لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔
لکھاری ڈان کے اسٹاف ممبر ہیں۔

عالمی وبا پھیلتی جا رہی ہے، ٹڈی دَل فصلیں ہڑپ کر رہی ہیں اور ایندھن کا کال دستک دے رہا ہے، اس بیچ ہمارے لیڈران اپنے ترجمانوں اور نمائندوں کے ہمراہ جب اپنے سیاسی مخالفین کو نقصان پہچانے کے لیے جس طرح کا مضحکہ خیز انداز اپناتے ہیں، اسے دیکھ کر میں سوچتا ہوں کہ کیا انہیں اس کا اندازہ بھی ہے۔ مذکورہ مسائل انتہا کوپہنچنے لگے ہیں اور آئندہ مہینوں میں ان کے خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔

ایک بات تو واضح کرتے چلیں کہ پاکستان کی معیشت rent-seeking رویے کا شکار ہے یعنی ایک ایسا منافع بڑھانے والا رویہ جس کے تحت مہربانیاں بٹورنے کے لیے چند محدود کھلاڑیوں کے حق میں کھیل کے اصولوں کے ساتھ سمجھوتا کیا جاتا ہے۔ اور یہاں معاملہ صرف موجودہ حکومت میں زیرِ تفتیش (چینی، توانائی، گندم اور آئل ریفائننگ اور مارکیٹنگ کے) شعبہ جات تک محدود نہیں ہے بلکہ سیمنٹ، ٹیکسٹائل، کھاد، ادویات، آٹو موبائل اور فنانشل سروسز کے شعبوں پر بھی یہی بات صادق آتی ہے۔

ملک کے کسی بھی کونے میں کھڑی بڑے پیمانے کی صنعتیں حکومتی ٹھیکوں، پرائیسنگ اور ٹیکس نظام کے بل بوتے پر چلتی ہیں۔ شاید سب کا یہ حال نہ ہو لیکن ایسی گنی چنی چند ایک ہی صنعتیں ہیں۔

اس رینٹ سیکنگ کے رویے کو سنبھالنا کوئی راکٹ سائنس تو نہیں ہے لیکن اس کام کے لیے تھوڑا بہت ہنر، منڈیاں کس طرح کھڑی کی جاتی ہیں اس بارے میں تھوڑا علم، وہ لوگ جو یہ معاملات چلاتے ہیں اور کس طرح اپنے دلائل تیار اور اپنا کیس پیش کرتے ہیں ان لوگوں سے تھوڑی بہت واقفیت کے ساتھ ساتھ بنیادی ریاضی کی ضرورت ہوتی ہے۔

ان رینٹ سیکرز (رشوت کے عوض کام کرنے کی تاک میں رہنے والے) کو اگر سنبھالا نہ جائے تو یہ مصنوعی قلت، قیمتوں میں سازبازی، ٹیکس چوری کرنے کے ساتھ ساتھ انہیں 'کرایہ پر رکھنے والوں' (رشوت دینے والوں) اور اپنے کرایوں (رشوت) کے حق میں اصولوں کی منظوری کے لیے حکومت کو چکما دیں گے۔

اگر کوئی ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے تو یہ اس مال کی سپلائی بند کرسکتے ہیں جس کی ذمہ داری ان کے پاس ہوتی ہے، ممکن ہے کہ ایسا ہی آج کل کچھ آئل مارکیٹنگ کے شعبے میں ہو رہا ہے۔

جنوری 2015ء کا 'پیٹرول بحران' یاد ہے؟ جب سپلائی چین ٹوٹتی ہے تو یہی سب ہوتا ہے۔ شدید لوڈشیڈنگ کے دن یاد ہیں؟ جب توانائی کے شعبے کے مالی معاملات اور ایندھن کی سپلائی چین کے تسلسل میں خلل آئے تو یہی سب ہوتا ہے۔ ایسے تمام مواقع پرحکومت کی ماہرانہ انتظام کاری درکار ہوتی ہے۔

اگر کوئی بھی حکومت کرایوں کو گھٹانے کے لیے نظام کی تبدیلی چاہتی ہے تو درست اصلاحات کو مرتب دینے کے لیے تھوڑے بہت ہنر کی ضرورت پڑے گی۔ یہی کچھ 2011ء کے بعد ادویات کے شعبے میں ہوا کہ جب دوائیوں کی قیمتوں میں اضافے کے بعد ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کو ایک خودمختار ادارے کی حیثیت میں قائم کیا گیا جو قیمتوں میں اضافے کی خواہاں کمپنیوں کے گلے کا کانٹا بن گیا۔

تو اگر آپ گزشتہ چند ماہ سے چینی، گندم، نجی بجلی گھروں، اور اب آئل ماریکیٹنگ کے معاملات میں تحقیقات اور انکوائری کے سلسلے میں آنے والی تیزی اور شدت کو لے کر کچھ الجھن کا شکار ہیں تو یہاں آپ کی یہ الجھن دُور کیے دیتے ہیں۔

دراصل یہاں معاملہ کچھ یوں ہے کہ جب کبھی کوئی معاملہ حکومت کے نمائندگان کو سمجھ نہیں آتا یا ان کے قابو سے باہر ہوجاتا ہے تو یہ ایک 'مافیا' کو پکارتے ہیں اور صنعت کے کھلاڑیوں پر چڑھائی کردیتے ہیں۔

مثلاً اپریل میں جب نجی بجلی گھروں سے متعلق رپورٹ منظرِ عام پر آئی تو صدرِ مملکت نے کہا کہ یہ ایک ایسا ثبوت ہے جو یہ ثابت کرتا ہے کہ کس طرح ایک مافیا نے اس ملک کا گینگ ریپ کیا ہے۔ یہ لفظ دیگر افراد نے بھی بار بار استعمال کیا اور اچانک سے ان باتوں کا سلسلہ تھم گیا اور پھر نہ ہم نے نجی بجلی گھروں سے متعلق رپورٹ کے بارے میں کسی سے کچھ سنا نہ آپ نے۔

سارا کا سارا جارحانہ پن جیسے ایک اشارے کے ساتھ ایک ہی لمحے پر ختم ہوگیا ہو اور رو دھو کر معاملات کو انجام تک پہنچانے کے پرانے طریقہ کار کو اپنایا لیا گیا: جی ہاں ایک کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ نجی بجلی گھروں پر سرمایہ کاری کرنے والوں سے یہ سننے کو مل رہا ہے کہ یہ سارا جادو ایک چینی سفارت کار کی فون کال کا ہے۔

گندم سے متعلق انکوائری کا معاملہ بھی بڑی نفاست کے ساتھ ایک طرف رکھ دیا گیا، جس کی وجہ شاید نتائج کا حسبِ توقع برآمد نہ ہونا تھا۔ انہیں لگا تھا کہ انکوائری کمیٹی ان کے پاس آکر بتائے گی کہ گندم کی ذخیرہ اندوزی میں کون کون ملوث ہے مگر ہوا یہ کہ کمیٹی نے بتایا کہ پاسکو سے لے کر صوبائی حکومتوں تک سارے حکومتی محکمے مناسب انداز میں حصولی کرنے میں ناکام رہے۔ سو اب اس معاملے کی پیروی میں کیا مزہ رکھا ہے۔

پیر کو پیٹرولیم کے وزیر ایوان میں کھڑے ہوئے اور ایندھن کی قلت کا الزام مافیا پر دھر دیا۔ انہیں دیکھ کر ذہن میں ایک ہی سوال گھومنے لگا جو میں ان سے پوچھنا چاہتا تھا، 'بڑے ہوکر کیا بننا چاہتے ہیں؟' حقیقت تو یہ ہے کہ اس قلت کی موجودگی ہی سب سے پہلے خود وزیر موصوف پر سوال کھڑا کرتی ہے اور اگر وہ اس شعبے کی بڑی بڑی کمپنیوں کو سنبھال نہیں سکتے تو ان سب کو مافیا قرار دینے کی کوئی منطق نہیں۔

سچ یہ ہے کہ اس ملک میں ہر رینٹ سیکر اس حکومت کو چکما دینے میں کامیاب رہا ہے۔ ہم نے دیکھا کہ حکومت کے ابتدائی دنوں میں جب ادویات کی قیمتیں بڑھیں تو حکومت والے انہیں دوبارہ اپنی اصل سطح پر لانے میں ناکام رہے (شاید کبھی کامیاب ہوں گے بھی نہیں)۔

ہم نے ٹیکسٹائل کے شعبے پر عوام کے پیسے کو سستے ایندھن یا قرض کی صورت میں نچھاور ہوتے دیکھا اور ڈیڑھ برس بعد ان کے پاس دکھانے کو اگر کوئی چیز ہے تو وہ برآمدات میں مقداری لحاظ سے ہونے والا اضافہ ہے۔

بھائی کوئی تو انہیں سمجھائے کہ برآمدات کی پیمائش کلو گرام میں نہیں ہوتی۔ ہم نے اسی حکومت میں پراپرٹی ڈیولپروں کے لیے ایمنسٹی اسکیمیں بھی متعارف ہوتے دیکھیں۔ اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے ادویات کے بعد اشیائے خور و نوش کو بھی مہنگا ہوتے دیکھا۔

حتیٰ کہ گزشتہ اتوار 'اثاثوں کی برآمدگی کے روح رواں' کے ساتھ بیٹھے وزیرِ اطلاعات جب چینی کی صنعت کے لیے اپنا جامع 'پینل ایکشن پلان' پیش کر رہے تھے تو غالب امکان ہے کہ عین اس وقت انکوائری رپورٹ میں مرکزی کردار کی حیثیت میں نظر آنے والے جہانگیر ترین ان کی پہنچ سے بہت دُور بڑے آرام سے برطانیہ کی فضائی حدود میں داخل ہو رہے تھے۔

اس دن انہوں نے جس پینل ایکشن پلان کا اعلان کیا تھا اس کا جال اس قدر وسیع ہے اور اتنا کچھ زیرِ تفتیش لانے کا ارادہ رکھتا ہے کہ اس میں پلان جیسی کوئی چیز ہی باقی نہیں رہ جاتی۔ عمران پر مکمل اعتماد کرنے والے اپنا دل اور اس امید کا دامن تھامے ہوئے ہیں کہ جس تبدیلی کے وقت کا انتظار تھا وہ وقت آپہنچا ہے۔

چینی کی صنعت سے وابستہ اہم شخصیات پیناڈول کی گولیاں لے رہی ہیں اور خود سے کہہ رہی ہیں کہ 'ایک اور حکومت ایک نیا دردِ سر'، اور ہم جیسے باقی لوگ بن ٹھن کر کھیل تماشا دیکھنے کی تیاری پکڑ رہے ہیں۔

دوسری طرف مرض ہے کہ پھیلتا جا رہا ہے، ٹڈیاں ہیں کہ فصلوں کی دعوتیں اڑانے میں مصروف ہیں اور عوام ہیں کہ پیٹرول پمپوں پر ایندھن کے لیے دست و بازو ہوئے جا رہے ہیں۔ میں نے آج تک اتنا پُر مزاح ڈراؤنا کھیل تماشا نہیں دیکھا۔


یہ مضمون 11 جون 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں