چیف الیکشن کمشنر نے صدر مملکت سے خفیہ ملاقاتوں کے الزامات مسترد کردیے

اپ ڈیٹ 08 جولائ 2020
معروف اینکر نے دعوی کیا تھا کہ سی ای سی کو اکثر ایوان صدر میں دیکھا جاتا تھا جہاں انہوں نے صدر مملکت کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں کیں۔ ڈان نیوز:فائل فوٹو
معروف اینکر نے دعوی کیا تھا کہ سی ای سی کو اکثر ایوان صدر میں دیکھا جاتا تھا جہاں انہوں نے صدر مملکت کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں کیں۔ ڈان نیوز:فائل فوٹو

اسلام آباد: چیف الیکشن کمشنر (سی ای سی) سکندر سلطان راجا نے صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کے ساتھ خفیہ ملاقات کرنے کے الزام کو بے بنیاد قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اخبار سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے ایک ممتاز اینکر کو چیلنج کیا جس نے یہ دعویٰ کیا تھا۔

انہوں نے اینکر سے الزام ثابت کرنے کا بھی کہا اور کہا کہ 'اگر یہ ثابت ہوا تو وہ مستعفی ہوجائیں گے'۔

واضح رہے کہ اینکر نے ایک ٹوئٹ میں الزام لگایا تھا کہ وزیر اعظم عمران خان نے صدر ڈاکٹر عارف علوی کو سی ای سی اور قومی احتساب بیورو (نیب) کے چیئرمین کے معاملات سنبھالنے کی ذمہ داری سونپی ہے۔

انہوں نے دعوی کیا کہ سی ای سی کو اکثر ایوان صدر میں دیکھا جاتا تھا جہاں انہوں نے صدر مملکت کے ساتھ خفیہ ملاقاتیں کیں۔

مزید پڑھیں: فارن فنڈنگ کیس: اسکروٹنی کمیٹی کے اسٹیٹس پر رپورٹ ایک ہفتے میں جمع کروانے کی ہدایت

انہوں نے ٹوئٹ کیا کہ 'ایسا لگتا ہے کہ نیا سی ای سی سردار محمد رضا کے ریکارڈ توڑ دے گا'۔

سکندر سلطان راجا نے ان الزام کو سراسر بے بنیاد قرار دیتے ہوئے کہا کہ انہوں نے نہ تو کبھی وزیر اعظم خان سے ملاقات کی ہے اور نہ ہی ان کی طرف سے کوئی پیغام موصول ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ 'اسی طرح انہیں صدر مملکت کی طرف سے بھی کبھی کوئی پیغام یا تجویز نہیں ملی۔

انہوں نے ریمارکس دیے کہ 'میں اس طرح کے مشورے لینے کا عادی نہیں ہوں'۔

ان کا کہنا تھا کہ 'میسجنگ کے ذریعے یا کسی بھی بالواسطہ چینل کے ذریعے یا نجی حیثیت میں میرا صدر سے کوئی رابطہ نہیں ہے، میں نے اپنی زندگی میں صرف ایک بار صدر سے بات کی تھی اور یہ چند منٹ کی فون کال تھی'۔

انہوں نے کہا کہ 'ڈاکٹر عارف علوی ریاست کے آئینی سربراہ ہیں اور ان کے ساتھ ملاقات کرنے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں ہے'۔

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) میں سب سے نمایاں کیس نومبر 2014 سے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو غیر ملکی فنڈز دینے کا زیر التوا ہے۔

اگر اس معاملے میں فیصلہ پی ٹی آئی کے خلاف ہوتا ہے تو ڈاکٹر عارف علوی کو چیئرمین عمران خان کے ساتھ پارٹی کے سابق سیکریٹری جنرل کی حیثیت سے جوابدہ ٹھہرایا جائے گا۔

پی ٹی آئی کے خلاف غیر ملکی فنڈنگ کیس میں درخواست گزار اکبر ایس بابر نے ڈان سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ سچ ہے تو صدر عارف علوی اور سی ای سی کے مابین مبینہ خفیہ ملاقاتوں کی خبر خطرناک اور پریشان کن ہے۔

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی نے مقدمے میں تاخیر کے لیے ہر ممکن کوشش کی ہے جو ایک دستاویزی حقیقت ہے جس کی وجہ یہ ہے کہ ای سی پی نے 10 اکتوبر 2019 کو اپنے حکم میں تحریک انصاف کو کیس میں تاخیر کے لیے قانون کے عمل کی تاریخی زیادتی کا مجرم قرار دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس میں احسن اقبال 2 جون کو الیکشن کمیشن طلب

انہوں نے کہا کہ 'اب وقت آگیا ہے کہ تحقیقات اپنے نتیجے پر پہنچیں اور ای سی پی قومی مفاد میں مزید تاخیر کے بغیر فیصلہ سنائے'۔

اس معاملے میں ای سی پی نے اب تک 70 سے زائد سماعتیں کی ہیں۔

30 سے زیادہ مواقع پر پی ٹی آئی نے مختلف طریقوں سے تحریری یا زبانی التوا کا مطالبہ کیا جس میں وکیل کی عدم دستیابی یا عدالتوں کے سامنے مقدمے کی سماعت شامل ہے۔

پی ٹی آئی کے اکاؤنٹس کی جانچ پڑتال کے لیے ای سی پی کے دائرہ اختیار پر اعتراض کرنے والی اس طرح کی چھ درخواستیں دائر کی گئیں۔

کم از کم 21 احکامات موجود ہیں جن میں پی ٹی آئی کو مناسب دستاویزات / ریکارڈ جمع کرنے اور پی ٹی آئی کی طرف سے ناکامی اور عدم تعمیل کو دستاویز کرنے کی ہدایت کرتے ہیں۔

جہاں اسکروٹنی کمیٹی جان بوجھ کر بغیر کسی مقصد کے کام جاری رکھے ہوئے ہے پی ٹی آئی کے دباؤ کے بارے میں سنجیدہ سوالات منظر عام پر آچکے ہیں کہ اسکروٹنی کمیٹی سے معتبر آڈیٹر کو ہٹا دیں اور اسے ناکارہ بنانے کے لیے ایک نرم مزاج آڈیٹر کو لایا جائے۔

نئے سی ای سی کا عہدہ سنبھالنے کے بعد سے ای سی پی میں اس کیس کی صرف دو سماعتیں ہوئیں۔

آخری سماعت 2 جون کو ہوئی تھی جس کے دوران ای سی پی کے ڈائریکٹر جنرل قانون اور اسکروٹنی کمیٹی کے سربراہ، جنہیں مارچ 2018 میں پی ٹی آئی کی غیر ملکی فنڈنگ کا آڈٹ کرنے کے لیے مقرر کیا گیا تھا، کو ایک ہفتہ کے اندر پیشرفت یا اسٹیٹس کی رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت کی گئی تھی اور 30 جون تک ایک عبوری نتائج کی رپورٹ پیش کرنے کا کہا گیا تھا۔

تاہم ای سی پی نے کورونا وائرس کی وجہ سے 30 جون کی اگلی شیڈول سماعت کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کردیا تھا۔

اسکروٹنی کمیٹی کا اگلا اجلاس 8 جولائی کو ہونا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں