فیس بک ملازمین کا امریکی صدر کی پوسٹس پر کارروائی کا مطالبہ

02 جون 2020
فیس بک چیف ایگزیکٹو نے امریکی صدر کی پوسٹس پر کارروائی سے انکار کیا  — رائٹرز فائل فوٹو
فیس بک چیف ایگزیکٹو نے امریکی صدر کی پوسٹس پر کارروائی سے انکار کیا — رائٹرز فائل فوٹو

فیس بک کے ملازمین نے چیف ایگزیکٹو مارک زکربرگ کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی پوسٹس پر سخت اقدامات نہ کرنے پر گھروں میں کام چھوڑ ٹوئٹر پر احتجاجی پوسٹس کیں۔

رائٹر کے مطابق فیس بک کے لیے کام کرنے والے درجنوں افراد نے مخالف پلیٹ فارم پر اپنی پوسٹس میں امریکی صدر کی متنازع پوسٹس پر کسی قسم کی کارروائی نہ کرنے کے فیصلے پر مارک زکربرگ پر شدید تنقید کی، حالانکہ ٹوئٹر نے پر فیکٹ چیک لیبل لگایا تھا۔

فیس بک کے کچھ اہم عہدیداران نے بھی اس آن لائن مظاہرے میں شرکت کی۔

مزید پڑھیں : ٹوئٹر نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئٹ کو ‘تشدد کو بڑھاوا دینے‘ پر چھپا دیا

ایسا کبھی دیکھنے میں نہیں آیا تھا کہ فیس بک کے عملے نے عوامی سطح پر اپنے سی ای او پر اس طرح کی تنقید کی ہے، جس میں ایک ملازم کی ٹوئٹ پر ہزاروں افراد نے ردعمل ظاہر کیا، جس میں ری ایکٹ کوڈ لائبریری کے 7 انجنیئرز بھی شامل ہیں جو فیس بک ایپس کو سپورٹ کرتے ہیں۔

انہوں نے ٹوئٹر پر اپنے مشترکہ بیان میں کہا 'فیس بک کی جانب سے حال ہی میں تشدد پر اکسانے والی پوسٹس پر کوئی ایکشن نہ کرنے کا فیصلہ کیا، ہم فیس بک انتظامیہ پر زور دیتے ہیں کہ وہ ان پر ایکشن لیں'۔

فیس بک کے نیوز فیصد کے پراڈکٹ ڈیزائن ڈائریکٹر ریان فریٹاس نے اپنی ٹوئٹ میں لکھا 'مارک غلط ہیں اور میں ان کے ذہن بدلنے کے لیے ہر ممکن کوشش کروں گا، میرے ساتھ 50 سے زائد ہم خیال ساتھی ہیں جو اندرونی تبدیلی لانا چاہتے ہیں'۔

انسٹاگرام کی ایک پراڈکٹ منیجر کیٹی زو نے ایک اسکرین شاٹ ٹوئٹ کیا جس پر ہیش ٹیگ BLACKLIVESMATTER لکھا کر بتایا کہ انہوں نے چھٹیوں کی درخواست دی ہے تاکہ مظاہروں کا حصہ بن سکیں۔

فیس بک کے ترجمان نے بتایا کہ ملازمین کو مظاہروں میں شرکت کی اجازت دی جائے گی اور اس حوالے سے چھٹیوں کو مختص تعطیلات میں شمار نہیں کیا جائے گا۔

خیال رہے کہ مئی کے آخر میں مینیسوٹا میں سیاہ فام 46 سالہ شہری جارج فلائیڈ کی پولیس کی حراست میں ہلاکت کے بعد اسے امریکا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہورہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق پولیس نے جعلی کرنسی نوٹ استعمال کرنے کے شبہے میں جارج فلائیڈ کو حراست میں لیا تھا جہاں وہ دوران حراست دم توڑ گئے تھے۔

شہری کی گرفتاری کے حوالے سے سامنے آنے والی ویڈیو میں دکھا جاسکتا ہے کہ پولیس افسر ان کی گردن دبا رہے ہیں جبکہ جارج فلائیڈ کو یہ کہتے ہوئے سنا جاسکتا ہے کہ وہ سانس نہیں لے پارہے ہیں۔

اس پر امریکی صدر نے ایک ٹوئٹ کی تھی جس کو ٹوئٹر نے چھپاتے ہوئے نوٹس لگایا تھا جس پر لکھا تھا کہ اس ٹوئٹ میں ٹوئٹر کے قواعد کی خلاف ورزی کرتے ہوئے تشدد کو بڑھاوا دیا گیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: ٹوئٹر کی طرح امریکی صدر کی پوسٹس پر کارروائی نہیں کریں گے، فیس بک

مگر فیس بک نے اس پیغام پر کسی قسم کی کارروائی سے انکار کردیا تھا جبکہ مارک زکربرگ نے بظاہر امریکی صدر اور ٹوئٹر کے درمیان تنازع سے خود کو دور رکھنے کی کوشش کی۔

جمعے کو مارک زکربرگ نے ایک فیس بک پوسٹ میں کہا کہ اگرچہ انہوں نے ڈونلڈ ٹرمپ کے الفاظ کو اچھا نہیں سمجھا مگر اس سے کمپنی کی تشدد کو اکسانے کی پالیسی کی خلاف ورزی نہیں ہوتی اور لوگوں کو جاننا چاہیے کہ حکومت طاقت کے استعمال کی کس طرح منصوبہ بندی کررہی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فیس بک وائٹ ہاؤس کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ کمپنی کی پالیسیوں کی وضاحت کرسکے۔

تبصرے (0) بند ہیں