نسل پرستی صرف فٹبال ہی نہیں بلکہ کرکٹ میں بھی ہے، کرس گیل

اپ ڈیٹ 10 جون 2020
کرس گیل نے کہا کہ انہیں کیریئر میں کئی مرتبہ نسل پرستانہ رویے کا سامنا کرنا پڑا— فائل فوٹو: اے ایف پی
کرس گیل نے کہا کہ انہیں کیریئر میں کئی مرتبہ نسل پرستانہ رویے کا سامنا کرنا پڑا— فائل فوٹو: اے ایف پی

امریکا میں سیاہ فام شہری کے قتل کے خلاف امریکا سمیت دنیا بھر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں اور اب کھیلوں کی برادری بھی سراپا احتجاج ہے۔

دنیا بھر کے کھیلوں سے جارج فلائیڈ کے حق میں آوازیں بلند ہو رہی ہیں اور اب کرکٹر خصوصاً ویسٹ انڈین کرکٹرز نے بھی احتجاج کرتے ہوئے سیاہ فام امریکی شہری کے حق میں آواز بلند کی ہے۔

سابق ویسٹ انڈین کپتان ڈیرن سیمی اور کرس گیل نے اس بہیمانہ قتل کی مذمت کرتے ہوئے کرکٹ سے بھی نسل پرستی کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔

ڈیرن سیمی نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر ہر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ جو کچھ امریکا میں ہوا اس کے بعد بھی اگر اس وقت دنیائے کرکٹ رنگ کی بنیاد پر کی جانے والی ناانصافی کے خلاف یکجا نہیں ہوتی تو آپ بھی اس مسئلے کا حصہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کیا انٹرنیشنل کرکٹ کونسل اور دیگر کرکٹ بورڈ نہیں دیکھ رہے کہ مجھ جیسے لوگوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟ کیا آپ مجھے جیسوں سے ہونے والی سماجی ناانصانی کے خلاف آواز بلند نہیں کریں گے، یہ صرف امریکا کا مسئلہ نہیں، یہ سیاہ فاموں کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر ہو رہا ہے اور اب خاموش رہنے کا وقت نہیں۔

پاکستان سپر لیگ کی فرنچائز پشاور زلمی کے مینٹور نے کہا کہ سیاہ فام لوگ ایک عرصے سے مشکلات سے دوچار ہیں، میں سینٹ لوشیا میں ہوں اور اگر آپ مجھے اپنی ٹیم کا حصہ سمجھتے ہیں تو میں بھی بہت افسردہ اور مایوس ہوں، کیا آپ اس مقصد کی حمایت کر کے تبدیلی کا حصہ بنیں گے۔

سیمی کے ساتھ ساتھ جارح مزاج ویسٹ انڈین بلے باز کرس گیل نے بھی اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاتے ہوئے کہا کہ اور لوگوں کی زندگی کی طرح سیاہ فاموں کی زندگی بھی اہمیت رکھتی ہے، سیاہ فام لوگوں کو بے وقوف سمجھنا چھوڑ دیں۔

انہوں نے انکشاف کیا کہ میں نے دنیا بھر میں سفر کیا اور سیاہ فام ہونے کی وجہ سے مجھے نسل پرستانہ جملوں کا سامنا کرنا پڑا، نسل پرستی صرف فٹبال ہی نہیں بلکہ کرکٹ میں بھی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چند ٹیموں میں سیاہ فام ہونے کی وجہ سے ان سے متعصبانہ رویہ اختیار کیا گیا لیکن انہیں اپنے سیاہ فام ہونے پر فخر ہے۔

ادھر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے کہا ہے کہ انہوں نے ہمیشہ نسل پرستی کی مذمت کی ہے اور اسے کبھی بھی برداشت نہیں کیا، ضابطہ اخلاق کے تحت ناصرف کھلاڑی کو سزا دی جاتی ہے بلکہ معاملے کو بہتر انداز میں سمجھنے اور آگاہی دینے کے لیے اسے تعلیمی پروگراموں سے بھی گزرنا پڑتا ہے۔

آئی سی سی نے کہا کہ ہم نے اس طرح کا رویہ کبھی برداشت نہیں کیا اور اس طرح کے عمل پر تاحیات پابندی تک کی بھی سزا ہے اور ہم اپنے اراکین کو بھی اس حوالے سے ہدایات دیتے ہوئے یہ بات واضح کر چکے ہیں کہ کسی سے بھی امتیازی سلوک یا نسل پرستانہ رویے کو ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا۔

ادھر انگلینڈ کرکٹ بورڈ نے بھی امتیازی سلوک اور نسل پرستی کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے ایک تصویر ٹوئٹ کی جس میں سیاہ فام کرکٹر جوفرا آرچر کو ساتھی کھلاڑیوں جوز بٹلر اور عادل رشید کے گلے لگے دیکھا جا سکتا ہے۔

واضح رہے کہ پیر کے روز امریکا کی ایک سیاہ فام شخص کی ہلاکت کی ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں ایک پولیس اہلکار نے اس کی گردن پر اس سختی سے اپنا گھٹنا رکھا ہوا تھا کہ وہ آخر کار سانس نہ آنے کی وجہ سے دم توڑ گیا تھا۔

امریکی ریاست مینسوٹا میں جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے بعد احتجاج کا سلسلہ شروع ہوا تھا جس نے اس وقت کورونا وائرس کے خطرے کے باوجود پورے امریکا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جبکہ 40 سے زائد شہروں میں کرفیو نافذ ہے۔

امریکا میں لوگ لاکھوں کی تعداد میں سڑکوں پر احتجاج کر رہے ہیں اور اس دوران مختلف شہروں میں بڑی بڑی دکانوں اور اسٹورز کو لوٹنے کے ساتھ ساتھ مشتعل مظاہرین کی جانب سے گاڑیوں سمیت دیگر املاک کو نذر آتش کردیا گیا۔

اس رویے کے خلاف دنیا کے مختلف کھیلوں میں کھلاڑیوں اور ٹیموں کی جانب سے احتجاج کیا جا چکا ہے اور گزشتہ روز انگلش فٹبال کلب لیورپول کے کھلاڑیوں نے ٹریننگ کے دوران گھٹنے پر بیٹھ کر علامتی طور پر اپنا احتجاج ریکارڈ کرایا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں