پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی (پی ٹی اے) نے ملک میں مقبول آن لائن گیم پلیئر ان نونز بیٹل گراؤنڈز (پب جی) پر عارضی پابندی عائد کردی ہے۔

پی ٹی اے کی جانب سے جاری بیان کے مطابق مختلف حلقوں سے ملنے والی شکایات کو دیکھتے ہوئے پی ٹی اے نے پب جی گیم کو عارضی طور پر معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

بیان میں بتایا گیا کہ پی ٹی اے کو اس گیم کے خلاف لاتعداد شکایات موصول ہوئی تھیں جن میں کہا گیا تھا کہ یہ گیم اپنا عادی بنادیتی ہے، وقت کا ضیاع اور بچوں کی ذہنی اور جسمانی صحت پر نگین منفی اثرات کا باعث بنتی ہے۔

مزید پڑھیں: آن لائن گیم پب جی کی عادی خاتون کا طلاق کا مطالبہ

پی ٹی اے کا کہنا تھا کہ حالیہ رپورٹس کے مطابق پب جی گیم کے حوالے سے خودکشی کے واقعات بھی سامنے آئے ہیں جبکہ لاہور ہائی کورٹ نے بھی پی ٹی اے کو شکایت کرنے والوں سے بات کرکے اس معاملے کو دیکھنے اور فیصلہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔

اس حوالے سے ایک سماعت 9 جولائی 2020 کو ہورہی ہے۔

پی ٹی اے نے آن لائن گیم کے حوالے سے لوگوں کی رائے جاننے کا بھی فیصلہ کیا ہے اور عوام کو 10 جولائی تک [email protected] پر رائے دینے کا کہا ہے۔

فوٹو بشکریہ پی ٹی اے
فوٹو بشکریہ پی ٹی اے

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ کے دوران پب جی کھیلنے کے عادی 3 نوجوانوں نے خودکشیاں کرلی تھیں۔

ایک واقعہ حال ہی میں پیش آیا اور ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اٹھارہ سالہ شہریار کو چھت کے پنکھے سے لٹکا پایا گیا اور اس کے پاس ایک خود کشی کا نوٹ بھی موجود تھا جس میں اس نے پلیئر ان نون بیٹل گراؤنڈ (پب جی) کو ’قاتل آن لائن گیم‘ قرار دیا تھا۔

کینٹ ڈویژن کے سپرنٹنڈنٹ پولیس (ایس پی) فرقان بلال نے ڈان کو بتایا کہ لڑکے نے ایک نامعلوم لڑکی کو انتہائی قدم اٹھانے کے مناظر دکھانے کے لیے ویڈیو کال بھی کی تھی۔

ایس پی نے بتایا کہ لڑکا اپنے بھائی کے ساتھ پنجاب ہاؤسنگ سوسائٹی میں کرائے کے کوارٹر میں رہتا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ جب لڑنے کے خودکشی کی اس وقت اس کا بھائی گھر پر نہیں تھا،

یہ بھی پڑھیں: اردن میں آن لائن گیم 'پَب جی' پر پابندی عائد

پولیس افسر نے کہا کہ پولیس نے فرانزک تجزیہ کرنے کے لیے اس کا مبینہ خودکشی کا نوٹ اور موبائل فون ضبط کرلیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ شہریار کا بھائی ایک سیلز مین تھا اور پولیس اس لڑکی تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے جسے لڑکے نے خود کو پھانسی پر لٹکانے سے قبل ویڈیو کال کی تھی۔

ایس پی نے مزید کہا کہ ’ہم ایک دکاندار سے بھی تفتیش کریں گے جو پب جی گیم میں اس کا پارٹنر تھا‘۔

مبینہ خودکشی کے نوٹ میں لڑکے نے اپنی موت کی ایک وجہ کو پب جی بتایا تھا اور اس نے اپنی غلطیاں کرنے پر دکاندار سے معافی مانگی تھی۔

آن لائن گیم پر پابندی کے لیے لاہور پولیس نے پہلے ہی انسپیکٹر جنرل پولیس کے ذریعے اعلی حکام کے سامنے یہ معاملہ اٹھایا تھا۔

ڈپٹی انسپکٹر جنرل (آپریشنز) اشفاق احمد خان کی سفارشات پر لاہور سٹی پولیس آفیسر نے اس سلسلے میں ایک خط بھی لکھا تھا۔

خیال رہے کہ چند ماہرین کے مطابق پب جی بچوں کی ذہنی صحت کو متاثر کررہا ہے۔

ان کے مطابق متعدد ممالک اسی طرح کی شکایات پر کھیل پر پابندی لگانے کی کوششیں کر رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس سے قبل ایک اور ’بلیو وہیل چیلنج‘ نامی آن لائن ’خودکشی پر ابھارنے والے گیم‘ کی اطلاع دی گئی تھی جس کے ذریعے نوجوانوں کو 50 روز کے لیے 50 ٹاسک دیئے جاتے تھے۔

تبصرے (0) بند ہیں