ریلوے کے خستہ حال ٹریکس کی فوری مرمت کی جائے، ٹرین ڈرائیورز کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 06 جولائ 2020
ملتان تا کرچی بذریعہ سکھر سیکشن کو پاکستان ریلوے کا سب سے خطرناک حصہ قرار دیا جاتا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی
ملتان تا کرچی بذریعہ سکھر سیکشن کو پاکستان ریلوے کا سب سے خطرناک حصہ قرار دیا جاتا ہے—فائل فوٹو: اے ایف پی

لاہور: حکومت کو مزید حادثات کے بارے میں خبردار کرتے ہوئے ٹرین ڈرائیورز نے پاکستان ریلوے کے حکام پر زور دیا ہے کہ مسافروں، لائن اسٹاف اور رولنگ اسٹاک کی حفاظت کے لیے ٹریک کی مرمت پر توجہ دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ اگر موجودہ صورتحال میں ریلوے انتظامیہ نے ان سے تمام مال بردار، مسافر اور ایکسپریس ٹرینیں چلانے کا کہا تو وہ احتجاج کریں گے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکام مالیاتی وجوہات کی بنا پر شالیمار اور سرسید ایکسپریس کو بند کرنے پر غور کررہے ہیں۔

ٹرین ڈرائیورز کے مطابق ریلوے حکام ٹریکس کی صورتحال سے بخوبی آگاہ ہیں مین لائن (پشاور تا کراچی بذریعہ) بالخصوص ملتان سکھر اور سکھر کراچی سیکشنز کی حالت بہت بری اور ٹرین چلانے کے لیے ٹھیک نہیں۔

یہ بھی پڑھیں: خانپور کے قریب مسافر ٹرین کی مال گاڑی کو ٹکر، 2 افراد زخمی

پاکستان ریلوے ٹرین ڈرائیورز ویلفیئر ایسوسی ایشن شمس پرویز نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’ریلوے حکام صورتحال سے اچھی طرح واقف ہونے کے باوجود ٹرین چلانے کے لیے مجبور کررہے ہیں‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ ہم احتجاج کر کے اس معاملے کو بھرپور طریقے سے اجاگر کریں اور ٹرینوں کے ٹریک، سگنل سسٹم اور انجنز کی دیکھ بھال ضروری کروائیں۔

خیال رہے کہ ملتان تا کراچی بذریعہ سکھر سیکشن کو پاکستان ریلوے کا سب سے خطرناک حصہ قرار دیا جاتا ہے، زیادہ تر سینئر اور جونیئر عہدیدار گزشتہ 2 سالوں کے دوران ٹرینوں کے پٹری سے اترنے کے واقعات تواتر سے ہونے کی وجہ سے ملتان، سکھر اور کراچی ڈویژن میں تعیناتی سے گھبراتے ہیں۔

مزید پڑھیں: شیخوپورہ کے نزدیک مسافر کوسٹر ٹرین کی زد میں آگئی، 22 افراد ہلاک

ریلوے نے ان دو سیکشنز اور دیگر سیکشنز پر حادثات کی تفصیل فراہم نہیں کیں لیکن سرکاری ذرائع کا کہنا تھا کہ گزشتہ برس ہلاکت خیز حادثات کے علاوہ 100 سے زائد حادثات رونما ہوئے۔

ملتان اور کراچی سیکشنز میں ہونے والے 100 سے زائد چھوٹے بڑے حادثات میں یکم اپریل 2019 میں رحیم یار خان کے نزدیک مال گاڑی کی 8 بوگیاں پٹری سے اترنا، 18 مئی کو پیدیداں اسٹیشن کے نزدیک مال بردار گاڑی کا پٹری سے اترنا، 21 مئی کو کنڈیاں کے نزدیک تھل ایکسپریس پٹری سے اتری، 20 جون کو حیدرآباد کے نزدیک جناح ایکسپریس کو حادثہ پیش آیا، 11 جولائی خانیوال کے نزدیک سیکشن پر پاکستان ایکسپریس پٹری سے اتری، 12 جولائی کو ولہار اسٹیشن پر اکبر ایکسپریس اور مال گاڑی کی ٹکر ہوئی، 23 جولائی کو کوٹری اور روہڑی اسٹیشن پر زکریا ایکسپریس اور مال گاڑی پٹری سے اتری اور 30 اکتوبر کو رحیم یار خان کے نزدیک تیز گام ایکسپریس میں آتشزدگی کا واقعہ پیش آیا۔

شمس پرویز نے دعویٰ کیا کہ ’گزشتہ 6 ماہ کے دوران کراچی اور سکھر سیکشن کے نزدیک 30 مال گاڑیوں اور 3 مسافر ٹرینوں کو 33 حادثات پیش آئے جبکہ ٹریک اور سگنلنگ سسٹم کی خراب صورتحال کی وجہ سے سکھر تا ملتان اور خانیوال کے درمیان حادثات ایک الگ مسئلہ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: قصور میں ٹرین کی کار کو ٹکر، 2 نوبیاہتا جوڑے ہلاک

دوسری جانب ملتان ڈویژن میں ڈرائیور ایسوسی ایشن کے صدر کریم بخش نے ملتان تا سکھر ٹریک پر حادثات میں اضافے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ ریلوے کے چیئرمین اور سی ای او خستہ حال ٹریک کی بحالی کا فوری حکم دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ 6 ماہ کے دوران 12 بڑے حادثات رونما ہوچکے جن میں ملتان تا سکھر سیکشن پر شالیمار ایکسپریس کی مال گاڑی سے ٹکر بھی شامل ہے اور یہ حکام کو یاد دہانی کے لیے ہے کہ صورتحال کا نوٹس لیں۔

ذرائع کے مطابق پاکستان ریلوے کراسنگز پر ہونے والے حادثات کو شمار نہیں کرتی اور 6 ماہ میں اَن مینڈ کراسنگ پر 9 اور مینڈ لیول کراسنگ پر 4 حادثات ہوچکے ہیں۔

تبصرے (1) بند ہیں

زوبینہ Jul 06, 2020 10:37am
ستر سال سے کسی حکومت نے ریلوے پر کوئ خرچ نہیں کیا ساری حکومتوں کی نااہلی کا خمیازہ صرف اسہی حکومت کے سر کیوں ؟ ساری زمداری ان پر اور نا اہل بھی یہی ؟ اخر کیوں ؟؟؟؟ میڈیا اتنا کرپٹ ہے اور اپنی باری آنے سے پہلے ہی اس حکومت کے پیچھے ہاتھ دھو کے پڑ گیا ہے