ایک ایسے وقت میں جب کورونا وائرس کی عالمگیر وبا نے دنیا کو جکڑ رکھا ہے، مستقبل قریب میں کرکٹ سمیت ہر کھیل کا انعقاد کھٹائی میں نظر آتا ہے۔ اولمپکس ملتوی ہوچکے ہیں، ٹی20 ورلڈ کپ کا کچھ نہیں پتہ لیکن اگست اور ستمبر کے مہینوں میں دورۂ انگلینڈ کے بارے میں ایسا لگتا ہے کہ پاکستان اس دورے کے لیے ٹیم انگلینڈ بھیجے گا کیونکہ اس کی تیاریاں ابھی سے ہوتی نظر آ رہی ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے اس دورے میں ایک روزہ سیریز کے لیے بابر اعظم کو کپتان بنایا اور کچھ ہی دن بعد کوچنگ اسٹاف میں بھی اضافہ کردیا۔

مشتاق احمد کو اسپن باؤلنگ کوچ بنایا تو یونس خان کو بیٹنگ کوچ کا عہدہ دینے کا حیران کُن اعلان بھی کیا۔ اس اعلان پر حیرانی اس لیے ہو رہی ہے کیونکہ یونس خان کا ماضی ہمارے سامنے ہے۔ وہ جب کپتان تھے تب بھی انہیں سنبھالنا ایک مشکل کام تھا۔ یونس خان کے حامی انہیں اصولوں کا پکّا کہتے ہیں تو مخالفین کے خیال میں وہ حد سے زیادہ بے باک اور منہ پھٹ ہیں۔

بہرحال، پاکستان کرکٹ میں رہتے ہوئے اصول پسند ہونا آسان نہیں، اس لیے یونس کو قیادت سے بھی ہاتھ دھونا پڑے اور کچھ عرصے کے لیے ٹیم سے باہر بھی کیا گیا۔ لیکن اپنی صاف گوئی، راست بازی اور سب سے بڑھ کر دیانت داری کی وجہ سے آج تک کوئی یونس خان پر انگلی نہیں اٹھا سکا اور جب بھی کوئی سودے بازی کا معاملہ آتا ہے تو یونس خان اس سے اپنا دامن چھڑا لیتے ہیں۔ ماضی قریب میں یونس خان کو پاکستان انڈر 19 کی ذمہ داری سونپنے کی کوشش بھی کی گئی تھی لیکن بات بنی نہیں۔

مزید پڑھیے: یونس خان دورہ انگلینڈ کیلئے قومی ٹیم کے بیٹنگ کوچ مقرر

اس پسِ منظر کو دیکھنے کے بعد اچھی طرح اندازہ ہوجاتا ہے کہ یونس خان کو 'آن بورڈ' لینا پی سی بی کا کتنا بڑا کارنامہ ہے۔ لیکن اصل امتحان تو اب شروع ہوگا، یونس کا نہیں بلکہ پاکستان کرکٹ بورڈ کا۔ یہ بات تو سب جانتے ہیں کہ اتنے کھرے لوگ بورڈ میں کبھی پسند نہیں کیے جاتے، خاص طور پر پاکستان میں تو بالکل بھی نہیں۔

ویسے موجودہ کوچ مصباح الحق اور یونس خان کی جوڑی خوب رہی ہے، پاکستان کے لیے بحیثیت بیٹسمین دونوں نے بڑے کارنامے دکھائے ہیں لیکن انتظامی و تربیتی معاملات میں دونوں کا امتحان ابھی باقی ہے۔ دونوں کی طبیعت اور مزاج میں بھی بڑا فرق ہے۔ شاید شخصیات کا یہ تضاد ہی پاکستان کرکٹ کے لیے بہترین ثابت ہو کہ دونوں ایک دوسرے کی خامیوں کو گھٹانے اور خوبیوں میں اضافہ کرنے کا سبب بنیں گے۔ ایک طرف مصباح جیسا دھیمے مزاج کا اور دوسری جانب یونس جیسا بے باک کھلاڑی قومی کرکٹ ٹیم کو معتدل مزاج بنانے میں مدد دے گا۔

اگر تنہا حیثیت میں دیکھا جائے تو مصباح کوچنگ کے میدان میں اب تک کچھ خاص کارکردگی نہیں دکھا سکے۔ ان کی کوچنگ میں پاکستان کے نتائج ملے جلے ہی رہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ بوجھ ہلکا کرنے کے لیے ان کے پرانے ساتھی کو سیٹ اَپ میں لایا جا رہا ہے تاکہ دونوں مل کر ٹیم کو اسی طرح بحران سے نکالیں، جیسے اپنی بیٹنگ کے ذریعے نکالتے تھے۔

یونس خان کی آمد کے ساتھ ہی سازشی نظریات کا میدان بھی گرم ہوگیا ہے۔ آخر کیوں نہ ہو؟ لاک ڈاؤن کے اس زمانے میں اِدھر کی اُدھر لگانے کے سوا کوئی دوسرا کام بچا ہی نہیں۔

یہاں ایک حلقے کا نظریہ ہے کہ یونس خان کو لانے کا مقصد اصل میں مصباح کو باہر کرنے کے لیے میدان تیار کرنا ہے کیونکہ بورڈ ان کی کارکردگی سے خوش نہیں۔ دلیل یہ ہے کہ مصباح کی موجودگی میں ایک دوسرا بیٹنگ کوچ رکھنے کی کوئی تُک نہیں بنتی۔

دوسری جانب ایک گروہ کا کہنا ہے کہ اصل میں یہ پورا میلہ ہی مصباح کو بچانے کے لیے لگایا جا رہا ہے۔ جس طرح ہر قسم کی تنقید ہونے کے باوجود مصباح کو قیادت سے نہیں ہٹایا گیا تھا، اسی طرح کوچ کے عہدے سے بھی ان کو نکالنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اب جبکہ کھیل کے ہر شعبے کے لیے الگ کوچ لگا دیا گیا ہے تو اگر فاسٹ باؤلرز خراب کارکردگی دکھائیں گے تو انگلی وقار یونس پر اُٹھے گی، اگر اسپن باؤلنگ میں کوئی نمایاں کارکردگی نہیں دکھا پایا تو ہدف مشتاق احمد ہوں گے جبکہ ناقص بیٹنگ کا مظاہرہ کرنے پر تنقید یونس خان پر کی جائے گی، یعنی مصباح الحق کے لیے میدان صاف ہے۔ بہرحال، جتنے منہ اتنی باتیں ہیں لیکن ہم ایسے تمام نظریات سے دامن بچا کر حُسنِ ظن کا راستہ ہی اختیار کریں گے۔

مزید پڑھیے: باب وولمر کے انداز میں پاکستانی کھلاڑیوں کی کوچنگ کروں گا، یونس خان

یونس خان ہمیشہ سے ایک بے لوث اور بااُصول کھلاڑی رہے ہیں۔ پچھلے 20 سال میں وہ غالباً پاکستان کے واحد کپتان ہوں گے جو کسی ٹیم میں اپنا گروپ بنانے کی کوشش میں ملوث نہیں رہے، ورنہ یہ ’کارنامہ‘ تو بڑے بڑے ناموں نے کیا ہے اور اپنا نام ڈبویا ہے۔

پھر یونس نے ٹی20 سے لے کر ٹیسٹ تک، ہر میدان کو عروج کے زمانے میں چھوڑا۔ ٹی20 میں پاکستان کو ورلڈ چیمپئن بناکر ریٹائرمنٹ لی اور ٹیسٹ میں پاکستان کو تاریخ میں پہلی بار ویسٹ انڈیز میں سیریز جتوانے کے بعد کرکٹ کو خیرباد کہہ گئے۔ اب بحیثیت بیٹنگ کوچ آمد قومی ٹیم کے لیے ایک نیک شگون ہے۔

یونس خان کی آمد سے جہاں بابر اعظم اور عابد علی جیسے نوجوان بیٹسمین فیض یاب ہوں گے، وہیں کئی ایسے نام بھی ہیں جن کی آنکھیں یونس کی آمد کے بعد امید سے چمک اٹھی ہوں گی۔ یونس خان کا پہلا چیلنج ایسے بیٹسمین کو قومی دھارے میں لانے کی کوشش کرنا ہوگا کہ جنہیں مصباح الحق نے بھی ٹیم میں منتخب کرنا پسند نہیں کیا۔ میرے خیال میں اتنا اشارہ کافی ہے، آپ سمجھدار ہیں، آگے خود سمجھ جائیں گے۔

تبصرے (0) بند ہیں