لکھاری کراچی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔
لکھاری کراچی میں مقیم فری لانس صحافی ہیں۔

کورونا وائرس نے جو ایک بات بالکل واضح کردی ہے وہ یہ کہ اب یہ کہیں نہیں جانے والا۔ وائرس ڈیرہ ڈالنے ہی دنیا میں آیا ہے اور ہمیں خود کو بچانے کے لیے مختلف طریقے ڈھونڈنا ہوں گے۔

اس بحران نے یہ بات بھی اجاگر کردی ہے کہ ہماری صحت کا ماحولیاتی نظام کی صحت سے تعلق کس قدر گہرا ہے۔ اگر ہم صحتمند زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ہمارے لیے ناگزیر ہے کہ ہم اپنی زمین کو محفوظ بنائیں اور قدرتی وسائل جو ہمارے پاس موجود ہیں ان کو اس طریقے سے استعمال کریں کہ ان میں خرابی ہونے کے بجائے بہتری آئے۔

ایک طرف جہاں حکومتیں عالمی وبا سے جنگ لڑنے میں مصروف ہیں تو وہیں دوسری طرف ماہرین کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کے پیٹرن کا مطالعہ کر رہے ہیں۔ اگرچہ یہ مطالعہ ابھی ابتدائی مراحل میں ہے لیکن ان کی اب تک کی تحقیق سے فضائی آلودگی اور کورونا وائرس سے ہونے والی اموات کے درمیان تعلق ظاہر ہوتا ہے۔ چنانچہ صحتِ عامہ میں بہتری لانے کے سفر کی ابتدا فضائی صفائی کے ساتھ کی جانی چاہیے۔

اس پوری صورتحال میں پاکستان کیا کرسکتا ہے؟ اب جبکہ حکومت نے معاشی سرگرمیوں کو بحال کرنے کے لیے اس شرط پر لاک ڈاؤن میں نرمی کی ہے کہ یہ لاک ڈاؤن محفوظ رہے گا، اور اس کی یقین دہانی کرواتے ہوئے مختلف امدادی پیکجوں کو بھی زیرِ غور لایا جارہا ہے، تو ایسے میں حکام اگر کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کے منصوبوں پر کی جانے والی سرمایہ کاری پر نظرثانی کرے تو زیادہ اچھا رہے گا۔

پاکستان میں نصب 95 فیصد یعنی 5 ہزار 90 میگا واٹ سے زائد کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کے منصوبوں کی منظوری گزشتہ 3 سالوں میں دی گئی ہے اور اس وقت مختلف پلانٹ تکمیل کے مختلف مراحل میں ہیں۔ یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب کوئلے سے توانائی پیدا کرنے والے پلانٹوں کو دنیا کے دیگر حصوں میں اکھاڑ پھینکا جا رہا ہے کیونکہ یہ نہ صرف زبردست فضائی آلودگی کا سبب بن رہے ہیں بلکہ اس کی وجہ سے معاشی بوجھ میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔

تھرپارکر میں کوئلے سے کُل 3 ہزار 700 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے مجوزہ 9 پلانٹوں کی ہی مثال لیجیے۔ سندھ کے اس حصے میں انسانی ترقی کے بدترین اشاریے ملتے ہیں۔ سینٹر فار ریسرچ آن اینرجی اینڈ کلین ایئر (سی آر ای اے) کی جانب سے حال ہی میں کیے گئے مطالعے بعنوان 'تھر میں مجوزہ کوئلے کی کان کنی اور پاور پلانٹس کے فضائی معیار، صحت پر زہریلے اثرات' نے صورتحال کی ہولناک تصویر پیش کی ہے۔

مطالعے میں درج اندازوں کے مطابق تھر میں موجود کوئلے سے چلنے والے بجلی گھر کی 30 سالہ آپریشنل مدت کے دوران آلودہ ہوا سے 29 ہزار افراد ہلاک ہوسکتے ہیں، بچوں میں دمے کے 19 ہزار 900 کیسز ہوسکتے اور 32 ہزار قبل از وقت ولادتیں ہوسکتی ہیں جبکہ زیادہ تر تھریوں کو پھیپھڑوں اور سانس کی تکالیف، ذیابیطس اور دماغ کی رگ پھٹ جانے جیسے مسائل کے ساتھ زندگی گزارنی پڑسکتی ہے۔

تھرپارکر کو جنوبی ایشیا میں مرکری (پارے) اور کاربن ڈائی آکسائیڈ کا سب سے بڑا مرکز پکارتے ہوئے مطالعے میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ بجلی گھر سالانہ 1400 کلو گرام پارے کا اخراج کریں گے ’جس کا 5واں حصہ خطے کے زمینی ماحول میں جمع ہوجائے گا‘۔

مطالعے کے مرکزی لکھاری Lauri Myllyvirta نے اس تشویش کا اظہار کیا ہے کہ آزاد تحقیقی مرکز کی نظر سے عام دستیاب صرف 3 ماحولیاتی جائزوں سے گزرے جن میں 'غلطیاں اور اخراج پائے گئے، یوں اعداد و شمار کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کے ذریعے عوام کو گمراہ کیا جا رہا ہے۔

اس حوالے سے ایک انوائرمنٹ امپیکٹ اسسمنٹ (ای آئی اے) رپورٹ بھی جاری کی گئی تھی جس میں کوئلے میں پارے کی مقدار کا اندازہ لگایا گیا تھا تاہم اخراج سے متعلق ان کے اندازے غلط تھے۔

مطالعے میں ان جائزوں کو انجام دینے والوں کو بھی 'غلط رپورٹنگ' کرنے کا مرتکب ٹھہرایا ہے۔ دوسری جانب ادارہ تحفظ ماحولیات سندھ (سیپا) کے کردار اور ریگولیٹری نگرانی کی سطح پر بھی سوال کھڑا کیا گیا ہے۔ اگر ای آئی ایز پر سنجیدگی کے ساتھ جائزہ لیا جاتا تو سی آر ای اے کی جانب سے پکڑی جانے والی غلطیوں کو ریگولیٹری ادارے نے پہلے ہی پکڑ لیا ہوتا۔

سی آر ای اے کے ترجمان کے مطابق اگرچہ مختلف قابلِ استطاعت طریقوں سے پارے کے اخراج کی دو تہائی مقدار کو گھٹایا جاسکتا ہے لیکن پاکستان میں اخراج کی ایسی کوئی حدود مقرر ہی نہیں جو پارے پر ضابطہ رکھنے کے لیے مطلوب ہوتی ہیں۔ نتیجتاً بجلی گھر بنانے والے مسائل کو مکمل طور پر نظر انداز کرتے ہوئے اپنا کام جاری رکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ سیپا کو یہ باور کرانا ہوگا کہ چونکہ کوئلے کے بجلی گھر بھاری مقدار میں پارہ پیدا کرتے ہیں اس لیے اس کے صحت پر مرتب ہونے والے اثرات سے متعلق مطالعوں کو انجام دینا کس قدر اہم ہے۔

تاہم اگر عوامی صحت کے مفاد کی بات کی جائے تو اس کے لیے بہتر یہی ہوگا کہ تعمیر کے ابتدائی مراحل میں داخل ہونے والے ان منصوبوں کو فوری طور پر روک دیا جائے، یقیناً یہ فیصلے کرنے کے لیے بڑی ہمت اور جرأت درکار ہوگی۔

ہمیں اس پورے معاملے میں چین و امریکا کی اپنائی ہوئی راہ سے کنارہ کرنا ہوگا جو دھیرے دھیرے فوسل فیول کی طرف بڑھتے جا رہے ہیں۔ یہ ممالک اقتصادی بحالی پیکجوں کو تو منظرِ عام پر لے آئے ہیں لیکن ساتھ یہ خبریں بھی موصول ہو رہی ہیں کہ چین نئے بجلی گھروں کو لگانا چاہتا ہے اور امریکا ماحولیاتی قوانین میں نرمی لانے اور جائزوں پر اثر انداز ہونے کے لیے عالمی وبا کو بہانے کے طور پر استعمال کرنا چاہتا ہے۔

عالمی وبا نے روزِ روشن کی طرح یہ بات واضح کردی ہے کہ ہمارے مستقبل کے اقتصادی منصوبوں کا جدید موسمیاتی تقاضوں کے مطابق ہونا لازمی ہے۔

10 بلین ٹری سونامی منصوبے پر حکومت ڈھیر ساری داد وصول کرچکی ہے۔ موجودہ وقت میں اس منصوبے کے ذریعے قریب 65 ہزار افراد کے لیے روزگار کے مواقع پیدا ہوئے ہیں اور سال کے آخر تک اس سے 3 گنا زیادہ ذریعہ آمدن کے مواقع پیدا کرنے کے منصوبوں پر کام جاری ہے۔ مگر حکومت کو جنگلات کی بحالی کے اعزازات پر اکتفا کرنے کے بجائے تھوڑی توجہ قابلِ تجدید توانائی کے منصوبوں پر بھی مرکوز کرنی ہوگی جو ان زہر اگلتے کوئلے کے بجلی گھروں کے مقابلے میں کافی سستے پڑتے ہیں۔

سول سوسائٹی کی مہمات اور ماحولیاتی کارکنان کو یکجا ہونا ہوگا اور حکومت پر زیادہ سبز راہ چننے، اقتصادی بحالی کے زیادہ پائیدار راستے پر چلنے اور پہلے سے زیادہ سخت ماحولیاتی قوانین اور ضابطوں کے ساتھ اپنے طرزِ عمل کو درست کرنے کے لیے عالمی وبا کے فراہم کردہ مواقع سے فائدہ اٹھانے اور ماضی کی غلطیوں کو ٹھیک کرنے کے لیے دباؤ ڈالنا ہوگا۔


یہ مضمون 5 جون 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

تبصرے (0) بند ہیں