پی آئی اے نے 52 ملازمین کو فارغ کردیا

اپ ڈیٹ 04 جولائ 2020
پی آئی اے کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق غیر جانبدار انکوائری میں قصوروار پائے گئے ملازمین کو سزا دینا ضروری ہے—فائل فوٹو: ڈان
پی آئی اے کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق غیر جانبدار انکوائری میں قصوروار پائے گئے ملازمین کو سزا دینا ضروری ہے—فائل فوٹو: ڈان

راولپنڈی: پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) نے جعلی یا ڈگری میں ردو بدل، قواعد کی خلاف ورزی، میڈیا کو غیر مجاز طور پر سرکاری معلومات فراہم کرنے کے الزامات پر 52 ملازمین کو فارغ کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ادارے کی جانب سے اپنے فرائض کی انجام دہی میں بھرپور لگن اور عزم کے اظہار پر 11 ملازمین کو تعریفی سرٹیفکیٹس بھی دیے گئے۔

قومی اسمبلی میں اس انکشاف کے بعد کہ کچھ پائلٹس کی ڈگری مشکوک ہیں، قومی ایئرلائن نے حال ہی میں اپنے 140 پائلٹس کو گراؤنڈ (ذمہ داریوں سے عہدہ برآ) کردیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ’پائلٹس کے مشتبہ لائسنس کا معاملہ صرف پی آئی اے سے منسلک نہیں‘

پی آئی اے کے ایچ آر ڈیپارٹمنٹ سے ملازمین کو ارسال کردہ خطوط میں کہا گیا کہ ’نظم و ضبط کسی بھی ادارے کے لیے انتہائی اہم ہے جو ملازمین کو پابند کرتا ہے اور انہیں ادارے کے قواعد پر عملدرآمد کی ترغیب دیتا ہے، اس لیے محنتی اور وفادار ملازمین کو سراہنا اور قانون کے مطابق غیر جانبدار انکوائری میں قصوروار پائے گئے ملازمین کو سزا دینا ضروری ہے‘۔

مراسلے کے مطابق 25 ملازمین کو جعلی/بوگس/ ردو بدل والی ڈگری اور دستاویزات پر برطرف کیا گیا جبکہ 21 طویل عرصے تک غیر حاضر رہنے پر فارغ ہوئے جبکہ ایک ملازم کو قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے پر نوکری سے نکالا گیا۔

مراسلے میں مزید کہا گیا کہ غیر مجاز طور پر سوشل اور مین اسٹریم میڈیا میں سرکاری معلومات فراہم کرنا 2 ملازمین کی برطرفی کا سبب بنا۔

مزید پڑھیں: پی آئی اے کا 150 'مشکوک لائسنس' والے پائلٹس کو کام سے روکنے کا فیصلہ

اس کے علاوہ دیگر 2 ملازمین کو قواعد کی خلاف ورزی پر عہدے کی تنزلی اور ایک کو ڈیوٹی سے غیر حاضری پر تنخواہ میں کمی کا سامنا کرنا پڑا۔

اس ضمن میں ترجمان پی آئی اے نے کہا کہ انتظامیہ نے 11 ملازمین کو بہترین پیشہ ورانہ رویہ اپنانے اور محنت و لگن سے کام کر نے پر تعریفی سرٹیفکیٹس سے بھی نوازا۔

ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ انتظامیہ ادارے میں سخت نظم و ضبط یقینی بنارہی ہے اور اس کے ساتھ ہی ملازمین میں پیشہ ورانہ رویے اور محنت سے کام کرنے کا اعتراف بھی کررہی ہے۔

خیال رہے کہ پی آئی اے کو جعلی یا مشکوک ڈگری کے حامل پائلٹس کے حوالے سے پہلے ہی سخت مشکلات کا سامنا ہے۔

یہ بھی دیکھیں: 'پی آئی اے کے 4 پائلٹس سمیت 600 ملازمین کی ڈگریاں ٹھیک نہیں تھیں

ان مشکلات کا آغاز وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کی جانب سے قومی اسمبلی میں طیارہ حادثے کی رپورٹ پیش کرتے ہوئے دیے گئے اس بیان سے ہوا کہ پی آئی اے کے 860 میں سے 262 یعنی تقریباً 30 فیصد پائلٹس ایسے ہیں جن کے لائسنسز جعلی ہیں جنہوں نے خود امتحان نہیں دیا یا ان کافلائنگ کا تجربہ ہی نہیں۔

بعدازاں خصوصی پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ ادارے میں 28 پائلٹس کے جعلی لائسنس کی تصدیق ہوچکی ہے۔

اسی روز پی آئی اے انتظامیہ نے ایکشن لیتے ہوئے اپنے 150 پائلٹس کو گراؤنڈ کرنے (کام کرنے سے روکنے) کا فیصلہ کیا تھا اور بعد میں ایک بیان سے واضح کیا تھا کہ جعلی یا مشکوک ڈگری کا معاملہ صرف پی آئی اے سے منسلک نہیں ہے۔

وفاقی وزیر کے بیان کو نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرونِ ملک بھی انتہائی توجہ حاصل ہوئی اور سب سے پہلے ویتنام کی سول ایوی ایشن نے مقامی ایئرلائنز میں کام کرنے والے تقریباً 20 پائلٹس کو معطل کردیا تھا۔

تاہم اس کے بعد سب سے بڑا دھچکا قومی ایئرلائن کو اس وقت لگا جب یورپین یونین ایئر سیفٹی ایجنسی (ایاسا) نے پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز کے یورپی ممالک کے فضائی آپریشن کے اجازت نامے کو 6 ماہ کے لیے عارضی طور پر معطل کردیا تھا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں