اسٹیل ملز کی بحالی کیلئے نجی شراکت قائم کرنا ضروری ہے، حماد اظہر

اپ ڈیٹ 04 جون 2020
وزیر صنعت کے مطابق حکومت اس مسئلے کو حل کرنا چاہ رہی ہے تو سیاسی جماعتیں پوائنٹ اسکورنگ کررہی ہیں—فوٹو: ڈان نیوز
وزیر صنعت کے مطابق حکومت اس مسئلے کو حل کرنا چاہ رہی ہے تو سیاسی جماعتیں پوائنٹ اسکورنگ کررہی ہیں—فوٹو: ڈان نیوز

وفاقی وزیر صنعت حماد اظہر نے کہا ہے کہ اسٹیل ملز کی بحالی کیلئے نجی شراکت قائم کرنا ضروری ہے۔

اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2008 سے اب تک مختلف حکومتوں نے اسٹیل ملز کو دوبارہ کھڑا کرنے کے لیے تقریباً 90 ارب روپے کے بیل آؤٹس اور دیگر تعاون فراہم کیا لیکن وہ نہ ہوسکا۔

حماد اظہر نے کہا کہ جب ہماری حکومت آئی تو اسٹیل ملز کا خسارہ 176 ارب روپے تک ہوچکا تھا اور 2018 میں اس کا قرضہ 210 ارب روپے سے بھی تجاوز کرچکا تھا اور دن بدن اس قرضے پر سود اور نقصانات بھی بڑھ رہے ہیں اور حکومت کو تقریباً 70 کروڑ روپے ماہانا تنخواہوں اور سود کی مد میں ادا کرنا پڑتا ہے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ان ساری چیزوں کے پیش نظر کوئی فیصلہ ضروری تھا اور اس مل کے مستقبل کے حوالے سے جائزے کے لیے ماہرین کا پینل بٹھایا۔

مزید پڑھیں: اقتصادی رابطہ کمیٹی کی اسٹیل ملز کے 9 ہزار 350 ملازمین فارغ کرنے کی منظوری

انہوں نے کہا کہ ہم نہیں چاہتے کہ جس طرح پچھلی حکومتیں آئیں، جو اس مل کو بحال کرسکیں نہ اس کی نجکاری کرسکیں، ملازمین کو وقت پر تنخواہیں نہ دے سکی اور قرضے پر قرضہ بڑھاتی چلی گئی جو اب 230 ارب روپے ہوچکا ہے، یہ اس 55 ارب روپے کے علاوہ ہے جو حکومت گزشتہ ساڑھے 5 برس میں اس بند ملز کے ملازمین کو تنخواہوں کی مد میں ادا کرچکی ہے۔

حماد اظہر نے کہا کہ ہم سجھتے ہیں کہ اسٹیل ملز خسارے میں گئی پھر بند ہوگئی، اس کی نجکاری نہ کی جاسکی تو اس میں اسٹیل ملز کے ملازمین کا کوئی قصور نہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حکومت نے 2 مراحل میں اسٹیل ملز کے ملازمین کو سہولت فراہم کرنے کا فیصلہ کیا ہے، جس میں انہیں ایک ماہ کی تنخواہ سے زائد ریٹائرمنٹ کے واجبات جس میں پروہیبیٹڈ فنڈ، گریجویٹی ادا کی جائے گی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ اس ضمن میں حکومت پر 20 ارب روپے کا خرچ آئے گا اور اوسطاً فی ملازم کو 23 لاکھ روپے ملیں گے، کئی ایسے لوگ بھی ہیں جنہیں اپنی مدت کے دورانیے اور اسکیل کے لحاظ سے 70 سے 80 لاکھ روپے دیے جائیں گے۔

حماد اظہر نے کہا کہ ایسا کرنے سے حکومت کے ماہانہ 70 کروڑ روپے کی بچت ہوگی، اسٹیل ملز کی بحالی کے لیے ضروری ہے کہ کسی نجی سرمایہ کار یا آپریٹر کو اسٹیل پلانٹ میں لے کر آئیں۔

انہوں نے کہا کہ یہ بھی ضروری ہے کہ اسٹیل ملز پر جو قرضہ چڑھا ہوا ہے اسے ری اسٹرکچر کیا جائے اور ملازمین کی تنخواہوں کے مسئلے سے بھی نمٹا جائے۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ 12 مارچ کو سپریم کورٹ نے بہت وضاحت کے ساتھ پاکستان اسٹیل ملز کے لیے جو کلمات ادا کیے کہ حکومت کیوں اس بند مل کو تنخواہیں بھی دے رہی ہے اور ملازمین کی پروموشن بھی ہورہی ہیں۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 2015 سے اب تک حکومت کو تنخواہوں کی مد میں 35 ارب روپے ادا کرچکی ہے اور ماہانہ 34 کروڑ روپے تنخواہوں پر اخراجات ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے حکومت کو پاکستان اسٹیل ملز کی زمین فروخت کرنے سے روک دیا

حماد اظہر نے کہا کہ اسٹیل ملز کی نجکاری میں 15 پارٹیز دلچسپی رکھتی ہیں وہ اس کے بنیادی اسٹیل آپریشنز جو 1800 ایکڑ زمین پر مشتمل ہے ان میں دلچسپی رکھتے ہیں، اسے لیز آؤٹ کرنے کا ارادہ ہے اور یہ حصہ پاکستان اسٹیل ملز کی ملکیت میں ہی رہے گا۔

وفاقی وزیر کا کہنا تھا کہ اسٹیل ملز کی بحالی کے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ حکومت آنر اور آپریٹر کے موڈ سے نکل کر آنر اور پالیسی ساز کا کردار ادا کرے اور نجی شراکت قائم کرے تاکہ اس کے نقصانات بھی ختم ہوں۔

انہوں نے کہا کہ کچھ سیاسی جماعتوں نے اس پر سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کی کوشش کی جبکہ انہی کے ادوار میں اسٹیل ملز منافع سے خسارے میں گئی، نہ بحال ہوسکی، اس کی نجکاری نہیں ہوسکی اور نہ ہی ملازمین کو وقت پر ادائیگیاں کی گئیں۔

حماد اظہر نے کہا کہ جب حکومت اس مسئلے کو حل کرنا چاہ رہی ہے تو سیاسی جماعتیں اپنی ذمہ داری قبول کرنے کے بجائے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کررہی ہیں۔

خیال رہے کہ گزشتہ روز حکومت نے یکمشت ادائیگی کے لیے 20 ارب روپے کی منظوری کے ساتھ پاکستان اسٹیل ملز (پی ایس ایم) کے 9 ہزار 350 ملازمین کو ملازمتوں سے فارغ کرنے کی منظوری دی تھی۔

اس سلسلے میں فیصلہ وزیراعظم کے مشیر خزانہ ڈاکٹر عبدالحفیظ شیخ کی سربراہی میں ہونے والے اقتصادی رابطہ کمیٹی (ای سی سی) کے اجلاس میں کیا گیا تھا۔

اجلاس کے حوالے سے جاری ہونے والے باضابطہ بیان کے مطابق ’اجلاس میں عدالت عظمیٰ کے فیصلوں، احکامات اور پاکستان اسٹیل ملز کے حوالے سے دیگر عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات کی روشنی میں پاکستان اسٹیل ملز کے ہیومن ریسورس رئیلائزیشن منصوبے کی مکمل اور حتمی منظوری دے دی گئی‘۔

اس سے قبل منصوبے میں 18 ارب 74 کروڑ روپے کی لاگت میں 8 ہزار ملازمین کو فارغ کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں