لیاری آپریشن کے بعد پیپلز پارٹی نے عذیر بلوچ کو 5 کروڑ روپے نقد دیے، حبیب جان بلوچ

اپ ڈیٹ 11 جولائ 2020
دائیں عذیر جان بلوچ، بائیں حبیب جان بلوچ—تصویر: اسکرین گریب
دائیں عذیر جان بلوچ، بائیں حبیب جان بلوچ—تصویر: اسکرین گریب

وفاقی وزیر بحری امور علی زیدی نے عذیر بلوچ اور پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے روابط پر ’جے آئی ٹی‘ منظر عام پر لانے کے بعد اب ان کے ماضی کے قریبی ساتھی حبیب جان بلوچ کی ایک ویڈیو جاری کردی جس میں انہوں نے اہم انکشافات کیے۔

علی زیدی کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری کردہ اس ویڈیو میں بظاہر ایک انٹرویو دیتے ہوئے حبیب جان بلوچ کا کہنا تھا کہ ’2012 کے آپریشن کے خاتمے کے بعد پیپلز پارٹی نے عذیر بلوچ سے ایک مرتبہ پھر رابطہ کیا اور 5 کروڑ روپے نقد دیے‘۔

انہوں نے بتایا کہ ’پیسے ملنے کے بعد عذیر بلوچ دوبارہ پیپلز پارٹی میں شامل ہوگئے اور پیپلز پارٹی کے رہنما قائم علی شاہ، شرمیلا فاروقی اور فریال تالپور عذیر بلوچ سے ملاقات کے لیے ان کے پاس گئے‘۔

یہ بھی پڑھیں: عذیر بلوچ سے پی ٹی آئی سمیت ہر سیاسی جماعت کا رابطہ تھا، سعید غنی

ویڈیو جس میں کئی مناظر کو ٹیزر کی شکل میں جوڑا گیا تھا اس کے ایک حصے میں حبیب جان بلوچ نے کہا کہ ’میرے دفتر پر حملہ ہوا جس میں میرا بھائی شہید ہوا اور اس وقت کے وزیرداخلہ رحمٰن ملک اور شہید پولیس افسر چوہدری اسلم ان تمام کارروائیوں کا ذمہ دار مجھے قرار دیتے تھے‘۔

کیا پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت عذیر بلوچ کے کہنے پر پولیس افسران کے تبادلے کرتی تھی؟ کے جواب میں حبیب جان بلوچ نے کہا کہ ’ایک گروپ پورے کراچی میں انسپکٹر جنرل (آئی جی) تک کی سطح کے افسران کے تبادلے کیا کرتا تھا اور وزارت داخلہ رحمٰن ملک کی صورت میں ان کے دروازے پر کھڑی رہا کرتی تھی‘۔

عذیر بلوچ کی پیپلز پارٹی کی سینئر قیادت مثلاً آصف علی زرداری کے ساتھ ملاقات کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں حبیب جان نے کہا کہ ’زرداری صاحب کی ملاقات ہوئی تھی اور وہ بہت اہم تھی، انہوں نے اس بات کی تائید کی کہ عذیر بلوچ کا ان (حبیب جان بلوچ) کے پاس فون آیا جس میں عذیر بلوچ نے بتایا کہ آصف زرداری نے میسیج کر کے عبدالقادر پٹیل کے ہمراہ مجھ سے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا‘۔

مزید پڑھیں: عزیر بلوچ، نثار مورائی، سانحہ بلدیہ کی جے آئی ٹی رپورٹس منظر عام پر لانے کا حکم

حبیب جان بلوچ کے مطابق ’آصف علی زداری کی خواہش تھی کہ ان کے منہ بولے بھائی اویس مظفر ٹپی لیاری سے انتخابات میں حصہ لیں اور ٹپی صاحب کے بیچ میں آجانے سے جھگڑے کی بنیاد پڑی ورنہ ہمارے یارانے بہت تھے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’اویس مظفر ٹپی ایک روز چوہدری اسلم اور فیصل رضا عابدی کے ہمراہ 50 گاڑیوں کے اسکواڈ میں لیاری پہنچے جس پر میرے پاس ڈپٹی کمشنر کا فون آیا کہ سر یہ آپ نے کیا کیا جس کے جواب میں میں نے کہا کہ کراچی کے بلوچ متحد ہورہے ہیں‘۔

ایک اور سوال کے جواب میں حبیب جان بلوچ نے بتایا کہ جب حکومت خطرے میں آگئی اس وقت عذیر بلوچ اور پیپلز پارٹی کے تعلقات خراب ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: وفاقی وزیر کا سپریم کورٹ سے عذیر بلوچ و دیگر جے آئی ٹیز پر ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ

خیال رہے کہ اس ویڈیو کو جاری کرنے سے چند گھنٹوں قبل علی زیدی نے ایک ٹوئٹ میں اعلان کیا تھا کہ وہ صبح ایک دھماکا خیز ویڈیو ٹوئٹ کریں گے ’جس میں آصف زرداری اور ان کے مجرم گروہ بے نقاب ہوں گے‘۔

خیال رہے کہ رواں برس 28 جنوری کو سندھ ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما علی زیدی کی سانحہ بلدیہ فیکٹری، لیاری کے گینگسٹر عذیر جان بلوچ اور فشرمین کوآپریٹو سوسائٹی (ایف سی ایس) کے سابق چیئرمین نثار مورائی کے حوالے سے مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی 3 رپورٹس کو منظر عام پر لانے کی درخواست منظور کی تھی۔

تاہم اس معاملے پر کئی ماہ کی خاموشی کے بعد 30 جون کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران وزیر بحری امور علی زیدی ایوان میں عذیر بلوچ کے حوالے سے جے آئی ٹی کی رپورٹ لے کر آئے تھے اور انہوں نے ایک ایک فرد کا نام لے کر بتایا تھا کہ اس میں کون کون ملوث تھا۔

جس پر 4 جولائی کو حکومت سندھ نے عذیر بلوچ، نثار مورائی اور بلدیہ ٹاؤن کیسز کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹس کو پبلک کرنے کا اعلان کیا تھا۔

چنانچہ 7 جولائی کو حکومت سندھ نے سال 2012 میں پیش آنے والے بلدیہ ٹاؤن فیکٹری کے آتشزدگی کے واقعے، لیاری گینگ وار اور لیاری امن کمیٹی کے سربراہ عذیر بلوچ اور فشرمین کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی سابق چیئرمین نثار مورائی کے حوالے سے الگ الگ مشترکہ تحقیقاتی ٹیم (جے آئی ٹی) کی رپورٹس جاری کی تھی۔

تاہم 8 جولائی کو علی زیدی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئےسندھ حکومت کی جے آئی ٹی کو غلط قرار دیا تھا اور سپریم کورٹ آف پاکستان سے عذیر بلوچ، بلدیہ فیکٹری اور نثار مورائی کی جے آئی ٹیز پر ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔

مذکورہ صورتحال پر علی زیدی بمقابلہ پیپلز پارٹی کی جیسی صورتحال دیکھنے میں آئی اور دونوں جانب سے ایک دوسرے پر الزام تراشیوں کا سلسلہ جاری ہے۔

گزشتہ روز ایک پریس کانفرنس میں رہنما پی پی پی اور صوبائی وزیر سعید غنی نے دعویٰ کیا تھا کہ علی زیدی، عمران اسمٰعیل اور صدر پاکستان عارف علوی نے پی ٹی آئی کراچی کے مقامی عہدیداران کی کمیٹی تشکیل دی جس کو امن کمیٹی کو پی ٹی آئی میں شامل کرنے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔

صوبائی وزیر نے کہا تھا کہ صرف ایک آدمی اسد عمر نے اس کام سے انکار کیا اور وہ کسی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے جبکہ کراچی کے ایک موجودہ پی ٹی آئی ایم این اے کے گھر میں دعوتیں بھی ہوتی رہیں جس میں ان تینوں کے علاوہ امن کمیٹی کے افراد بھی شریک ہوتے تھے۔

صوبائی وزیر نے کہا تھا کہ کراچی میں پی ٹی آئی نے سی ویو پر دھرنا دیا جس میں امن کمیٹی کے رہنما شریک ہوتے تھے اور اسٹیج پر بیٹھتے رہے، حبیب جان نے دھرنے سے ٹیلیفونک خطاب بھی کیا اور یہ کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ معلوم ہی نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں