کابینہ نے چینی اصلاحاتی کمیٹی تشکیل دینے کی منظوری دے دی

اپ ڈیٹ 08 جولائ 2020
اس کمیٹی کے قیام کی تجویز وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے کابینہ میں پیش کی تھی—فائل فوٹو: انسٹاگرام
اس کمیٹی کے قیام کی تجویز وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے کابینہ میں پیش کی تھی—فائل فوٹو: انسٹاگرام

اسلام آباد: وفاقی کابینہ نے انکوائری کمیشن کی تجاویز کی روشنی میں چینی کے صنعتی شعبے میں طویل المدتی اصلاحاتی حکمت عملی تشکیل دینے کے لیے اعلیٰ سطح کی چینی اصلاحات کمیٹی (شوگر ریفارم کمیٹی) کی منظوری دے دی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اس کمیٹی کے قیام کی تجویز وزیر صنعت و پیداوار حماد اظہر نے کابینہ میں پیش کی تھی۔

وزیر اعظم عمران خان کی سربراہی میں ہونے والے کابینہ اجلاس کی تفصیلات بتاتے ہوئے وزیر اطلاعات شبلی فراز نے کہا کہ کابینہ نے شوگر سیکٹر اور اس میں اصلاحات کے لیے تفصیلی تبادلہ خیال کیا۔

خیال رہے کہ شوگر انکوائری کمیشن کی فرانزیک آڈٹ رپورٹ میں نشاندہی کی گئی تھی کے اس شعبے میں بنیادی ریگولیشن کا فقدان ہے ساتھ ہی ریگولیٹری نظام میں بہتری کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: شوگر ملوں کو دی گئی سبسڈی کی بنیاد ہی غلط تھی، شہزاد اکبر

رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان، قومی احتساب بیورو (نیب) اور وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو اپنے قواعد نافذ کرنے چاہیے۔

ساتھ ہی یہ تجویز بھی دی گئی کہ اسسٹنٹ کمشنر اور ڈپٹی کمشنرز اس بات کو یقینی بنائیں کہ کاشت کاروں کو ان کے تمام واجبات ادا کیے جائیں اور ’لوٹی گئی رقم برآمد‘ کرنے کے لیے میکانزم اور بک کیپنگ کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے۔

دوسری جانب ذرائع کا کہنا تھا کہ وزیراعظم عمران خان نے کابینہ اجلاس میں کہا کہ شوگر اسکینڈل میں ملوث کسی فرد کو چھوڑا نہیں جائے گا اور مکمل احتساب کو یقینی بنایا جائے گا۔

واضح رہے کہ جہانگیر ترین کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے کچھ رہنما چینی اسکینڈل میں ملوث تھے۔

مزید پڑھیں: شوگر کمیشن رپورٹ پر سندھ ہائی کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

حکومت نے اپریل کے پہلے ہفتے میں شوگر کمیشن تشکیل دیا تھا جس کے بعد ایف آئی اے کی جانب سے ملک میں آٹے اور چینی کے بحران اور اچانک قیمتوں میں اضافے پر 2 علیحدہ انکوائری رپورٹس پیش کی گئی تھیں۔

رپورٹس کے اجرا کے بعد اپوزیشن نے وزیراعظم سے بحران کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا تھا۔

چینی بحران کی تحقیقات اور کارروائی کا معاملہ

یاد رہے کہ ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے 4 اپریل کو اپنی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔

دستاویز کے مطابق سال 17-2016 اور 18-2017 میں چینی کی پیداوار مقامی کھپت سے زیادہ تھی اس لیے اسے برآمد کیا گیا۔

واضح رہے کہ پاکستان میں چینی کی سالانہ کھپت 52 لاکھ میٹرک ٹن ہے جبکہ سال 17-2016 میں ملک میں چینی کی پیداوار 70 لاکھ 80 ہزار میٹرک ٹن ریکارڈ کی گئی اور سال 18-2017 میں یہ پیداوار 66 لاکھ 30 ہزار میٹرک ٹن تھی۔

یہ بھی پڑھیں: شوگر کمیشن کیس:اٹارنی جنرل کی ملز مالکان کیخلاف منصفانہ، غیر جانبدار کارروائی کی یقین دہانی

تاہم انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ برآمد کنندگان کو 2 طرح سے فائدہ ہوا، پہلا انہوں نے سبسڈی حاصل کی دوسرا یہ کہ انہوں نے مقامی مارکیٹ میں چینی مہنگی ہونے سے فائدہ اٹھایا جو دسمبر 2018 میں 55 روپے فی کلو سے جون 2019 میں 71.44 روپے فی کلو تک پہنچ گئی تھی۔

بعدازاں حکومت چینی بحران پر وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ 21 مئی کو سامنے لائی تھی جس کے مطابق چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، دو کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔

مزید پڑھیں: چینی بحران رپورٹ: 'جہانگیر ترین، مونس الہٰی،شہباز شریف فیملی کی ملز نے ہیر پھیر کی'

اس حوالے سے معاون خصوصی برائے احتساب شہزاد اکبر نے بتایا تھا کہ کمیشن کی رپورٹ کے مطابق اکاؤنٹنگ کی مد میں فراڈ ہوا ہے اور گنے کی خریداری میں انڈر رپورٹنگ کی جارہی ہے، پاکستان میں جتنا گنا پیدا ہوتا ہے اور جتنی چینی پیدا ہوتی ہے اور جتنی فروخت ہوتی ہے اس میں 25 سے 30 فیصد کا فرق آرہا ہے۔

شہزاد اکبر نے کہا تھا انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں، ایک کھاتہ سرکاری اداروں جیسا کہ ایس ای سی پی، ایف بی آر کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے جس میں اصل منافع موجود ہوتا ہے۔

معاون خصوصی نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق اس وقت ملک میں شوگر ملز ایک کارٹیل کے طور پر کام کررہی ہیں اور کارٹیلائزیشن کو روکنے والا ریگولیٹر ادارہ مسابقتی کمیشن پاکستان اس کو روک نہیں پارہا، 2009 میں مسابقتی کمیشن نے کارٹیلائزیشن سے متعلق رپورٹ کیا تھا جس کے خلاف تمام ملز مالکان میدان میں آگئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن نے چینی کمیشن کی رپورٹ کو ’گمراہ کن‘ قرار دے دیا

شہزاد اکبر نےمزید کہا تھا کہ سب سے بڑا گروپ جے ڈی ڈبلیو ہے جن کا چینی کی پیداوار میں 20 فیصد کے قریب حصہ، آر وائے کے کا 12فیصد، المعیذ گروپ کا 6.8 فیصد، تاندیا والا کا 5 فیصد، شریف گروپ کا 4.5 فیصد اور اومنی گروپ کا 1.6 فیصد حصہ ہے۔

معاون خصوصی نے بتایا تھا کہ جے ڈی ڈبلیو شوگر مل میں پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی ) کے رہنما جہانگیر ترین کے 21 فیصد حصص ہیں، علی خان ترین کے 13 فیصد، احمد محمود صاحب کے 26 فیصد شیئرز ہیں اور یہ واحد کمپنی ہے جس میں 24 فیصد شیئر عوام کا ہے، انہوں نے کہا کہ جے ڈی ڈبلیو نے 2 کھاتے رکھے تھے، اوور انوائسنگ اور انڈر رپورٹنگ بھی پائی گئی۔

چنانچہ 7 جون کو وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں