اسٹیل ملز کے ملازمین کا کیا قصور ہے، اسدعمر استعفیٰ کیوں نہیں دیتے؟ مشاہد اللہ

مشاہد اللہ خان کے مطابق اسد عمر نے کہا تھا کہ میں حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ اسٹیل ملز کے ملازمین کے ساتھ کھڑا ہوں گا— فوٹو: ڈان نیوز
مشاہد اللہ خان کے مطابق اسد عمر نے کہا تھا کہ میں حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ اسٹیل ملز کے ملازمین کے ساتھ کھڑا ہوں گا— فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہداللہ خان نے حکومت سے سوال کیا ہے کہ اسٹیل ملز کے ملازمین کا کیا قصور ہے اور سابق وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا تھا کہ وہ ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے تو اب وہ استعفیٰ کیوں نہیں دیتے۔

خیال رہے کہ آج (5 جون کو) چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ایوان بالا کا بجٹ اجلاس منعقد ہوا۔

سینیٹ اجلاس میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے اسٹینڈرڈ آپریٹنگ پروسیجرز (ایس او پیز) پر سخت عملدرآمد کو یقینی بنایا گیا۔

اجلاس کے آغاز میں کورونا وائرس اور پی آئی اے حادثے میں جاں بحق ہونے والے افراد کے لیے مغفرت کی دعا کی گئی۔

سینیٹ اجلاس میں وقفہ سوالات کے دوران پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر مشاہد اللہ خان نے کہا کہ اس ملک میں ہر طرف جو تباہی پھیلی ہوئی ہے اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ہر بات پچھلی حکومتوں پر ڈال دو اور ہمیں ہر سوال سے پہلے معلوم ہوتا ہے کہ وزیر نے یہی کہنا ہے۔

مشاہد اللہ خان نے کہا کہ پچھلی حکومتوں نے جس حالت میں ملک دیا تھا ماضی میں اس کی مثال نہیں ملتی۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیل ملز پر عمران خان نے کیا کہا تھا کہ ان کی ویڈیو موجود ہے یا نہیں، یہ بھی پچھلی حکومت نے کیا تھا؟ اسد عمر نے کہا تھا کہ میں حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ اسٹیل ملز کے ملازمین کے ساتھ کھڑا ہوں گا۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ عمران خان نے کہا تھا کہ ہم اسٹیل ملز چلا کر دکھائیں گے، اب کیوں نہیں چلا کر دکھا رہے، اب کم از کم یہ تو کہیں کہ اس وقت غلط کہا تھا یا اب غلط کہہ رہے ہیں کوئی ایک بات تو مانیں۔

مشاہد اللہ خان کا کہنا تھا کہ ملک ڈیفالٹ کی طرف جارہا ہے اور یہ پچھلی حکومتوں کو رو رہے ہیں، حکومت سے کچھ نہیں ہورہا اور اب ہر بات کورونا وائرس پر ڈالی جارہی ہے اس سے پہلے کیا کیا تھا؟

مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر نے کہا کہ اسٹیل ملز کے 9 ہزار 350 ملازمین کا کیا قصور ہے، حکومت نے ووٹ لیتے وقت بڑی بڑی بھڑکیں ماری تھیں تو اب اسد عمر استعفیٰ کیوں نہیں دیتے؟

اسٹیل ملز کے 9 ہزار ملازمین فارغ کرنے کی کیا وجہ ہے؟ سراج الحق

اجلاس کے دوران سینیٹر سراج الحق نے کہا کہ 19 ہزار ایکڑ پر قائم اسٹیل ملز سے اس سے لاکھوں لوگ وابستہ ہیں، انہوں نے کہا کہ 4 روز پہلے خبر آئی کہ حکومت نے 9 ہزار ملازمین کو نکالنے کا فیصلہ کیا ہے۔

سراج الحق نے کہا کہ حکومت نے ایک کروڑ نوکریاں دینے کا اعلان کیا تو 9 ہزار ملازمین فارغ کرنے کی کیا وجہ بنتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت اسٹیل ملز کے ریٹائر ملازمین کو بقایا جات کیوں نہیں دیتی تجویز ہے کہ اسٹیل ملز ایک بہت بڑا ادارہ ہے جو تباہی اور بربادی سے دوچار ہے اس لیے اس حوالے سے خصوصی کمیٹی قائم کی جائے۔

سراج الحق نے کہا کہ حکومت اس ادارے کا جو قرضہ دیتی ہے اس پر سود بھی لیتی ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ حکومت اس ادارے کو چلانا اور آگے بڑھانا نہیں چاہتی، یہی وجہ ہے کہ ملازمین بھی پریشان ہیں، ریٹائرڈ افراد بھی پریشان ہیں اور مزید افراد کو نکالا جارہا ہے اور اب تک اس کی بہتری کی کوئی صورت نظر نہیں آتی'۔

سرکاری اداروں کا خسارہ سالانہ دفاعی بجٹ سے تجاوز کرچکا، حماد اظہر

ان کے بیان کا جواب دیتے ہوئے وفاقی وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے کہا کہ پاکستان اسٹیل ملز نے 1985 سے اپنی پیداوار کا آغاز کیا اور 09-2008 میں یہ منافع سے خسارے میں چلی گئی۔

سینیٹ اجلاس سے اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سال 2015 میں اسٹیل ملز کو بند کر دیا گیا اس کے بعد سے وفاقی حکومت ساڑھے پانچ سال سے ملازمین کو 35 ارب کی تنخواہیں دے چکی ہیں اور 20 ارب روپے کے ریٹرن ڈیوز جمع کیے جاچکے ہیں۔

حماد اظہر نے کہا کہ 2008 سے اب تک 90 ارب روپے کے بیل آؤٹس دیے جاچکے ہیں اور 2015 سے اب تک 35 کروڑ روپے ماہانہ تنخواہیں صفر پیداوار کے دوران دی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیل ملز کا قرضہ 211 ارب کا قرضہ ہے جب ہماری حکومت آئی تو 176 ارب روپے کا خسارہ تھا، ماضی کی دونوں حکومتیں نہ اس میں بہتری لاسکی اور نہ اس کی نجکاری کرسکی۔

وفاقی وزیر نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ اسٹیل ملز کو نجی پارٹنرشپ کے ساتھ چلائیں اور اسٹیل ملز کی قرض ری اسٹرکچر نگ کے بعد نجکاری کی جانب جائیں گے۔

حماد اظہر نے کہا کہ اسٹیل ملز کے ملازمین کو اوسط 23 لاکھ روپے دیے جائیں گے اور بعض کو تو 70 لاکھ روپے ملیں گے۔

اپنی بات جاری رکھتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ لوگ اب فارغ بیٹھنے کے بجائے پیداواری شعبے میں جائیں ایسا نہیں ہوسکتا کہ نوکریاں دینی ہیں تو سرکاری محکموں اور اداروں میں بھرتیاں کی جائیں۔

انہوں نے کہا کہ سرکاری انٹرپرائزز کا خسارہ ہمارے سالانہ دفاعی بجٹ سے بھی بڑھ چکا ہے وہ اسی وجہ سے بڑھا ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے سرکاری اداروں میں بھرتیاں کیں۔

علاوہ ازیں دیگر سوالوں کے جواب میں وفاقی وزیر حماد اظہر نے کہا کہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کی ویب سائٹ پر پاکستان سے متعلق رپورٹس موجود ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئی ائم ایف نے کہا کہ پاکستان نے بنچ مارک سے بہتر کارکردگی دیکھائی اور بین الاقوامی مالیاتی ادارے نے کورونا بحران میں ہماری مدد بھی کی۔

حماد اظہر نے کہا کہ کورونا بحران میں ہم سخت اقدامات نہیں کرنا چاہتے جس سے معیشت متاثر ہو۔

ایک اور سوال کے جواب میں حماد اظہر کا کہنا تھا کہ ہم الیکٹرک گاڑیوں کی پالیسی کو فروغ دینا چاہتے ہین۔

انہوں نے کہا کہ وزارت موسمیاتی تبدیلی اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ساتھ الیکٹریکل دو وہیلر اور بس اور ٹرک پر اتفاق ہو گیا ہے۔

حماد اظہر نے کہا کہ جلد یہ معاملہ اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس میں لے جائیں گے اور جلد ہمارا الیکٹریکل فور ویلرز کے حوالے سے بھی اتفاق ہو جائے گا۔

اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات سے متعلق بل پیش

علاوہ ازیں اجلاس میں مشیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان کی جانب سے اراکین پارلیمنٹ کی تنخواہوں اور مراعات سے متعلق بل پیش کیا گیا جو چئیرمین سینیٹ متعلقہ کمیٹی کو بھجوا دیا۔

مزید پڑھیں: سینیٹ: وائرس سے متاثرہ چین کے ساتھ اظہار یکجہتی کی قرارداد منظور

چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ کمیٹی 8 جون تک سفارشات مکمل کر کے 10 روز میں پیش کرے۔

اس کے ساتھ ہی اجلاس میں ڈاکٹر بابر اعوان کی جانب سے عام انتخابات 2018 کی جائزہ رپورٹ بھی پیش کی گئی۔

علاوہ ازیں اجلاس میں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بربریت کی شدید مذمت کی گئی اور سینیٹر راجا ظفرالحق کی جانب سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف قرارداد منظور کرلی گئی۔

کورونا بحران کے باعث ملک میں 30 لاکھ افراد بیروزگار ہوسکتے ہیں، وزارت خزانہ

سینیٹ اجلاس کے دوران وزارت خزانہ کی جانب سے جمع کرائے گئے تحریری جواب میں کورونا وائرس کے سنگین معاشی اثرات کی تصویر پیش کی گئی۔

وزارت خزانہ نے سینیٹر مشتاق احمد کے سوال کا جواب جمع کرایا تھا جس میں معیشت کے خسارے کا تخمینہ، بجٹ خسارے میں اضافہ، قرض اور ڈالر کی قدر اور چیلنجز کا مقابلہ کرنے میں حکومتی پالیسی سے متعلق دریافت کیا گیا تھا۔

وزارت خزانہ کے مطابق کورونا بحران کے باعث ملک میں 30 لاکھ افراد بیروزگار ہوسکتے ہیں جن میں سے صنعتی شعبے کے 10 لاکھ اور خدمات کے شعبے کے 20 لاکھ افراد ملازمت سے محروم ہوسکتے ہیں۔

جواب میں تخمینہ لگایا گیا کہ کورونا بحران کے باعث غربت کی شرح 24.3 فیصد سے بڑھ کر 33.5 فیصد ہو جائے گی جبکہ مالی خسارہ 7.5 فیصد سے بڑھ کر 9.4 فیصد ہو جائے گا۔

وزارت خزانہ کی جانب سے جمع کرائے گئے جواب کے مطابق بیرون ملک کام کرنے والے مزدوروں کی ترسیلات زر میں 2 ارب ڈالرز کی کمی ہو گی جو کورونا بحران سے قبل 23 ارب ڈالرز سے کم ہو کر 20 سے 21 ارب ڈالرز ہوجائیں گے۔

جواب کے مطابق کورونا بحران کے باعث فروری سے مارچ کے دوران روپے کی قدر میں ماہانہ بنیاد پر 7.5 فیصد کمی آئی ہے۔

وزارت خزانہ کے مطابق فروری میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر 154.23 روپے تھی جو مارچ میں 166.70 روپے ہوگئی۔

جواب میں بتایا گیا کہ اپریل میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر مزید کم ہو کر 160.17 ہوگئی تھی کیونکہ اس دوران مقامی مارکیٹوں اور غیر ملکی زرمبادلہ کی مارکیٹوں میں کچھ حد تک سبسڈی دی گئی تھی۔

وزارت خزانہ نے مزید بتایا کہ مئی میں ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر کچھ اور کمی کے بعد 163.10ہوگئی۔

وزارت خزانہ کے مطابق کورونا بحران سے قبل جی ڈی پی گروتھ کا تخمینہ 3.24 فیصد تھا جبکہ مالی سال 2020 میں 0.4 فیصد کی منفی شرح نمو رہی۔

جواب میں کہا گیا کہ رواں برس زرعی شعبے میں 2.85 فیصد، صنعتی شعبے میں 1.95فیصد اور خدمات کے شعبے میں 4.04 فیصد اضافے کا امکان تھا۔

تحریری جواب کے مطابق اپریل سے جون تک فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) ریونیو میں 700 سے 900 ارب روپے تک کمی ہوگی جبکہ ایف بی آر کا ٹیکس ہدف 4800 ارب روپے تھا جو 3905 ارب روپے تک گر سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن نے قومی اسمبلی کے بعد سینیٹ اجلاس بلانے کا بھی مطالبہ کردیا

علاوہ ازیں وزارت خزانہ کے مطابق امریکا، یورپی یونین، برطانیہ اور مشرق وسطیٰ میں معاشی سرگرمی میں کمی اور اشیا کی قیمتوں میں کمی کے باعث پاکستان کی برآمدات کم ہو کر 21 سے 22 ارب ڈالر ہوجائیں گی جو وبا سے قبل 25.5 ارب ڈالر تھیں۔

وزارت خزانہ کے مطابق کورونا بحران کے باعث بجٹ خسارہ 9.4 فیصد تک بڑھ جائے گا۔

وزارت خزانہ نے 12400 کھرب روپے کے ریلیف پیکج سے متعلق تفصیلات بھی فراہم جو کورونا وائرس کے بعد معاشرے کے کمزور طبقے اور معیشت کے لیے دیا گیا تھا۔

اس میں بتایا گیا کہ معاشی ریلیف پیکج میں ایمرجنسی ردعمل، شہریوں کے لیے ریلیف اور کاروبار کے لیے تعاون شامل ہے۔

دوسری جانب وقفہ سوالات کے دوران مشیر تجارت رزاق داؤد نے کہا کہ جی ایس پی پلس سے پاکستان کو بہت فائدہ ہوا اور اس میں 2022 تک توسیع دی گئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ کورونا وائرس کے باعث سرجیکل ماسک، گاؤنز اور این 95 کے علاوہ دیگر چیزیں برآمد کرنے کی اجازت دے دی گئی۔

بعدازاں چیئرمین سینیٹ نے ایوان بالا کا اجلاس 8 جون بروز پیر کی سہ پہر 4 بجے تک ملتوی کردیا۔

تبصرے (0) بند ہیں