ججز کےخلاف توہین آمیز ویڈیو پر ملزم افتخارالدین کی معافی مسترد، توہین عدالت کا نوٹس

اپ ڈیٹ 09 جولائ 2020
چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ نے سماعت کی—فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ و دیگر ججز سمیت عدلیہ مخالف اور توہین آمیز ویڈیو ازخود نوٹس کیس میں مولوی آغا افتخار الدین مرزا کی غیر مشروط معافی مسترد کرتے ہوئے توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔

چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے توہین آمیز ویڈیو ازخود نوٹس کی سماعت کی۔

سماعت کے دوران جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ایف آئی اے کی رپورٹ فائل ہوچکی ہے، ساتھ ہی چیف جسٹس نے پوچھا کہ آغا افتخار الدین مرزا کی طرف سے کون پیش ہورہا ہے، جس پر ان کی وکیل سرکار عباس نے جواب دیا کہ افتخار الدین مرزا نے غیر مشروط معافی نامہ جمع کرادیا ہے۔

اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ معافی نامہ ہمارے سامنے نہیں ہے، جو الفاظ استعمال کیے گئے کیا ایسے الفاظ استعمال کیے جاسکتے تھے، ایسے مقدمے میں معافی کیسے دیں۔

ساتھ ہی چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آغا افتخار الدین مرزا کو 6 ماہ کے لیے جیل بھیج دیتے ہیں، آپ کو اس کیس کی نوعیت کا اندازہ نہیں ہے، آپ اس کیس کو بہت ہلکا لے رہی ہیں، جس پر ان کی وکیل نے کہا کہ افتخار الدین مرزا دل کے مریض ہیں، اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم کیا کریں ان کو اپنی زبان کو قابو میں رکھنا چاہیے تھا۔

سماعت کے دوران ہی جسٹس اعجاز الاحسن بولے کہ اٹارنی جنرل کے مطابق یہ تو فوجدرای اور دہشت گردی کا جرم بھی بنتا ہے، معافی دینے کا فائدہ نہیں ہوگا، فوجداری اور دہشت گردی کے مقدمے میں معافی نہیں ہوتی جبکہ منبر پر بیٹھ کر گفتگو، نجی گفتگو کیا ہوئی؟

مزید پڑھیں: ایف آئی اے نے ججز کو دھمکانے والی ویڈیو کے معاملے پر رپورٹ جمع کروادی

اس پر آغا افتخار الدین کی وکیل بولیں کہ اب ہم معافی مانگ رہے ہیں، عدالت معاف کردے، جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ بہت ساری چیزیں معاف نہیں ہوتیں۔

عدالتی ریمارکس پر وکیل نے مزید کہا کہ ایف آئی اے نے مقدمے میں دہشت گردی کی دفعات لگا دی ہیں، اسی دوران جسٹس اعجاز الاحسن نے ان کی معافی کی بات پر مزید کہا کہ آپ کی معافی ہم قبول نہیں کر رہے، معافی نامے سمیت دلائل میں تین مختلف مؤقف دیے گئے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن بولے کہ منصوبے کے ساتھ ویڈیو بنائی گئی اور اس میں تصویریں بھی شامل کی گئی، جس پر آغا افتخار الدین کی وکیل نے کہا کہ میں دوبارہ درخواست کرتی ہوں کہ معاف کردیں انسان سے غلطی ہوجاتی ہے۔

اس پر جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ یہ ادارے ہیں جن کے بارے میں ایسے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں، ایسا نہیں ہوسکتا کہ ایسے الفاظ استعمال کرکے معافی مانگ لی جائے، اس پر پھر وکیل نے کہا کہ آغا افتخار غریب بندے ہیں انہیں معاف کردیں۔

جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے پوچھا کہ کیا ایسے جرم پر فوری سزا نہیں ہوسکتی، اس پر انہیں اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ عدالت چاہے تو جرم قبول کرنے پر آج بھی سزا سنا سکتی ہے، ساتھ ہی وہ بولے کہ آغا افتخار نے عدلیہ اور ججز کے بارے میں سخت الفاظ استعمال کیے، ان کے بیان نے عدلیہ کی ساکھ کو خراب کیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ آغا افتخار نے دل میں درد کی شکایت کی تو ان کو ہسپتال منتقل کیا گیا، ان کو چکر آرہے ہیں، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ عدالت کا نوٹس ہوگا تو چکر تو آئیں گے۔

ساتھ ہی ان کی وکیل نے کہا کہ افتخار الدین مرزا کو ہسپتال لے کر گئے ہیں، وہ مرجائیں گے، گزشتہ سماعت پر وہ عدالت عظمیٰ آئے تھے لیکن پولیس نے انہیں عدالت میں پیش ہونے نہیں دیا۔

دوران سماعت عدالت کو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی جانب سے لکھا ہوا خط پیش کرنے کی کوشش کی گئی جس پر عدالت نے اہلیہ جسٹس عیسیٰ کا لکھا ہوا خط لینے سے انکار کردیا۔

یہ بھی پڑھیں: عدلیہ کیخلاف ویڈیو از خود نوٹس کیس: ایف آئی اے کے سربراہ سپریم کورٹ طلب

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر کچھ جمع کرانا ہے تو عدالتی طریقہ کار کے مطابق جمع کرائیں، ساتھ ہی عدالت نے صحافی حامد میر اور محمد مالک کے وکیل کو بھی سننے سے انکار کردیا۔

دوران سماعت جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ افتحار الدین مرزا کی ویڈیو کسی بچے کی بنی ہوئی نہیں، ان کا اپنا ویڈیو چینل ہے، اس سے افتخار الدین مرزا پیسے کماتے ہیں۔

جسٹس اعجازالاحسن بولے کہ ایسی زبان تو گلیوں میں بھی استعمال نہیں ہوتی، اسلامی اسکالر نے ایسی ویڈیو بنا کر دنیا کے لیے پبلک کر دی، ایف آئی اے کے سامنے ملزم نے تسلیم کیا کہ 7 نمازیوں کے سامنے ویڈیو ریکارڈ ہوئی، ملزم نے معافی مانگ کر اپنا جرم تسلیم کر لیا ہے جبکہ آغا افتخار الدین مرزا کہہ رہے ہیں میں نے جرم نہیں کیا۔

اس موقع پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ معافی نامے کا بیان حلفی بھی قانونی طریقہ کار کے مطابق نہیں، سادہ کاغذ پر معافی نامہ لکھ کر دیا گیا ہے، معافی نامہ پڑھیں لکھا کیا ہے اس مقدمے کو عام مقدمے کی طرح نہ لیں، افتخار الدین مرزا کو ابھی سزا سنا دیں گے، انہیں کئی ماہ جیل میں رہنا پڑے گا۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اس (افتخار الدین مرزا) کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی جائے، اس مقدمے میں کوئی رحم کی بات نہیں۔

بعد ازاں عدالت نے افتخار الدین مرزا کا معافی نامہ مسترد کرتے ہوئے انہیں توہین عدالت کا نوٹس جاری کردیا۔

عدالت نے انہیں 7 روز میں جواب جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے حکام کو ہدایت کی کہ آئندہ سماعت پر آغا افتخار الدین کو پیش کریں۔

جس کے بعد عدالت نے کیس کی سماعت کو 15 جولائی تک ملتوی کردیا۔

معاملے کا پس منظر

خیال رہے کہ 24 جون کو سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے پولیس کو ایک درخواست دی تھی جس میں کہا گیا کہ ان کے خاندان کی زندگی خطرے میں ہے کیونکہ انہیں سنگین نتائج کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔

انہوں نے اپنی شکایت میں کہا تھا کہ 'میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ ہوں جو سپریم کورٹ کے جج ہیں اور انہیں قتل کی دھمکی دی گئی ہے'۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ نے مزید کہا تھا کہ ایک شخص نے ویڈیو میں کہا تھا کہ ان کے شوہر کو سرعام گولی ماری جائے، ساتھ ہی انہوں نے اپنی شکایت کے ساتھ دھمکی آمیز ویڈیو پیغام پر مشتمل یو ایس بی بھی جمع کروائی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کی اہلیہ کی اہلخانہ کو قتل کی دھمکیوں کے خلاف شکایت

بعد ازاں اگلے ہی روز چیف جسٹس پاکستان گلزار احمد نے آغا افتخار الدین کی ججز، عدلیہ کے خلاف اس ویڈیو کلپ کا نوٹس لیا تھا۔

جس کے بعد 26 جون کو پہلی سماعت پر عدالت نے ڈائریکٹر جنرل ایف آئی اے واجد ضیا اور آغا افتخار مرزا کو طلب کیا تھا اور اٹارنی جنرل نے بتایا تھا کہ ایف آئی اے نے الیکٹرانک کرائم ایکٹ کے تحت کارروائی شروع کردی ہے۔

عدالتی کارروائی کے بعد آغا افتخار کو حراست میں لیا گیا تھا اور 30 جون کو انسداد دہشت گردی عدالت نے راولپنڈی سے تعلق رکھنے والے آغا افتخار الدین مرزا کو 7 روز کے جسمانی ریمانڈ پر وفاقی تحقیقاتی ادارے کے حوالے کردیا تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں