مجھے ایک شام تلاشنی تھی۔ ایک شام جو میں کبھی کھل کر جی نہ سکی تھی، ایسی شام جو میری دوشیزہ نگاہوں سے بنا چھوئے، بنا جیے گزر گئی تھی۔ میں صدیوں کی مسافتیں طے کرتی کتنی دُور سے آئی تھی مگر وہ شام جو بہت پیچھے سے مجھے اکثر شدت سے صدا دیتی تھی، وہ کبھی نہ مل سکی۔

سرسبز گھاس سے بھرے میدان بدلتے موسم کے سبب دُور دُور تک پیلے پتوں سے بھر رہے تھے۔ خاکروب روز صبح سرخ اینٹوں پر جھاڑو پھیر کر صاف کرتے، شام تک تمام روشیں خشک مرجھائے اور اداس پتوں سے پھر سے بھر جاتیں۔ سورج کی چندھیا دینے والی دھوپ ٹھنڈی پڑ چکی تھی، جگہیں اور مقام روشن روشن نہیں دھندلے سے دکھتے۔ سردی لباس میں گھس کر چٹکیاں کاٹنے لگی تھی، نرم گرم شالیں لپیٹنے کا موسم تھا۔

میں سرِشام اپنے دفتر سے نکلتی، خزاں سے اٹا دن برہنہ سر الوداعی بوسے کے لیے میرا منتظر کھڑا ملتا۔ زردی ٹوٹ کر درختوں پر اتر رہی تھی، ہوائیں پورب سے پچھم تک وجد میں رہتیں، مستی میں سر دھنتیں، رقص کرتیں، ناچتیں، میرے قدموں سے لپٹ لپٹ جاتیں۔

شام کا سرخی مائل دھندلکا سہ پہر سے ہی زمین سے لپٹنے لگتا۔ میں دفتر سے ہاتھ میں کچھ قلم اور کتابیں لیے باہر قدم دھرتی تو پتے میرے قدموں کے نیچے چرمرانے لگتے۔ دم مرگ آہیں کراہتیں، دہائی دیتیں 'مجھے کچھ لمحوں کی زندگی اور بخش دو!' اور میں ان کے نوحے سنتی کبھی ان کے کنارے رک جاتی، ہاتھ میں اٹھاتی، سہلاتی، گال سے لگاتی!

کھلے دھنک رنگ مسکراتے پھولوں کو بہاروں اور خوشبوؤں کو سونپ کر میں جاسکتی تھی مگر تھکی ہاری جوانیاں، شکستہ حالی، دم مرگ نفوس مجھے جکڑ لیتے تھے۔ محرومیاں میرے قدموں کو زنجیر کر دیتیں۔ میں خزاؤں کو ٹھکرا کر کبھی نکل نہ سکی تھی۔ سو اکثر سوکھے پتوں کے کنارے ٹھہر کر میں شامِ غریباں کے کچھ مرثیے ضرور سنتی، بنا بولے بنا آواز پیدا کیے میں کچھ سسکیاں بھر لیتی، درد کا سینے سے دل اور دل سے روح تک کا ایک سُوٹا لے لیتی۔ میری لال اونی چادر سوکھی گھاس میں پھنس جاتی، میرے بال ہوا کی اٹھکیلیوں سے الجھ الجھ جاتے۔

ایسی ہی اک شام میں کاغذوں اور قلموں کو سینے سے لگائے سرد ہوا کی سرگوشیاں سنتے، شام کا حزن پیتے جب برآمدے کی سیڑھیوں سے اُتری تو وہ یہیں املتاس کے پیلے درختوں کے جھنڈ کے قریب بہتی ٹھنڈی ندی کے پاس کھڑا میری راہ تکتا تھا۔

میرے اندر سے ایک سسکی سی گونجی 'کیا اسے آج ہی ملنا تھا؟ جب زندگی خزاؤں کے صفحات پر اپنی نشانی ثبت کرچکی تو وہ بہار کا سندیس لے کر کیوں میرے راہ گزر میں آیا تھا؟'

'ایک بار تو مجھے آنا ہی تھا! راستوں کی دھند اور جاڑا جانے شکستہ حال ہڈیوں میں کتنی برف اتار دے۔ زادِ راہ کے لیے تھوڑی سی حدت!' اس کی نگاہیں فریاد کناں تھیں۔

'مجھے اب مزید خواب مت دینا! میرا قبرستان کم پڑ چکا ہے!'، آہیں بھرتی ایک فریاد اپنے وزن سے میرا سر جھکا رہی تھی۔

'میں تو خود سپنوں کی بھیک مانگنے آیا ہوں۔ خدا کے لیے مجھے روشنی کی کوئی رمق لوٹا دو!'

ہم سوکھتے درختوں، لال، پیلے اور خاکی پتوں سے بھری شاہراہ کی ایک پنگڈنڈی پر ساتھ بیٹھے تھے۔

'تم تو کہتے تھے کہ تمہاری زندگی بھرپور ہے؟'، میری آنکھیں سوال در سوال اس کو ٹٹولتی تھیں اور اس کا چہرہ زمانوں کی قسمیں کھا رہا تھا کہ وہ کس قدر ٹوٹ کر کرچی کرچی ہوچکا ہے!

قریب سے کسی فاختہ نے الوداعی گیت چھیڑا تھا۔ دُور کہیں درختوں پر چڑیاں گئے دن کے بین میں مگن تھیں۔ شام ڈھل رہی تھی، سردی اُتر رہی تھی، آسمان کے گھیرے میں زردی مکمل گھل چکی تھی۔ تھکے ہوئے مسافر گھروں کو لوٹ رہے تھے۔ زمیں کے مشرقی کنارے سے ایک پورا چاند درختوں کے پتے سرکاتا حیرانی سے جھانکنے لگا تھا۔ بے تاب چاندنی سے نظر چراتے ندی کے کنارے ہم سر جھکائے بیٹھے تھے۔ میں جانتی تھی دونوں ہی تھک چکے تھے۔

شال لپیٹتے کاغذات سنبھالتے میں اس کے قریب سے اُٹھی اور دُور دکھائی دیتے باہر جانے کے راستے پر چلی۔ ہر وہ قدم بھاری تھا جو اس کی صدا کو کچل رہا تھا، میں وہ صدائیں سن سکتی تھی جو کبھی ہونٹوں سے جدا ہی نہ ہوسکی ہوں۔ میں ان کہی التجاؤں کو کچل سکتی تھی، کچل رہی تھی۔ گیٹ کی طرف نظر ٹکائے قدم بڑھاتے اس کی نگاہیں طلب بن کر مجھے کھینچ رہی تھیں۔ میرے کان ایک لفظ، محض چند حرفوں کو ترس رہے تھے اس کے باوجود کہ جانتی تھی کہ رُک نہیں سکوں گی۔ میرے قدم شل ہوچکے تھے، خزاں میری رگ رگ میں اتر چکی تھی۔ اس کی آنکھوں کے دیوں کے سوا اب اور کہیں بھی روشنی نہ تھی۔ مجھے خبر تھی وہ بھی میری نہ تھی۔

گیٹ تک پہنچ کر باہر نکلتے نکلتے میں نے ایک بار مُڑ کر اس پنگڈنڈی کی طرف دیکھا تھا جس پر زرد خواب کو میں بنا جیے بنا چھوئے چھوڑ آئی تھی! وہ میری سمت ہی دیکھتا تھا، بن بولے صدا دیتا، بن کہے پکارتا تھا۔ ہزار شامیں ڈھل چکیں، ہزار صدیاں بیت گئیں۔ میں آج بھی اسی دہلیز پر کھڑی بن جیے خواب کو تک رہی ہوں۔ وہ زرد شام میں لپٹا، خزاں رسیدہ پتوں میں گمشدہ سپنا آج بھی میری شال کی حدت کو ترس رہا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں