بچوں میں غیر معمولی بیماری کے کیسز نے ماہرین کے لیے خطرے کی گھنٹی بجادی

اپ ڈیٹ 01 جولائ 2020
لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں اس طرح کے تین کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ چند دیگر کی اطلاعات کراچی، اسلام آباد اور راولپنڈی سے آئی ہیں۔ فائل فوٹو:رائٹرز
لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں اس طرح کے تین کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ چند دیگر کی اطلاعات کراچی، اسلام آباد اور راولپنڈی سے آئی ہیں۔ فائل فوٹو:رائٹرز

لاہور: کاواساکی بیماری (کے ڈی) جیسی علامتوں والی بیماریوں کے کیسز جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ یہ بچوں میں کورونا وائرس سے متاثر ہونے کے بعد کے انفیکشن کی پیچیدگیاں ہیں، ملک کے مختلف حصوں سے سامنے آنے لگیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق لاہور کے انسٹی ٹیوٹ آف چلڈرن ہیلتھ/چلڈرن ہسپتال میں اس طرح کے تین کیسز سامنے آئے ہیں جبکہ چند دیگر کی اطلاعات کراچی، اسلام آباد اور راولپنڈی سے آئی ہیں۔

ان کیسز نے پورے ملک میں ماہر امراض اطفال کو پریشان کردیا ہے۔

اس بیماری، جسے کاواساکی سنڈروم (کے ڈی) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، نامعلوم ایٹیولوجی کی شدید بیماری ہے جو بنیادی طور پر 5 سال سے کم عمر بچوں کو متاثر کرتی ہے۔

مزید پڑھیں: چینی تحقیق میں ایک نیا ممکنہ 'وبائی وائرس' دریافت

اس بیماری کو سب سے پہلے جاپان میں ٹومیساکو کاواساکی میں 1967 میں دریافت کیا گیا تھا۔

جاپان سے باہر پہلی بار 1976 میں ہوائی یہ بیماری سامنے آئی تھی۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ کے ڈی کی کلینیکل علامتوں میں بخار، خارش، ہاتھوں اور پیروں میں سوجن، آنکھوں کے سفید حصے میں جلن اور سرخ ہونا، گردن میں سوجن، لمف غدود اور منہ، ہونٹوں، اور حلق میں جلن اور سوزش شامل ہیں۔

ہسپتال کے ڈین پروفیسر ڈاکٹر مسعود صادق نے ڈان کو بتایا کہ ’یہ ہمارے لیے بہت پریشانی کی بات ہے کہ لاہور کے چلڈرن ہسپتال میں کے ڈی نما جیسی سنڈروم میں سامنے اور دیگر کیسز راولپنڈی/اسلام آباد اور کراچی سے سامنے آرہے ہیں۔

واضح رہے کہ نایاب اور پیچیدہ بیماریوں میں مبتلا بچوں کے علاج کے لیے آئی سی ایچ لاہور پاکستان میں عوامی شعبے کی سب سے بڑی سہولت موجود ہے۔

یہ بھی پڑھیں: کووڈ 19 کے بغیر علامات والے مریض کس طرح اس وائرس کو آگے پھیلاتے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ کاواساکی جیسے مرض کا پھیلاؤ پاکستان جیسے ممالک میں ہوسکتا ہے جو سارس-کوو-2 وبائی مرض سے متاثر ہو چکے ہیں جسے عام طور پر کووڈ-19 کے لیے ذمہ دار کورونا وائرس 2 کہا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بچوں کی زندگی کو محفوظ بنانے اور اس نئی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے پورے ملک میں پیڈیاٹرکس کو الرٹ کردیا گیا ہے۔

پروفیسر صادق نے کہا ’پیڈیاٹرکس اور ماہر امراض قلب کو اس نئی بیماری سے آگاہ ہونا چاہیے جو کے ڈی سے ملتی جلتی ہے لیکن اس کی شدید شکل ہے اور اس کا سب سے زیادہ امکان سارس-کوو-2 انفیکشن سے ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ بتائی گئی تھیراپیز کو استعمال کرتے ہوئے ابتدائی تشخیص، مناسب ریفرل اور انتظامات کے ذریعہ مناسب نتیجہ سامنے آسکتا ہے۔

پنجاب میں چلڈرن ہسپتال ہی میں کورونا وائرس سے پہلے بچے کی موت کے بعد ان کا یہ بیان سامنے آیا۔

انہوں نے کہا کہ بچوں میں کورونا وائرس 2 کی وجہ سے کووڈ۔19 کی بھی رپورٹس سامنے آئی ہیں تاہم بالغوں میں اس بیماری کے کیسز کے مقابلے میں یہ نسبتا کم ہی ہوئے ہیں۔

انہوں نے وفاقی حکومت کے اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ ’(بین الاقوامی طبی معیار کے مطابق) 19 سال سے کم عمر کے بچوں کی کووڈ 19 سے پاکستان میں موت کی شرح 0.46 فیصد ہے (یعنی 15 سال سے کم عمر 3 ہزار 501 کیسز میں سے صرف 16)‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’اس کے علاوہ تصدیق شدہ کیسز کی شرح 7.28 فیصد (یعنی ایک لاکھ 76 ہزار 617 میں سے 12 ہزار 858) ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ تناسب کورونا وائرس وبائی امراض کے دوران دنیا میں اب تک کی سب سے زیادہ شرح میں سے ایک ہے۔

مزید پڑھیں: کورونا وائرس بہت تیزی سے کیوں پھیلا؟ ممکنہ جواب مل گیا

پروفیسر ڈاکٹر مسعود صادق نے کہا کہ ’امریکا میں کورونا وائرس کے 2 فیصد تصدیق شدہ کیسز 18 سال سے کم عمر افراد میں پائے گئے، اس کے علاوہ چین میں یہ شرح 2.2 فیصد، اٹلی میں 1.2 فیصد اور اسپین میں 0.8 فیصد ہے‘۔

انہوں نے کہا کہ خوش قسمتی سے بچوں میں کورونا وائرس کا اثر عام طور پر کم ہوتا ہے۔

پروفیسر نے کہا کہ کورونا وائرس سے متاثرہ بچے عام طور پر اس بیماری سے شدید متاثر نہیں ہوتے تاہم وہ اس کی منتقلی کا باعث بن سکتے ہیں اور اسے اپنے والدین اور گھر کے دوسرے لوگوں تک پھیلا سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’یورپ اور امریکا بھر کے مراکز حال ہی میں ایک ملٹی سسٹم سوزش سنڈروم کی اطلاع دے رہے ہیں جو کورونا وائرس سے وابستہ بچوں کو متاثر کررہے ہیں، بچوں میں (ایم آئی ایس-سی) اور نوجوان افراد (19 سال سے کم عمر کے) جو عارضی طور پر سارس-کوو-2 وبائی بیماری سے وابستہ رہے، ان میں سیرولوجک سوزش کے مارکر اور سائٹوکائن کی سطح بڑھ گئی، جس کی ایک خصوصیت قلبی مسائل ہیں۔

پروفیسر صادق ، جو پاکستان کے ماہر امراض اطفال میں سے ایک ہیں، نے کہا کہ متاثرہ بچوں میں ملٹی سسٹم میں ملوث ہونے کی وجہ سے نمایاں سوزش نظر آرہی ہے جو کاواساکی بیماری کی طرح ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’ان مریضوں میں زہریلے شاک سنڈروم اور کاواساکی بیماری کے شاک سنڈروم کے ساتھ قلبی سوزش سے دوچار ہوکر اے ٹائپکل کاواساکی بیماری کی خصوصیات سامنے آئیں‘۔

انہوں نے کہا کہ ’سب سے زیادہ امکان ہے کہ یہ سارس-کوو-2 کے انفیکشن کے بعد کی ایک پیچیدگی ہے اور اس کے کیسز کورونا وائرس سے متاثرہ ایک ہزار بچوں میں سے ایک ہیں‘۔

انہوں نے کہا ، یہ ایسی حالت ہے جس میں جسم، پھیپھڑوں، گردے، دماغ، جلد، آنکھیں یا معدے کے اعضا سمیت جسم کے مختلف حصوں میں سوجن ہو سکتی ہے۔

آخر میں انہوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ زیادہ تر متاثرہ بچوں کو قلبی استحکام کے لیے میکینکل وینٹیلیشن کی ضرورت ہوسکتی ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں