امریکا: سیاہ فام کی ہلاکت کے مقدمے میں چاروں پولیس افسران پر فردِ جرم عائد

اپ ڈیٹ 05 جون 2020
گزشتہ ہفتے ڈیریک چاوین پر تھرڈ ڈگری یا تیسرے درجے کے قتل کی فرد جرم عائد کی گئی تھی — فائل فوٹو: اے ایف پی
گزشتہ ہفتے ڈیریک چاوین پر تھرڈ ڈگری یا تیسرے درجے کے قتل کی فرد جرم عائد کی گئی تھی — فائل فوٹو: اے ایف پی

امریکی ریاست مینیسوٹا کے سفید فام افسر پر سیاہ فام شہری کی ہلاکت کے مقدمے میں سیکنڈ ڈگری یا دوسرے درجے کے قتل کی فرد جرم عائد کردی گئی جبکہ ان کے 3 ساتھیوں کو بھی فرد جرم کا سامنا ہے۔

فرانسیسی خبررساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مذکورہ پولیس افسر نے جارج فلائیڈ نامی ایک سیاہ فام امریکی شہری کے گردن کو گھٹنے سے دبائے رکھا جس کے بعد وہ دم توڑ گیا، جارج فلائیڈ پر الزام تھا کہ اس نے جعلی نوٹ سے سگریٹ خریدنے کی کوشش کی۔

25 مئی کو رونما ہونے والے اس کے واقعے بعد امریکا کی متعدد ریاستوں میں نسل پرستی کے خلاف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا جس کے دوران تشدد اور لوٹ مار کے متعدد واقعات بھی رونما ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا: سیام فام شخص کے قتل کے الزام میں پولیس افسر کےخلاف مقدمہ

امریکی سینیٹر ایمی کلوبچر نے ٹوئٹر پیغام میں بتایا کہ ’منی سوٹا کے اٹارنی جنرل کیتھ ایلیسن جارج فلائیڈ قتل کیس میں ڈیریک چاوین کے خلاف فرد جرم میں اضافہ کررہی ہے اور ساتھ ہی ان کے 3 ساتھیوں پر بھی فردِ جرم عائد کی جارہی ہے‘۔

خیال رہے کہ گزشتہ ہفتے ڈیریک چاوین پر تھرڈ ڈگری یا تیسرے درجے کے قتل کی فرد جرم عائد کی گئی تھی جو تقریباً غلطی سے قتل کے مشابہہ ہوتی ہے تاہم دوسرے درجے کے قتل کی فرد جرم سوچے سمجھے قتل کی نشاندہی نہیں کرتی البتہ اس پر سخت سزا دی جاسکتی ہے۔

عدالتی دستاویز کے مطابق دوسرے درجے کے قتل کی فرد جرم کو پہلے سے موجود فرد جرم میں شامل کردیا گیا جبکہ دیگر 3 افسران کو دوسرے درجے کے قتل میں معاونت اور ہمت افزائی کے الزام کا سامنا ہے۔

ان افسران میں 34 سالہ ٹو تھاؤ، 26 سالہ جے الیگزینڈر اور 37 سالہ تھامس لین شامل ہیں جنہیں حراست میں لے لیا گیا ہے، چاروں افسران کی حراست مظاہرین کا بنیادی مطالبہ تھا۔

مزید پڑھیں: امریکا:شہری کی ہلاکت کے خلاف کرفیو کے باوجود ہزاروں افراد کا احتجاج

دوسری جانب جارج فلائیڈ کے اہلِ خانہ نے ایک بیان میں پولیس افسران کے خلاف نئی فرد جرم کو ’ تلخ و شیریں لمحہ‘ قرار دیا۔

مظاہرین کا نئی فرد جرم کا خیر مقدم، احتجاج پھر بھی جاری

دوسری جانب جارج فلائیڈ کی ہلاکت کے خلاف احتجاج کرنے والے مظاہرین نے پولیس افسران کے خلاف نئی فردِ جرم کا خیر مقدم کیا تاہم امریکا بھر میں مسلسل نویں رات بھی ہزاروں افراد کا مارچ جاری رہا جو پولیس کی بے رحمی اور نسل پرستی کے خلاف نعرے لگا رہے تھے۔

سب سے اہل مطالبہ پورا ہونے کے باوجود مظاہرین نے نیویارک سے لاس اینجلس تک بڑی اور پر امن ریلیاں نکالیں جن میں حقیقی تبدیلی کے مطالبے کیے گئے۔

اس ضمن میں احتجاج میں شامل ایک شخص کا کہنا تھا کہ فرد جرم ایک ’اچھا آغاز‘ ہے لیکن ساتھ ہی اس بات پر زور دیا کہ مظاہرین ’اپنے احتجاج کا حق اس وقت تک استعمال کرتے رہیں گے جب تک ہر سیاہ فام کو اس کے حق کے مطابق انصاف نہیں مل جاتا‘۔

ایک اور شخص کا کہنا تھا کہ ’یہ کافی نہیں، اسے ایک ہفتے قبل ہی ہوجانا چاہیے تھا لیکن اس وقت تک نہیں ہوا جب تک لوگوں نے سڑکوں پر نکل کر توڑ پھوڑ نہ شروع کردی جس سے لوگ اس جانب متوجہ ہوئے‘۔

جم میٹس کا ڈونلڈ ٹرمپ پر امریکا کو تقسیم کرنے کا الزام

دوسری جانب پینٹاگون کے سابق سربراہ جِم میٹس کے بیان سے ڈونلڈ ٹرمپ پر دباؤ میں اضافہ دیکھنے میں آیا جس میں انہوں نے امریکی صدر کو شورش کے دوران امریکا کو ’تقسیم' کرنے کا الزام عائد کیا۔

یہ بھی پڑھیں: امریکا: سیاہ فام نواجون کی ہلاکت پر احتجاج میں شدت، 10 ہزار مظاہرین گرفتار

خیال رہے کہ امریکی صدر نے جارج فلائیڈ کی ہلاکت کی مذمت کرتے ہوئے مظاہرین کے خلاف سخت مؤقف اپناتے ہوئے کہا تھا کہ ان میں بہت سے’برے لوگ‘ شامل ہیں اور گورنرز سے سڑکوں پر غلبہ حاصل کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔

ایک اور بیان میں انہوں نے کہا تھا کہ ’ہمیں امن و عامہ کی ضرورت ہے‘۔

دوسری جانن جم میٹس نے ڈونلڈ ٹرمپ پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ’میری زندگی میں یہ پہلے صدر ہیں جو امریکی عوام کو متحد کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور حتیٰ کہ ایسی کوشش کرنے کا اظہار بھی نہیں کرتے‘۔

ادھر سابق امریکی صدر باراک اوباما نے نسلی انصاف کا مطالبہ کرنے والے امریکیوں میں ‘سوچ کی تبدیلی‘ کی تعریف کی۔

جارج فلائیڈ کی ہلاکت

خیال رہے کہ 25 مئی کو ایک سیاہ فام شخص کی ہلاکت کی ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں ایک پولیس اہلکار نے اس کی گردن پر اس سختی سے اپنا گھٹنا رکھا ہوا تھا کہ وہ آخر کار سانس نہ آنے کی وجہ سے دم توڑ گیا تھا۔

جس کے بعد مینیا پولس شہر میں ہنگامہ مچ گیا اور مشتعل مظاہرین گھروں سے نکل آئے، پولیس اسٹیشنز سمیت کئی عمارتوں کو آگ لگائی، کھڑکیاں توڑ دی گئیں اور اسٹورز کو لوٹ لیا گیا۔

اس کے علاوہ مظاہرین نے پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگادی اور براہِ راست پتھراؤ بھی کیا جبکہ پولیس کی جانب سے ان پر ربر کی گولیاں اور آنسو گیس کے شیلز برسائے گئے۔

بعدازاں احتجاج کا یہ سلسلہ امریکا کی کی ریاستوں تک پھیل گیا اور بے امنی کے واقعات کے پیشِ نظر حکام نے نہ صرف نیشنل گارڈز کو متحرک کیا بلکہ کئی شہروں میں کرفیو بھی ناٖفذ کردیا گیا۔

پرتشدد مظاہروں کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے احتجاج کرنے والے شہریوں کو مقامی دہشت گرد سے تعبیر کرتے ہوئے ان پر لوٹ مار کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں