمال کرتے ہوئے کپتان بنے اور پھر انہیں دھوکا دے دیا۔ مگر یہ جہانگیر ترین کے سیاسی باب خاتمہ شاید نہ ہو کیونکہ ترین ماجد نہیں ہیں، وہ شاید ان ٹائیکونوں میں سے ایک ہیں جنہیں پاکستان میں بالکل بھی ہلکا نہیں لیا جاسکتا ہے۔


یہ مضمون 2 جون 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں