ٹوئٹر نے ڈونلڈ ٹرمپ کی ویڈیو ڈیلیٹ کردی

اپ ڈیٹ 05 جون 2020
امریکی صدر کی تشہیری ٹیم نے ویڈیو کو شیئر کیا تھا—فائل فوٹو: رائٹرز
امریکی صدر کی تشہیری ٹیم نے ویڈیو کو شیئر کیا تھا—فائل فوٹو: رائٹرز

مائکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹوئٹر نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تشہیری ٹیم کی جانب سے گزشتہ ہفتے پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے سیاہ فام امریکی شخص جارج فلائیڈ کو خراج تحسین پیش کرنے کی شیئر کی گئی ویڈیو کو کاپی رائٹس کی وجہ سے ہٹادیا۔

ڈونلڈ ٹرمپ کے آفیشل تشہیری ٹوئٹر اکاؤنٹ Team Trump (Text TRUMP to 88022) پر شیئر کی گئی 4 منٹ سے کم دورانیے کی ویڈیو میں پولیس کے ہاتھوں ہلاک کیے جانے والے سیاہ فام امریکی جارج فلائیڈ کو خراج تحسین پیش کیا گیا تھا۔

خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق مائکرو بلاگنگ ویب سائٹ کے عہدیدار نے ڈونلڈ ٹرمپ کی تشہیری ٹیم کی جانب سے شیئر کی گئی ویڈیو کو ہٹانے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ مذکورہ ویڈیو کو کاپی رائٹس کی شکایت کے بعد ہٹایا گیا۔

ٹوئٹر سے ویڈیو کو ہٹادیا گیا—اسکرین شاٹ
ٹوئٹر سے ویڈیو کو ہٹادیا گیا—اسکرین شاٹ

ٹوئٹر انتظامیہ نے واضح نہیں کیا کہ انہیں مذکورہ ویڈیو کی کاپی رائٹس کی شکایت کہاں سے موصول ہوئی تھی، تاہم ویڈیو کو فوری طور پر ٹوئٹر سے ہٹا دیا گیا۔

مذکورہ ویڈیو کو تشہیری ٹیم کے آفیشل اکاؤنٹ پر شیئر کیے جانے کے بعد اسے ڈونلڈ ٹرمپ اور ان کے صاحبزادے جونیئر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی ری ٹوئٹ کیا تھا جب کہ اسے دیگر درجنوں افراد نے بھی ری ٹوئٹ کیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کی سیاہ فام شخص کے قتل کیخلاف مظاہروں پر فوجی کارروائی کی تنبیہ

مذکورہ ویڈیو میں پولیس کے ہاتھوں ہلاک ہونے والے جارج فلائیڈ کی موت پر ہونے والے مظاہروں کو دکھایا گیا تھا جب کہ ساتھ ہی انہیں لوگوں کی جانب پیش کیے جانے والے خراج تحسین کو بھی دکھایا گیا تھا۔

ویڈیو میں پس پردہ ڈونلڈ ٹرمپ کی آواز کو سنا جا سکتا ہے جو سیاہ فام امریکی شخص کی ہلاکت کو افسوس ناک واقعہ قرار دینے سمیت اس پر افسوس کا اظہار کرتے سنائی دیتے ہیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جہاں مذکورہ ویڈیو کو ٹوئٹر سے ہٹادیا گیا ہے، وہیں یہ ویڈیو ڈونلڈ ٹرمپ کے آفیشل یوٹیوب چینل پر موجود ہے اور اسے وہاں 5 جون کی سہ پہر تک سوا ایک لاکھ سے زائد بار دیکھا جا چکا تھا۔

یوٹیوب نے تاحال ویڈیو کے کاپی رائٹس کے حوالے سے کوئی وضاحت نہیں کی۔

خیال رہے کہ 25 مئی کو ایک سیاہ فام شخص کی ہلاکت کی ویڈیو سامنے آئی تھی جس میں ایک پولیس اہلکار نے اس کی گردن پر اس سختی سے اپنا گھٹنا رکھا ہوا تھا کہ وہ سانس نہ آنے کی وجہ سے دم توڑ گیا تھا۔

مزید پڑھیں: امریکا: سیام فام شخص کے قتل کے الزام میں پولیس افسر کےخلاف مقدمہ

جس کے بعد ریاست منی سوٹا کے شہر مینیا پولیس شہر میں ہنگامہ مچ گیا اور مشتعل مظاہرین گھروں سے نکل آئے، پولیس اسٹیشنز سمیت کئی عمارتوں کو آگ لگائی، کھڑکیاں توڑ دی گئیں اور اسٹورز کو لوٹ لیا گیا۔

اس کے علاوہ مظاہرین نے پولیس کی گاڑیوں کو آگ لگادی اور براہِ راست پتھراؤ بھی کیا جبکہ پولیس کی جانب سے ان پر ربر کی گولیاں اور آنسو گیس کے شیلز برسائے گئے۔

بعدازاں احتجاج کا یہ سلسلہ امریکا کی ریاستوں تک پھیل گیا اور بد امنی کے واقعات کے پیشِ نظر حکام نے نہ صرف نیشنل گارڈز کو متحرک کیا بلکہ کئی شہروں میں کرفیو بھی ناٖفذ کردیا۔

پرتشدد مظاہروں کے بعد ڈونلڈ ٹرمپ نے احتجاج کرنے والے شہریوں کو مقامی دہشت گرد سے تعبیر کرتے ہوئے ان پر لوٹ مار کرنے کا الزام عائد کیا تھا۔

واقعے کے بعد سیاہ فام امریکی کی ہلاکت کے الزام میں چار پولیس افسران ڈیریک چاوین، 34 سالہ ٹو تھاؤ، 26 سالہ جے الیگزینڈر اور 37 سالہ تھامس لین کو ملازمت سے برطرف کرکے ان کے خلاف قتل اور اقدام قتل سمیت دہشت گردی کی دفعات کے تحت کارروائی شروع کی گئی تھی۔

چاروں پولیس افسروں کے خلاف منی سوٹا کی عدالت میں مقدمہ چلایا گیا اور عدالت نے چاروں اہلکاروں کےخلاف 4 جون کو فرد جرم عائد کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں