نیب کی بڑے سیاستدانوں کے خلاف میگا کرپشن کیسز پر نظرثانی

اپ ڈیٹ 07 جولائ 2020
نیب نے ان کے کیسز نمٹانے میں قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے برخلاف تاخیر پر عدم اطمینان کا اظہار بھی کیا۔ اے ایف پی:اے پی: فائل فوٹو
نیب نے ان کے کیسز نمٹانے میں قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے برخلاف تاخیر پر عدم اطمینان کا اظہار بھی کیا۔ اے ایف پی:اے پی: فائل فوٹو

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو (نیب) نے ملک کے بڑے سیاستدانوں کے میگا کرپشن کے کیسز کا جائزہ لیا جن میں پانچ سابق وزرائے اعظم، پانچ سابق وزرائے اعلی اور کابینہ کے چند ممبران شامل ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نیب نے ان کے کیسز نمٹانے میں قومی احتساب آرڈیننس (این اے او) 1999 کے برخلاف تاخیر پر 'عدم اطمینان' کا اظہار بھی کیا جس کے مطابق ایسے کیسز کے بارے میں 30 دن کے اندر فیصلوں کی ضرورت ہوتی ہے۔

نیب کے مقدمات کا سامنا کرنے والے نمایاں افراد میں سابق وزرائے اعظم نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، شوکت عزیز، راجا پرویز اشرف اور سید یوسف رضا گیلانی، سابق صدر آصف علی زرداری، سابق وزرائے اعلی شہباز شریف، قائم علی شاہ، نواب اسلم رئیسانی، ثناء اللہ زہری اور خیبر پختونخوا کے سردار مہتاب عباسی اور موجودہ وزیر اعلی سندھ مراد علی شاہ بھی شامل ہیں۔

اعظم خان جو اب بھی وزیر اعظم عمران خان کے سیکریٹری ہیں، مالم جبہ ریزورٹ منصوبے سے متعلق بدعنوانی کے مقدمے کا سامنا کر رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: وزارت خزانہ نے آڈٹ رپورٹ میں کرپشن کی خبروں کو مسترد کردیا

میگا کرپشن میں مبینہ طور پر ملوث پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دیگر رہنما اور کابینہ کے ممبران میں وزیر مذہبی امور نورالحق قادری، وزیر ہوا بازی غلام سرور خان، سابق وزیر صحت عامر کیانی اور علیم خان شامل ہیں۔

این اے او 1999 کی دفعہ 16 (اے)، جس میں 26 مارچ 2010 کو ترمیم کی گئی تھی، میں کہا گیا ہے کہ 'کسی دوسرے قانون میں موجود کسی بھی چیز کے علاوہ عدالت میں اس آرڈیننس کے تحت کسی جرم کے تحت مقدمہ چلایا جائے گا اور اسے روزانہ کی بنیاد پر سنا جائے گا اور 30 دن میں نمٹا دیا جائے گا'۔

ایک ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ احتساب بیورو نے ایک اجلاس کے دوران نیب کے کیسز نمٹانے میں 'تاخیر' پر اظہار برہمی کیا۔

بتایا گیا کہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کی حکومت میں سابق وفاقی وزیر ڈاکٹر عاصم حسین کے خلاف 2 ارب 64 کروڑ روپے کا مقدمہ 5 سال سے زیر سماعت ہے۔

مقدمے میں ملزمان کی طرف سے تاخیری حربے اور تین سال بعد تفتیشی افسران کے تبادلے کو مقدمات کے تصفیہ میں تاخیر کی وجوہات کے طور پر بتایا گیا۔

نیب کے چیئرمین ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال، جنہوں نے بیورو کے ہیڈکوارٹر میں منعقدہ اجلاس کی صدارت کی، نے بیورو کے پروسیکیوشن ونگ کو کیسز کو جلد از جلد نمٹانے کے لیے عدالتوں میں درخواستیں داخل کرنے کی ہدایت کی۔

اجلاس میں نیب کے ڈپٹی چیئرمین حسین اصغر، پراسیکیوٹر جنرل احتساب، ڈائریکٹر جنرل (آپریشنز) اور دیگر سینئر افسران موجود تھے۔

تمام ڈائریکٹرز جنرل (علاقائی سربراہان) نے بھی ویڈیو لنک کے ذریعے اس اجلاس میں شرکت کی تھی۔

اجلاس میں نیب کی مجموعی کارکردگی کا جائزہ لیا گیا۔

اس موقع پر چیئرمین نیب نے بات کرتے ہوئے کہا کہ بیورو سب کے لیے احتساب کی پالیسی پر عمل کرنے پر مضبوطی سے یقین رکھتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 'نیب کی کسی سیاسی جماعت، گروپ یا فرد سے وابستگی نہیں ہے، نیب کی واحد وابستگی ریاست پاکستان سے ہے'۔

اجلاس میں اسحٰق ڈار، خواجہ سعد رفیق، ڈاکٹر عاصم، احسن اقبال، طارق فضل چوہدری، مفتاح اسمٰعیل، بابر خان غوری، منظور وسان، آغا سراج درانی، سہیل انور سیال، عادل صدیق، رؤف صدیق، شرجیل انعام میمن، خورشید شاہ، وسیم اختر، سردار عاشق خان گوپانگ، برجیس طاہر، اعجاز جاکھرانی، رانا ثناء اللہ، سبطین خان، صاحبزادہ محمود زیب، شیر اعظم خان، انجینیئر امیر مقام، ریٹائرڈ کیپٹن صفدر، عثمان سیف اللہ، انور سیف اللہ، اسفند یار کاکڑ، عاصم کرد، سعادت انور، رحمت بلوچ، تماش خان، حمزہ شہباز، سلمان شہباز، حسن نواز، حسین نواز، احد چیمہ، فواد حسن فواد، امجد علی خان، صدیق میمن، منظور کاکا، شاہد الاسلام، عمران الحق، عبد اللہ غنی مجید، انور مجید، اعجاز ہارون، زاہد میر، آصف اختر ہاشمی، طاہر بشارت چیمہ، طارق حمید، ڈاکٹر احسان علی، غلام مصطفی پھل، فرخند اقبال، امتیاز عنایت الٰہی، کامران لاشاری، اختر نواز گنجیرہ، کامران شفیع اور خالد مرزا کے خلاف مقدمات میں پیشرفت کا بھی جائزہ لیا گیا۔

یہ بھی پڑھین: رپورٹ کرپشن میں اضافے کی عکاسی نہیں کرتی، ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل

اجلاس میں بینک اسلامک، بینک آف خیبر، بلین ٹری منصوبے اور دیگر کے خلاف جاری تحقیقات میں پیشرفت کا بھی جائزہ لیا گیا۔

ایک سرکاری پریس ریلیز میں کہا گیا کہ 'سپریم کورٹ نے بس ریپڈ ٹرانسپورٹ (بی آر ٹی) پشاور کیس میں حکم امتناع جاری کررکھا ہے، نیب عدالت عظمیٰ کی ہدایات کی روشنی میں اس معاملے میں آگے بڑھے گا'۔

اجلاس میں قانون کے مطابق مجرمان اور مفرور ملزمان کی گرفتاری کے لیے تمام وسائل بروئے کار لانے کا فیصلہ کیا گیا۔

پریس ریلیز میں کہا گیا کہ 'فیصلوں کی مصدقہ کاپیاں ملنے کے بعد تمام مقدمات کے خلاف اپیلیں دائر کی جائیں گی تاکہ لوٹی گئی رقم واپس قومی خزانے میں جمع ہوسکے'۔

اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ قوانین کے مطابق انکوائری، شکایات کی تصدیق اور تفتیش مکمل کی جائے گی۔

تبصرے (0) بند ہیں