معاشی بحران سے لبنانی کرنسی گراوٹ کا شکار، ڈالر کیلئے لمبی قطاریں

اپ ڈیٹ 09 جولائ 2020
لبنان میں اقتصادی بحران کے دوران خودکشی کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں —فوٹو: اے پی
لبنان میں اقتصادی بحران کے دوران خودکشی کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں —فوٹو: اے پی

لبنانی پاؤنڈ کی قدر میں غیرمعمولی کمی کے بعد شہریوں نے امریکی ڈالر کے حصول کے لیے ایکسچینج بیورو کے باہر لمبی لمبی قطاریں لگالیں۔

خبر رساں ادارے 'اے پی' کے مطابق لبنانی پاؤنڈ کی قدر میں کمی کے بعد لبنان میں ڈالر گراں قدر ہوگیا۔

مزید پڑھیں: لبنان میں احتجاج، فوج کی فائرنگ سے ایک شہری جاں بحق

25 سالہ طالب علم کرس جورجین نے کہا کہ 'وہ ہمیں دیوار میں دے ماریں گے'۔

کرس جورجین نے کہا کہ ارمینیا میں اپنی یونیورسٹی کی فیس کے لیے ایک ایکسچینج بیورو سے 600 ڈالر خریدنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

گزشتہ ہفتے ایک 61 سالہ شخص نے اپنی معاشی صورتحال سے دلبرداشتہ ہو کر بیروت میں گولی مار کر خودکشی کرلی تھی۔

واضح رہے کہ لبنان میں اقتصادی بحران کے دوران خودکشی کے متعدد واقعات پیش آچکے ہیں۔

غیر مستحکم کرنسی کی وجہ سے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اچانک اضافہ ہوگیا، بعض اشیا کی قیمتوں میں تین گنا اضافہ یا اس سے زیادہ ہوگیا ہے اور لوگوں کی بڑی تعداد اس خوف سے چیزیں خریدنے پر مجبور ہوگئی ہے کہ آئندہ چند ہفتوں میں کچھ نہیں ملے گا۔

یہ بھی پڑھیں: لبنان میں حکومت مخالف احتجاجی مظاہرے شدت اختیار کر گئے

15 سالہ خانہ جنگی، اسرائیل کے حملے اور جنوب اور بیروت پر قبضے کے دوران لبنانیوں نے پانی یا روٹی کے لیے قطاریں لگائیں تھیں لیکن اب وہ ڈالرز کے حصول کے پریشانی کے عالم میں ادھر ادھر بھاگ رہے ہیں۔

لبنان میں کرنسی کا بحران قابو سے باہر ہوچکا ہے اور بلیک مارکیٹ میں 9 ہزار لبنانی پاؤنڈ ایک ڈالر کے برابر ہے، اس کا مطلب ہے کہ مقامی کرنسی جو سرکاری طور پر 1997 میں 15 سو امریکی ڈالر کے برابر تھی، ایک سال سے بھی کم عرصے میں اپنی 80 فیصد سے زیادہ قدر کھو چکی ہے۔

لبنانی پاؤنڈ میں یہ استحکام بنیادی طور پر ایک پونزی اسکیم تھی جو بینکوں اور اشرافیہ کے لیے نفع بخش بنی جبکہ لبنانیوں کو بنیادی اشیا سے ہی دور کردیا۔

اس دوران ایک کے بعد دوسری حکومتیں نجی بینکوں سے بڑے پیمانے پر قرض لے کر عوامی قرضوں اور ایندھن جیسی اہم درآمدات کے لیے ادائیگی کرتی رہیں۔

یہ بھی پڑھیں: اسرائیلی لڑاکا طیاروں کا لبنان میں فلسطینی بیس پر حملہ

حالیہ برسوں میں جب ترسیلات زر اور براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری ڈوبی تو لبنانی پاؤنڈ کی قدر بھی گر گئی۔

واضح رہے کہ گزشتہ برس نومبر میں لبنان کے دارالحکومت بیروت میں ملک میں مہنگائی اور بے روزگاری کے خلاف جاری احتجاج کے دوران مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے فوج نے فائرنگ کردی تھی جس سے ایک شہری جاں بحق اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔

اکتوبر 2019 میں ہی لبنان میں ایک ماہ سے جاری حکومت مخالف مظاہروں کے نتیجے میں اس وقت کے وزیراعظم سعد حریری نے بھی استعفیٰ دے دیا تھا، تاہم مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ کرپٹ سیاست دانوں کو برطرف کردیا جائے۔

قبل ازیں اقوام متحدہ کے خصوصی نمائندے جان کوبیز نے وزیراعظم کے استعفے کے بعد لبنانی حکومت پر زور دیا تھا کہ نئی حکومت تشکیل دی جائے تاکہ وہ عالمی برادری سے تعاون کی درخواست کرسکے۔

ان کا کہنا تھا کہ ‘لبنان کی مالی اور معاشی صورت حال دگرگوں ہے، حکومت اور دیگر ادارے اس کی بہتری کے لیے مزید وقت ضائع نہیں کرسکتے’۔

مزید پڑھیں: طویل سیاسی تنازع کے بعد لبنان میں حکومت کی تشکیل

ورلڈ بینک نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا تھا کہ ہر تیسرا لبنانی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہا ہے اور خبردار کیا تھا کہ اگر نئی کابینہ فوری طور پر تشکیل نہ دی گئی تو بگڑی ہوئی معاشی صورت حال مزید خراب ہوسکتی ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں