کورونا کی لہر نے کرکٹ میں بال ٹیمپرنگ کی گنجائش پیدا کردی؟

اپ ڈیٹ 11 جون 2020
دنیا بھر میں مشہور اور وقت کی رفتار کے ساتھ چلنے والی گیند ساز کمپنی کوکابورا پہلے ہی گیند کو چمکانے کے لیے مومی مائع کی تیاری میں مصروف ہے
دنیا بھر میں مشہور اور وقت کی رفتار کے ساتھ چلنے والی گیند ساز کمپنی کوکابورا پہلے ہی گیند کو چمکانے کے لیے مومی مائع کی تیاری میں مصروف ہے

ہم سب جانتے ہیں کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے بعد دنیا کافی بدل چکی ہے۔ چند ماہ قبل اگر آپ ماسک پہن کر بینک میں داخل ہوتے تو سیکیورٹی گارڈ آپ کی طرف نظریں گاڑے بیٹھا ہوتا اور یہ سوچنے بیٹھ جاتا کہ کہیں آپ ڈکیتی کے ارادے سے تو نہیں گھس آئے ہیں۔ لیکن آج تو وہ خود ماسک پہنے نظر آ رہا ہے۔

پہلے بار بار ہاتھ دھونے اور دروازوں کے ہینڈلوں، جوتوں اور کپڑوں کی صفائی دماغی مسئلہ شمار ہوتا تھا لیکن اب یہ ایک نیا معمول بن چکا ہے۔ جتنا دل چاہے اتنا خود کو جراثیم سے پاک کرنے کی کوشش کیجیے اور کوئی بھی آپ پر اپنا فیصلہ صادر نہیں کرے گا۔

اسی طرح کرکٹ میں بھی یہ مباحثہ جاری ہے کہ کرکٹ کی گیند کو چمکانے کے لیے کون سے مصنوعی مادے کے استعمال کو جائز قرار دیا جاسکتا ہے کیونکہ اب تھوک سے گیند کو چمکانے کا عمل کھلاڑیوں کی صحت کے لیے ایک بڑا خطرہ ثابت ہوسکتا ہے۔

سابق آسٹریلوی کپتان ای این چیپل جو کرکٹ کے حوالے سے آپ اور مجھ سے زیادہ علم رکھتے ہیں انہیں لگتا ہے کہ کرکٹ میں تھوڑی بہت بال ٹیمپرنگ کی اجازت دی جانی چاہیے۔ دنیا بھر میں مشہور اور وقت کی رفتار کے ساتھ چلنے والی گیند ساز کمپنی کوکابورا پہلے ہی گیند کو چمکانے کے لیے مومی مائع کی تیاری میں مصروف ہے۔ دیگر لفظوں میں کہیں تو جو بال ٹیمپرنگ کبھی ناگوار امر تصور کی جاتی تھی وہ اب کرکٹ کا نیا معمول بن جائے گی۔

بال ٹیمپرنگ کے تمام پہلوؤں کے بارے میں پاکستان سے زیادہ بہتر جان کاری کسی دوسرے ملک کے پاس نہیں ہوگی۔ 1990ء کی دہائی میں بال ٹیمپرنگ کی اصطلاح پاکستانی کرکٹ سے منسوب رہی۔

1992ء میں پاکستان کے دورہ انگلینڈ کے آخر میں اس وقت نیا پنڈورا باکس کھلا جب جنوبی افریقی نژاد انگلش کھلاڑی ایلن لیمب نے پاکستانی کھلاڑیوں پر بال ٹیمپرنگ کا الزام عائد کیا۔ تاہم اس وقت یارک شائر سے تعلق رکھنے والے جیفری بائیکاٹ ہی تھے جو پاکستانی کھلاڑی کے دفاع کے لیے آگے بڑھے اور کہا کہ 'وقار اور وسیم اس وقت اتنی زبردست فارم میں ہیں کہ وہ انگلینڈ کی ٹیم کو نارنجی سے بھی ڈھیر کرسکتے ہیں'۔

کہا جاتا ہے کہ سرفراز ہی وہ کھلاڑی تھے جنہوں نے اس 'فن' کو پاکستان میں متعارف کروایا تھا۔ 1960ء کی دہائی میں لاہور جم خانہ میں نیٹ پریکٹس کرتے وقت فرسٹ کلاس گیند باز نے 17 سالہ سرفراز کو چند چالیں سکھائیں، اور انہوں نے اگلے ہی میچ میں ان چالوں کو استعمال کیا اور حیرت انگیز طور پر غیر روایتی سوئنگ حاصل کرلی جو آگے چل کر ریورس سوئنگ کے نام سے مشہور ہوئی۔

سرفراز کو اپنی بُری ساکھ کی پرواہ نہیں تھی، یہ الگ بات ہے کہ وہ ہمیشہ اس مؤقف پر قائم رہے کہ انہوں نے کسی قسم کا غلط طریقہ اپنائے بغیر ریورس سوئنگ کی صلاحیت کو سیکھا ہے۔ وہ بڑے فخریہ انداز میں یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ انہوں نے ہی عمران خان کو یہ فن سکھایا تھا اور پھر عمران خان نے یہ فن وسیم اکرم اور وقار یونس میں منتقل کیا۔ یہ فن اسی طرح ایک سے دوسرے کھلاڑی میں منتقل ہوا جس طرح ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کے مختلف گھرانے ایک سے دوسری نسل میں موسیقی کے فن کو منتقل کرتے ہیں۔

1990ء میں جب وقار یونس اور وسیم اکرم اپنی شاندار ریورس سوئنگ سے پاکستان کے دورے پر آئے کیویز کا ایک کے بعد ایک شکار کر رہے تھے تب کیوی فاسٹ باؤلر کرس پرنگل کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوا اور انہوں نے کہا 'بس اب بہت ہوا'، اور انہوں نے مخالف ٹیم کو انہی کے چورن سے مزہ چکھانے کا فیصلہ کیا۔ پرنگل نے گیند کو گھمانے کے لیے بوتل کے ڈھکن کو استعمال کرتے ہوئے شاندار گیند بازی کی۔ فیصل آباد کی جس بے جان وکٹ کو کبھی ڈینس للی گیند بازوں کا قبرستان پکارا کرتے تھے وہاں پرنگل نے 11 وکٹیں لیں اور اپنی ٹیم کو تقریباً فتح کے قریب لے آئے۔

وہ چیزیں جن کی مدد سے گزشتہ برسوں کے دوران گیند کی حالت تبدیل کی جاتی رہی۔
وہ چیزیں جن کی مدد سے گزشتہ برسوں کے دوران گیند کی حالت تبدیل کی جاتی رہی۔

ماضی میں مشہور پاکستانی گیند بازوں وقار یونس اور شعیب اختر کو کھلے عام اس فن کا مظاہرہ کرنے پر سخت تنقید کا نشانہ بھی بنایا جاچکا ہے۔ شعیب اختر اپنی خود نوشت Controversially Yours میں لکھتے ہیں کہ 'تقریباً سبھی پاکستانی فاسٹ باؤلرز گیند سے چھیڑ چھاڑ کرچکے ہیں۔ کھل کر اس بات کو تسلیم کرنے والا بھلے ہی میں پہلا کھلاڑی ہوں لیکن یہ کام ہر کوئی کر رہا ہے'۔

2011ء میں آسٹریلیا میں ہمارے لالا یعنی لیگ اسپنر شاہد آفریدی نے تو اپنے ساتھی کھلاڑی رانا نوید الحسن کے لیے گیند کو چبا کر 'تیار' کرنے کی بھی کوشش کی۔ رانا کی بناوٹی مسکراہٹ اور اپنے کپتان آفریدی سے چرائی جانے والی نظروں نے ہمیں اس بات پر یقین کرنے پر مجبور کردیا کہ وہ اس عمل سے زیادہ متاثر نہیں تھے اور وہ اکیلے نہیں تھے۔ کرکٹ کی گیند کو چبانا مہذب طریقہ نہیں ہے اور یہ تھوڑی بچکانہ حرکت محسوس ہوتی ہے۔ یہ واقعہ کرکٹ سے دیوانگی رکھنے والے اس ملک کی رسوائی کی وجہ بنا جس نے بال ٹیمپرنگ کو دغا بازی نہیں بلکہ فن یا زیادہ وضاحت کے ساتھ کہیں تو کرکٹ کا ایک ہنر تصور کیا تھا۔

ہمارے ڈومیسٹک میچوں میں امپائر ہر اس کھلاڑی پر کڑی نگاہ رکھتے ہیں جو اس زبردست فن کی ساکھ کو خراب کرتے ہیں۔ ایک فرسٹ کلاس کرکٹر جو پاکستان کے لیے صرف واحد ایک روزہ میچ کھیل سکے اور جن کا فرسٹ کلاس اسکور 8 ہزار 168 ہے، انہوں نے ایک بار ٹی وی پر گفتگو کے دوران کہا تھا کہ 'بال ٹیمپرنگ فرسٹ کلاس میچوں میں بھرپور طریقے سے سرائیت کرچکی ہے اور امپائر اکثر اس معاملے میں کافی چھوٹ بھی دیتے ہیں۔ ستم ظریفی دیکھیے کہ ایک بار مجھے صرف اس لیے جرمانہ عائد کردیا تھا کیونکہ میں نے یہ عمل ان کے نوٹس میں لانے کی کوشش کی تھی'۔

یہی وجہ ہے کہ جب 3 آسٹریلوی کھلاڑیوں کیمرون بین کروفٹ، اسٹیو اسمتھ اور ڈیوڈ وارنر پر بال سے چھیڑ چھاڑ کرنے پر بین الاقوامی کرکٹ کھیلنے پر عارضی پابندی لگی تو پاکستانیوں نے پوری شادمانی کے ساتھ سوشل میڈیا پر میمز کا انبار لگا دیا۔ زیادہ تر پاکستانیوں کے اندر کہیں نہ کہیں ان کھلاڑیوں کے لیے نرم گوشہ تھا۔ اسی لیے اس وقت جب ان لڑکوں کے پاس چھپنے کے لیے کوئی ٹھکانہ دستیاب نہیں تھا تب وہ بڑے مزے سے پاکستان آسکتے تھے اور یہ جانتے کہ ہم ان سے کس قدر پیار کرتے ہیں۔

خیر ہم بھلے ہی اس فن کی بنیاد ڈالنے اور اس پر عبور رکھنے والے ہوں لیکن یہ عمل کرنے والے ہم اکیلے نہیں ہیں۔ انگلش کھلاڑی بھی بال ٹیمپرنگ کی تاریخ میں برابر کے حصہ دار ہیں مگر بیتے ہوئے برسوں میں انہوں نے شاید گیند کو چمکانے سے زیادہ کھرچنے پر توجہ مرکوز کی ہے۔ شاید بوتل کے ڈھکن سے زیادہ انہیں ویزلن کا استعمال پسند تھا۔ ہاں البتہ مائیکل آتھرٹن کی جانب سے گیند پر لگی گرد کو 'بے ضرر' انداز میں رگڑ کر ہٹانے اور اسٹورٹ براڈ کی جانب سے باؤلنگ اسپائکس کے بے رحمانہ استعمال کا معاملہ اپنی جگہ موجود ہے۔

پاکستان میں کئی لوگ یہ مانتے ہیں کہ لیگ اسپن کروانے والے ماہر پاکستانی کردار مشتاق احمد نے انگلش ٹیم کو اس فن کے اہم ترین پہلوؤں سے روشناس کروایا۔ جی بالکل انگلش کھلاڑی کاؤنٹی کرکٹ کھیلتے وقت اس فن سے واقف تھے لیکن بین الاقوامی میدان پر کامیابی کے ساتھ اس کی انجام دہی یکسر مختلف معاملہ ہے۔

یہ عمل کرنے والے ہم اکیلے نہیں ہیں۔ انگلش کھلاڑی بھی بال ٹیمپرنگ کی تاریخ میں برابر کا حصہ رکھتے ہیں
یہ عمل کرنے والے ہم اکیلے نہیں ہیں۔ انگلش کھلاڑی بھی بال ٹیمپرنگ کی تاریخ میں برابر کا حصہ رکھتے ہیں

ہمارے مشرقی پڑوسی بھارت کے ہاں بال ٹیمپرنگ کرنے والے زیادہ مجرم نہیں پائے جاتے۔ شاید کپل دیو اپنے پسندیدہ ہم منصب عمران خان کی طرح نئے خیالات کو آزمانے کا زیادہ شوق نہیں رکھتے تھے۔ پھر بھی (میدان کے اندر اور میدان سے باہر) بھارت کے 2 نفیس ترین کھلاڑی سچن ٹنڈولکر اور راہول ڈریوڈ پر بال ٹیمپرنگ کے مقبول رجحان کی لہر میں بہنے کے الزامات لگائے گئے۔ سچ پوچھیں تو ٹیمپرنگ کے دیگر شرمناک واقعات کو دیکھیں تو یہ بے گناہ معصوم سے نظر آئیں گے۔

سیاستدان بننے کے بعد بھلے ہی لوگ عمران خان کو پسند نہیں کرتے، مگر بطور کھلاڑی کرکٹ کے بارے میں ان کے علم پر شک کرنے والے کم ہی ہوں گے۔ یہ عمران خان ہی تھے جنہوں نے ہمیں 1980ء اور 1990ء کی دہائی میں بتایا تھا کہ بال ٹیمپرنگ ایک فن ہے اور یہ ہر کوئی کرتا ہے۔ ایوو ٹینانٹ کی جانب سے عمران خان پر لکھی گئی سوانح حیات میں شاندار کرکٹر نے یہ تسلیم کیا کہ سسیکس اور ہمپشائر کے درمیان کاؤنٹی میچ کے دوران انہوں نے گیند کی حالت کو بدلنے کے لیے بوتل کے ڈھکن کو استعمال کیا تھا۔

کیا ہم یہ بات بھول گئے ہیں کہ عمران خان ہی وہ واحد کھلاڑی تھے جنہوں نے غیر جانبدار امپائروں کے تصور کو دنیا کے سامنے لانے کی پہل کی تھی؟ یہی وجہ ہے کہ جب وہ کرکٹ (نہ کہ سیاست) کی باتیں کرتے ہیں تو ہم سنتے ہیں۔

دوستو تیار ہوجائیے، اب وہ وقت دُور نہیں کہ جب ایم سی سی ورلڈ کرکٹ کمیٹی لارڈ کے تاریخی کمروں میں سے ایک میں بیٹھے گی اور اس کے ممبران چائے کے ساتھ کھیرے کے سینڈوچوں سے محظوظ ہوں گے، پھر کرکٹ کے قوانین میں تبدیلی لائیں گے اور کرکٹ کو مزید کورونا سے محفوظ بنائیں گے۔ اگر یہ سب ہوتا ہے تو اس بات کو مت بھولیے گا کہ اس بارے میں سب سے پہلے عمران خان نے ہمیں بتایا تھا نہ کہ ای این چیپل نے۔


یہ مضمون ڈان کے ایؤس میگزین میں 31 مئی 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں