'ہائی کورٹس، عدالت عظمیٰ کے انسانی حقوق سیل کی کارروائی کے تابع نہیں'

اپ ڈیٹ 10 جولائ 2020
پاکستانی نژاد برطانوی خاتون اور ایک ریئل اسٹیٹ ادارے کے مالک کے درمیان اراضی کے تنازع سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے یہ ریمارکس دیے۔ فائل فوٹو:اے پی پی
پاکستانی نژاد برطانوی خاتون اور ایک ریئل اسٹیٹ ادارے کے مالک کے درمیان اراضی کے تنازع سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے یہ ریمارکس دیے۔ فائل فوٹو:اے پی پی

اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے عدالت عظمیٰ کے ہیومن رائٹس سیل (ایچ آر سی) کی کارروائی سمیت خط و کتابت سے متعلق ہائی کورٹ تابع نہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی نژاد برطانوی خاتون اور ایک ریئل اسٹیٹ ادارے کے مالک کے درمیان اراضی کے تنازع سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے نشاندہی کی کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے پہلے ہی ہیومن رائٹس کمیشن کی کارروائی سے متعلق ایک حکم جاری کیا تھا۔

عدالت نے گزشتہ ماہ سماعت کے دوران یہ معاملہ وزارت اوورسیز پاکستانی اور اوورسیز پاکستانیز فاؤنڈیشن (او پی ایف) کو بھیج دیا تھا۔

مزید پڑھیں: ایچ آر سی پی نے اپنی رپورٹ میں انسانی حقوق کے تحفظ کے کئی اقدامات کو نظر انداز کیا، حکومت

جمعرات کو او پی ایف کے قانونی مشیر نے عدالت کو بتایا کہ انہوں نے شکایت کنندہ خاتون سے 25 جون کو رابطہ کیا تھا اور یکم جولائی کو برطانیہ میں کمیونٹی ویلفیئر سے وابستہ شخص نے بھی ان سے رابطہ کیا اور ان کا نقطہ نظر سنا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ہم نے دستاویزات کو بھی استعمال کیا ہے اور شکایت کنندہ کی جانب سے خود ہمیں فراہم کی گئی آرڈر شیٹ کے مطابق اس کیس کا فیصلہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے کیا ہے'۔

جب جسٹس اطہر من اللہ نے ان سے سپریم کورٹ کا حکم پیش کرنے کو کہا تو او پی ایف کے وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ یہ ایچ آر سی کا خط ہے۔

گزشتہ سال سپریم کورٹ کے ایچ آر سی کی ہدایت پر ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل بشارت احمد شہزاد، ڈپٹی ڈائریکٹر کامران علی اور انسپکٹر عرفان عظیم برنی پر مشتمل ایف آئی اے کی ایک تفتیشی ٹیم نے خاتون کی جانب سے دائر شکایت کی تحقیقات کی تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: ہیومن رائٹس واچ کا سعودی عرب میں فلسطینی، اردنی شہریوں کے ’ٹرائل‘ پر اظہار تشویش

اپنی شکایت میں انہوں نے دعوٰی کیا تھا کہ ریئل اسٹیٹ ادارے کے موجودہ مالک ان کے ملازم تھے لیکن مبینہ دھوکہ دہی کے ساتھ ملزم نے ان کی جائیداد اپنے نام منتقل کرلی اور جب انہوں نے زمین واپس لینے کی کوشش کی تو ملزم نے انہیں دھمکیاں دی تھیں۔

ایف آئی اے کی رپورٹ کے مطابق اداروں کے رجسٹرار اسلام آباد کیپیٹل ٹیریٹری نے اصل دستاویزات کے بجائے فوٹو کاپیوں پر جائیدادیں منتقل کیں اور یہ بھی غیر شفاف طریقے سے کیا گیا۔

تاہم سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اپنی ملازمت کے آخری روز ایچ آر سی کو حکم دیا کہ وہ کیس ریکارڈ میں درج کریں۔

جسٹس اطہر من اللہ نے نوٹ کیا کہ یہ سپریم کورٹ کا حکم نہیں بلکہ انسانی حقوق کے سیل کا خط تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ 'ایچ آر سی کا خط سپریم کورٹ کا حکم نہیں ہے، ہم مسلسل یہ بات کہہ رہے ہیں کہ اعلی عدالتیں، ایچ آر سی کی کارروائی کی پابند نہیں، آپ کو ایچ آر سی کے بارے میں ہائی کورٹ کا فیصلہ پڑھنا چاہیے جسے سپریم کورٹ نے بھی برقرار رکھا ہے'۔

دوسری جانب رئیل اسٹیٹ ادارے کے وکیل ایڈووکیٹ احسن بھون نے عدالت کو آگاہ کیا کہ شکایت کنندہ نے راولپنڈی کی سول عدالت میں متنازع اراضی پر راولپنڈی کی سول عدالت میں مقدمہ دائر کیا ہے لہذا یہ معاملہ ہائی کورٹ کے دائرہ اختیار میں نہیں آتا ہے۔

جب جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ راولپنڈی عدالت میں زیر التوا مقدمے سے متعلق کوئی دستاویز موجود ہے تو احسن بھون نے جواب دیا کہ وہ سماعت کی اگلی تاریخ کو عدالت میں پیش کرسکتے ہیں۔

اس کے بعد عدالت نے ان سے اپنے تحریری جواب کے ساتھ اسے جمع کرانے کی ہدایت دی اور عدالت نے سماعت کو 3 ہفتوں کے لیے ملتوی کردیا۔

او پی ایف اور وزارت اوورسیز پاکستانی کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اس معاملے کی تحقیقات جاری رکھیں اور آئندہ سماعت پر رپورٹ پیش کریں۔

تبصرے (0) بند ہیں