کورونا وائرس نے جہاں دنیا بھر میں بہت سے نئے رواج اور طریقے قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا، وہیں اس وبا کی وجہ سے یہ ریت بھی پرانی ہوگئی کہ بجٹ اجلاس میں تقریباً تمام ہی ارکان ایوان میں اپنی موجودگی یقینی بنانے کی ہر ممکن کوشش کرتے تھے، کیونکہ پاکستان کی تاریخ میں ایسا پہلی بار ہوا کہ جس وقت قومی اسمبلی میں وفاقی بجٹ پیش ہورہا تھا اس وقت ایوان میں صرف 25 فیصد ارکان موجود تھے۔

ماضی میں ہم دیکھتے آئے ہیں کہ اپوزیشن اور حکومت بجٹ پیش ہونے سے پہلے پہلے اپنے چیف وہپس کی معرفت ایوان کے تمام ارکان کو پیغامات بھیجتی تھیں کہ وہ بجٹ والے دن ایوان میں اپنی حاضری کو یقینی بنائیں، لیکن اس بار نہ صرف حکومت بلکہ اپوزیشن نے بھی اپنے ارکان کو اجلاس میں شرکت سے روکے رکھا۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے علاوہ تمام جماعتوں نے اپنے ارکان کی شارٹ لسٹنگ کی اور جن کے نام فہرست میں شامل تھے صرف انہیں ہی اجلاس میں شرکت کا کہا گیا اور دیگر ممبران کو روک دیا گیا تھا۔

قومی اسمبلی کے ایوان میں صرف 25 فیصد ارکان موجود تھے

یہ سب اس لیے ہورہا تھا کہ جب رواں ماہ کے پہلے ہفتے میں قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا تو اس کے بعد اسپیکر اسد قیصر نے تمام جماعتوں کو اپنے چیمبر میں بلایا اور کورونا کے شدید پھیلاؤ کے باعث دوبارہ ایس او پیز تیار کرنے کی تجویز پیش کی تھی۔ تمام جماعتوں کی تجاویز کے بعد ایس او پیز پر اتفاق ہوا۔ 10 جون کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں حکومت کے بجائے پیپلزپارٹی کے نوید قمر نے ایوان میں متفقہ ایس او پیز پیش کیں اور ان کی منظوری دے دی گئی۔

ایس او پیز کیا تھیں؟

  • جن ارکان کے کورونا ٹیسٹ نہیں ہوئے، انہیں ایوان میں داخل ہونے نہیں دیا جائے گا۔
  • قومی اسمبلی کے جن ملازمین کے ٹیسٹ نہیں ہوئے یا ٹیسٹ مثبت آئے ہیں وہ بھی پارلیمنٹ کی عمارت میں داخل نہیں ہوسکیں گے۔
  • اس بار اپوزیشن کی جانب سے کٹوتی کی تحاریک جمع کرائی جائیں گی، ان پر بحث ہوگی لیکن ووٹنگ کا عمل نہیں ہوگا۔
  • بجٹ کی منظوری کے عمل سے پہلے ڈیمانڈ اینڈ گرانٹس پر ووٹنگ والے دنوں میں ایک وقت میں 86 ارکان سے زیادہ شرکت نہیں کریں گے۔
  • بجٹ پر بحث وہی ارکان کرسکیں گے جن کے نام اسپیکر کے پاس رجسٹر کرائے جائیں گے اور وہی ارکان اس دن اجلاس میں شرکت کرسکیں گے۔
  • بجٹ 30 جون کو منظور ہوگا۔
  • ارکان کی حاضری ایوان کے داخلی دروازے پر لگانے کے بجائے پارلیمنٹ ہاؤس کے گیٹ نمبر ایک پر لگائی جائے گی۔
  • پارلیمنٹ لاجز میں کسی بھی رکن کے مہمان کے داخلے پر پابندی ہوگی۔
  • ارکان و وزرا کا وہی اسٹاف آسکے گا جن کے پاس باضابطہ پاسز ہوں گے۔
  • فنانس بل کی منظوری کے وقت کورم پورا رکھا جائے گا۔ یعنی منظوری کے وقت ایوان میں 342 کے بجائے 86 ارکان موجود ہوں گے۔
  • عام ایام میں کورم کی نشاندہی نہیں کی جائے گی
  • بجٹ پر بحث کے اجلاس کا دورانیہ صرف 3 گھنٹے ہوگا، اور ان دنوں ارکان کو کھانا بھی فراہم نہیں کیا جائے گا۔

حالیہ بجٹ اجلاس اس لحاظ سے بھی ماضی کے اجلاسوں سے مختلف تھا کہ اس بار اجلاس کی کارروائی میں ایک ویرانی سی چھائی تھی، خوف کا عالم تھا اور ہر آدمی دوسرے سے گھبراتا پایا گیا۔

ماضی میں بجٹ اجلاسوں کے وقت پارلیمنٹ ہاؤس کی عمارت کے اندر اتنا رش دیکھنے کو ملتا تھا کہ قدم دھرنے کی جگہ بھی کم پڑ جایا کرتی تھی۔ ملک بھر سے سینئر صحافیوں اور مدیران کو بلایا جاتا اور وزارتِ اطلاعات ان کی رہائش کا بندوبست کرتی تھی۔ دوسری طرف ارکانِ اسمبلی اور وزرا کے مہمانوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی پاسز جاری کیے جاتے تھے۔

ایوان کے اندر موجود نشستوں سے زائد پاسز جاری ہونے کے باعث مہمانوں کی گیلریوں کے داخلی دروازوں پر رش اور تُو تُو، میں میں عام سی بات ہوتی تھی، لیکن اس بار نہ صرف ایوان خالی تھا بلکہ اسپیکر کی دائیں جانب موجود گیلری میں وزیرِاعظم کے اسٹاف کے علاوہ کسی بھی گیلری میں ایک بھی وزیٹر موجود نہیں تھا۔

پریس گیلری میں نصب نشستوں میں ترتیب بھی اس طرح تھی کہ 3 نشستوں کے بعد ایک نشست پر بیٹھنے کے انتظامات کیے گئے تھے۔ یوں تو ارکان کی تعداد 342 ہے لیکن ایوان کے اندر عام دنوں میں 400 کے قریب نشستیں موجود ہوتی ہیں، تاکہ مشترکہ اجلاس کے لیے سینیٹ ارکان کے بیٹھنے کی بھی گنجائش رکھی جائے۔

اس بار اجلاس کی کارروائی میں ایک ویرانی سی چھائی تھی

اس بار متفقہ ایس او پیز کے بعد ایوان کے اندر صرف 86 نشستیں رکھی گئیں باقی تمام نشستیں نکال دی گئیں تاکہ ارکان کے درمیان فاصلہ رہے، ان قواعد کا ارکان کو ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ اب ساتھ ساتھ بیٹھ کر گپ شپ کرنے کی گنجائش نہیں رہی تھی۔

بجٹ اجلاس سے پہلے یہ بھی طے ہوا تھا کہ میڈیا اداروں سے صرف ایک ہی رپورٹر ایوان کی کارروائی کور کرسکے گا جبکہ گیٹ نمبر ایک کے ساتھ میڈیا کارنر میں میڈیا کے کیمروں پر بھی پابندی عائد کردی گئی تھی۔

اجلاس شروع ہوا تو ایوان میں کل 86 ارکان موجود تھے، جن میں حکومت کے 46 اور حزبِ اختلاف کے 40 ارکان تھے۔ ایک بڑے عرصے بعد وزیراعظم عمران خان نے بھی ایوان کو رونق بخشی تھی۔ پھر ایوان میں ارکان کی کم تعداد حکومت کے لیے بھی باعثِ اطمینان تھی کہ اگر احتجاج ہوا بھی تو شور اتنا نہیں ہوگا جتنا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔

اجلاس 21 منٹ کی تاخیر سے شروع ہوا۔ اسپیکر کے اعلان پر وفاقی وزیر حماد اظہر نے بجٹ تقریر پڑھنی شروع کی تو اچانک مسلم لیگ (ن) کے رکن کھیئل داس کوہستانی اور پیپلزپارٹی کے رکن آغا رفیع اللہ نے اپنی نشستوں کے سامنے ڈیسک کے نیچے پہلے سے رکھے گئے ہینڈ بلز نکالے اور اپنی اپنی جماعت کے ارکان میں بانٹنا شروع کردیے۔ جب اپوزیشن کے تمام ارکان تک ہینڈ بلز پہنچ گئے تو تمام ارکان اپنی نشستوں سے اٹھ کھڑے ہوئے اور ہینڈ بلز لہرا کر نعرے لگانا شروع کردیے۔

ایک طرف ہینڈ بلز پر حکومت مخالف نعرے درج تھے، تو دوسری جانب دیگر نعروں کی آوازیں بھی آتی رہیں۔ ساتھ ساتھ بجٹ کاپیز سے ڈیسک بھی بجائے جاتے رہے۔

ایوان کے اندر لگی اسکرینوں پر جب اپوزیشن کا احتجاج نہیں دکھایا جارہا تھا تو اس دوران مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ارکان نے خود ویڈیو بنانی شروع کردیں۔ لیکن جب اگلی نشستوں پر ویڈیو بنانے کا آغاز ہوا تو وفاقی وزیر علی زیدی اپنی نشست سے اٹھے اور اسپیکر کو کہتے رہے کہ انہیں روکا جائے لیکن ویڈیو بنانے والے ارکان کو اسپیکر کی جانب سے نہیں روکا گیا۔ بس پھر کیا تھا، اپوزیشن کے ارکان کی جانب سے بنائی گئی ویڈیوز فوری طور پر میڈیا ذرائع کے حوالے کردی گئیں۔

ہاں البتہ یہ ضرور ہوا کہ جب آغا رفیع اللہ، شازیہ مری اور کھیئل داس ہینڈ بلز لے کر ایوان کی آخری نشستوں اور ایوان میں نصب اسکرینوں پر نظر آنے کی غرض سے بجٹ پیش کرنے والے وفاقی وزیر کے ٹھیک پیچھے آئے تو اسپیکر نے اپوزیشن کے ارکان کو سختی سے جھڑک دیا اور کہا کہ اپنی عزت کا خیال رکھیں، جس کے بعد یہ ارکان واپس چلے گئے۔

ایوان میں کل 86 ارکان موجود تھے، جن میں حکومت کے 46 اور حزبِ اختلاف کے 40 ارکان تھے

اپوزیشن کا یہ احتجاج کافی دیر تک جاری رہا اور پھر 5 بج کر 20 منٹ پر سارے اپوزیشن ارکان ایوان سے واک آؤٹ کرکے نکل گئے۔ جیسے ہی اپوزیشن ایوان سے باہر گئی تو اسمبلی کے عملے نے ڈیسکوں اور فرش پر پڑے ہینڈ بلز اٹھانا شروع کردیے۔ اب ایوان میں صرف حکومت اور ان کے اتحادیوں کے 46 ارکان موجود تھے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ کورم کے نصف ارکان ایوان میں موجود تھے اور بجٹ پیش ہورہا تھا۔ کورم کی کوئی نشاندہی کرنے والا نہیں تھا کیونکہ سارے معاملات تو پہلے ہی طے ہوچکے تھے۔

وفاقی وزیر حماد اظہر کی تقریر ایک گھنٹہ 5 منٹ تک جاری رہی۔

اس بجٹ اجلاس میں قائدِ حزب اختلاف شہباز شریف کورونا، خورشید شاہ قید اور آصف زرداری بیماری کی وجہ سے شریک نہیں ہوئے جبکہ بلاول بھٹو زرداری اسلام آباد میں ہونے کے باجود ایوان میں نہیں آئے۔

ایک رکنِ اسمبلی نے بتایا کہ ‘دیکھا جائے تو ایک محفوظ عمارت ہونے کے باوجود ان دنوں کورونا وائرس کے باعث پارلیمنٹ ہاؤس ایک خطرناک زون بن چکا ہے’۔

ایک ڈاکٹر نے دورانِ گفتگو یہ بات بتائی کہ ‘سینٹرلی ایئرکنڈیشنڈ ہونے کے باعث آپ کتنی بھی فیومیگیشن کرالیں لیکن وائرس کی موجودگی سے آپ انکار نہیں کرسکتے، کیونکہ تازہ ہوا کا اس عمارت میں گزر ہی نہیں، ایئر کنڈیشنڈ کی ہی ہوا عمارت کے اندر گھومتی رہتی ہے’۔

مگر اس سب کے باوجود ملک کا نظم و نسق کسی صورت روکا نہیں جاسکتا اور پارلیمان نظامِ مملکت کو چلانے کا اہم محرک ہے، یہی وجہ ہے کہ اس بار بجٹ اجلاس کے دوران بہت سی روایات کو حالات کے مطابق ڈھالا گیا کیونکہ ماضی کی روایات کو برقرار رکھنا ان دنوں کسی بھی خطرے سے خالی نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں