وکلا تنظیموں کا ایف بی آر کے سربراہ کی تبدیلی پر شکوک و شبہات کا اظہار

اپ ڈیٹ 08 جولائ 2020
وکلا تنظیموں کے سربراہان نے ایف بی آر کے سربراہ کی تبدیلی پر حیرت اور خدشات کا اظہار کیا—فائل فوٹو: ڈان
وکلا تنظیموں کے سربراہان نے ایف بی آر کے سربراہ کی تبدیلی پر حیرت اور خدشات کا اظہار کیا—فائل فوٹو: ڈان

اسلام آباد: وکلا تنظیموں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے سربراہ کی تبدیلی اور اس اہم موڑ پر نئے چیئرمین کی ایڈہاک تعیناتی پر شکوک و شبہات کا اظہار کردیا۔

پاکستان بار کونسل (پی بی سی) اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ایف بی آر کی چیئرپرسن کوعہدے سے ہٹانے کا فیصلہ واپس لے یا متبادل کے طور پر ایک سینئر آزادانہ افسر کو تعینات کیا جائے جو گریڈ 22 سے کم نہ ہو تا کہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ اور بچوں کی بیرونِ ملک جائیدادوں کی غیر جاندارانہ تحقیقات کو یقینی بنایا جائے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بار رہنماؤں نے خبردار کیا کہ بصورت دیگر وکلا برادری تحقیقات کو قبول نہیں کرے گی اور اس سلسلے میں کسی بھی رپورٹ کی مخالفت کی جائے گی۔

یہ بھی پڑھیں: نوشین جاوید کی جگہ محمد جاوید غنی نئے چیئرمین ایف بی آر تعینات

خیال رہے کہ 4 جولائی کو حکومت نے نوشین جاوید کو ایف بی آر کی چیئر پرسن کے عہدے سے ہٹا کر وفاقی سیکریٹری برائے قومی ورثہ اور ثقافت بنادیا گیا تھا اور ان کی جگہ محمد جاوید غنی کو 3 ماہ کے لیے چیئرمین ایف بی آر مقرر کیا تھا۔

جولائی 2018 کے آخر میں جب سے پی ٹی آئی نے اقتدار حاصل کیا ہے اس وقت سے اب تک ایف بی آر کے چوتھے سربراہ کو تعینات کیا جاچکا ہے جبکہ نوشین جاوید صرف 3 ماہ کے عرصے تک اس عہدے پر براجمان رہیں۔

پی بی سی کے چیئرمین عابد ساقی اور ایس سی بی اے کے صدر سید قلبِ حسن نے نوشین جاوید امجد کی عجلت میں برطرفی اور صرف 3 ماہ کے لیے محمود جاوید غنی کی ایڈ ہاک تعیناتی پر سخت تشویش کا اظہار کیا۔

مزید پڑھیں: جسٹس فائز عیسیٰ کےخلاف ریفرنس کا فیصلہ: تلوار ابھی بھی لٹک رہی ہے، وکلا کا ردعمل

اپنے بیان میں وکلا تنظیموں کے سربراہان نے ایسے اہم موقع پر جب سپریم کورٹ نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کے ہائی پروفائل کیس کو تحقیقات کے لیے ایف بی آر بھجوایا تھا اس کے سربراہ کی تبدیلی پر حیرت اور خدشات کا اظہار کیا۔

ایف بی آر چیئرپرسن کو ہٹانے کے حکومتی ناجائز اقدام پر سخت شکوک و شبہات کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ (اقدام) بادی النظر میں ہیرا پھیری اور بالواسطہ طور پر تحقیقات کو متاثر کرنے کے مترادف ہے‘۔

بیان میں مزید کہا گیا کہ نوشین امجد کی جگہ ایک مستقل سربراہ کو تعینات نہیں کیا گیا جو اس خدشے میں اضافہ کرتا ہے کہ حکومت جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اہلیہ کی جائیدادوں سے متعلق معاملے پر ایف بی آر کو آزادانہ کارروائی کرنے کی اجازت اور غیر جانبداری برقرار رکھنے اجازت نہیں دینا چاہتی جو توہین عدالت کے مترادف ہے۔

جسٹس عیسیٰ کیس

گزشتہ برس مئی 2019 میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر کیے گئے ریفرنس میں الزام لگایا گیا تھا کہ انہوں نے 2011 سے 2015 کے دوران لندن میں لیز پر اپنی اہلیہ اور بچوں کے نام پر جائیدادیں حاصل کیں تھیں لیکن انہیں ٹیکس گوشواروں میں ظاہر نہیں کیا تھا، بعدازاں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے الزامات کا مقابلہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ براہ راست یا بالواسطہ فلیٹس کے بینیفشل اونر نہیں ہیں۔

اس درخواست کے ذریعے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے سپریم کورٹ میں استدعا کی تھی کہ کچھ طاقتیں انہیں کسی نہ کسی طریقے سے آئینی عہدے سے ہٹانا چاہتی ہیں جبکہ صدر مملکت عارف علوی نے ان کے خلاف ریفرنس دائر کرنے سے قبل اپنی آزادانہ رائے قائم نہیں کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کالعدم قرار دے دیا

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا تھا کہ وزیراعظم، وزیر قانون اور اٹارنی جنرل نے انکم ٹیکس آرڈیننس، 2001 کے سیکشن 116 (بی) کو توڑ مروڑ کر پیش کیا تھا اور غلطی سے اسے ان کی اہلیہ اور بچوں پر لاگو کردیا تھا جبکہ اس قانون کا اطلاق صرف منحصر اہلیہ اور ان بچوں پر اطلاق ہوتا ہے جو چھوٹے ہوں اور والد پر انحصار کرتے ہوں۔

درخواست میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سرکاری ایجنسیوں بشمول ایف آئی اے نے خفیہ طور پر درخواست گزار اور ان کے خاندان کے خلاف آئین کے آرٹیکل 4 اور 14 کی واضح خلاف ورزی کرتے ہوئے معلومات حاصل کیں اور انہیں تحقیقات سے متعلق اعتماد میں نہیں لیا گیا نہ ہی انہیں جواب دینے کا کوئی موقع فراہم کیا گیا۔

جسٹس قاضیٰ عیسیٰ نے عدالت سے درِخواست کی تھی کہ حکومت کی جانب سے ان کے خاندان کی جائیدادوں کی تحقیقات کے لیے تشکیل کردہ اثاثہ جات ریکوری یونٹ کو غیرقانونی قرار دیا جائے، ساتھ ہی انہوں نے کہا تھا کہ میرے اور ان کے اہل خانہ کے خلاف تحقیقات غیر قانونی ہیں۔

چنانچہ 19 جون کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے سینئر جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس کو کالعدم قرار دیتے ہوئے ان کی درخواست کو منظور کرلیا تھا۔

مزید پڑھیں: سپریم کورٹ بار کا جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے ساتھ اظہار یکجہتی کا اعادہ

یہ معاملہ گزشتہ سال مئی سے رواں سال جون تک تقریباً 13 ماہ تک چلا، جہاں سپریم کورٹ میں اس کیس کی 40 سے زیادہ سماعتیں ہوئیں، اس دوران ایک اٹارنی جنرل نے ججز سے متعلق بیان پر نہ صرف استعفیٰ دیا بلکہ فروغ نسیم بھی کیس میں حکومت کی نمائندگی کرنے کے لیے وزیرقانون کے عہدے سے مستعفی ہوئے، یہی نہیں بلکہ یہ کیس تاریخی لحاظ سے اس لیے بھی اہم رہا کیونکہ اس میں تاریخ میں پہلی مرتبہ سپریم کورٹ کے حاضر سروس جج جسٹس عیسیٰ عدالت میں خود پیش ہوئے۔

سپریم کورٹ کے 10 رکنی فل کورٹ کے سربراہ جسٹس عمر عطا بندیال نے ابتدائی طور پر مختصر فیصلہ سنایا، بعد ازاں مختصر تحریری فیصلہ جاری کیا گیا جس میں تین ججز نے اکثریت فیصلے سے اختلاف میں اضافی نوٹ لکھا۔

خیال رہے کہ فیصلے کے پیرا نمبر 9 میں 7 ججز کے اکثریتی فیصلے میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کے چیئرمین کو سپریم جوڈیشل کونسل (ایس جے سی) کے سیکریٹری کے پاس رپورٹ جمع کروانے کی ہدایت کی گئی جو سپریم کورٹ کے رجسٹرار ہیں۔

یہ رپورٹ اِن لینڈ ریونیو کے کمشنر کی جانب سے جسٹس قاضی فائز کی اہلیہ اور ان کے بچوں سے برطانیہ کی تینوں جائیدادوں کے لیے رقوم کی تفصیلات اور نوعیت کی وضاحت طلب کیے جانے کے بعد کارروائی کی تفصیلات پر مشتمل ہوگی۔

جس کے بعد سیکریٹری رپورٹ کو سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین کے سامنے پیش کریں گے جو اسے جج سے متعلق کسی قسم کی کارروائی، حکم، ایکشن کے لیے کونسل کو بھجوائیں گے کیوں کہ کونسل اس کا تعین کرسکتی ہے

یہ بھی پڑھیں: جسٹس عیسیٰ کیس: ریفرنس میں بدنیتی ثابت ہوئی تو کیس خارج ہو سکتا ہے، سپریم کورٹ

جس کے بعد سیکریٹری رپورٹ کو سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین کے سامنے رکھیں گے جو مناسب انداز میں اگر درخواست گزار سے متعلق کونسل کچھ تعین کرے تو رپورٹ کو جائرے، کارروائی، حکم یا سماعت کے لیے کونسل کے سامنے پیش کریں گے،

فیصلے میں وضاحت کی گئی کہ رپورٹ کی رسید اسے کونسل کے سامنے پیش کیا جانا اور اگر کونسل کی جانب سے کوئی کارروائی، حکم یا ہدایت دی جاتی ہے تو وہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت ازخود نوٹس کا دائرہ کار استعمال کرے گی۔

عدالتی حکم میں کہا گیا کہ اگر عدالتی حکم کے 100 روز کے اندر سیکریٹری کو چیئرمین ایف بی آر کی جانب سے کوئی رپورٹ نہیں ملی تو وہ اس کے مطابق کونسل کے چیئرمین کو آگاہ کریں گے اور اس وضاحت کی بھی ضرورت پڑ سکتی ہے کہ رپورٹ کیوں نہیں بھجوائی گئی۔

اگر کوئی جواب موصول نہیں ہوتا تو سیکریٹری معاملہ کونسل کے چیئرمین کے علم میں لائیں گے جو غور و فکر، حکم یا کارروائی کے لیے معاملہ کونسل کے سامنے پیش کرنے کی ہدایت کر سکتے ہیں۔

فیصلے میں واضح کیا گیا کہ اگر کونسل کوئی کارروائی کرتی ہے، حکم یا ہدایت دیتی ہے تو وہ آئین کے آرٹیکل 209 کے تحت حاصل سوموٹو (ازخود) اختیارات کے مطابق ہوگا۔

تبصرے (0) بند ہیں