کورونا وائرس کے مریض ایک سے زیادہ بار اس کا شکار ہوسکتے ہیں، تحقیق

14 جولائ 2020
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی — شٹر اسٹاک فوٹو

کورونا وائرس کو شکست دینے والے بیشتر مریضوں کی اس بیماری کے خلاف قوت مدافعت یا امیونٹی چند ماہ کے دوران غائب ہوسکتی ہے۔

یہ بات برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔

کنگز کالج لندن کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ علامات ظاہر ہونے کے 3 ہفتے بعد اس بیماری سے تحفظ دینے والی اینٹی باڈیز کی سطح عروج پر ہوتی ہے جس کے بعد وہ بتدریج غائب ہونے لگتی ہے۔

تحقیق کے دوران کئی مریضوں میں چند ماہ بعد اینٹی باڈیز کو نہیں دیکھا گیا، جس سے طویل المعیاد بنیادوں پر ویکسین سے ملنے والے تحفظ پر شبہات پیدا ہوتے ہیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ تحقیق کے نتائج ہرڈ امیونٹی یا اجتماعی مدافعت کے خطرناک تصور کے تابوت پر ایک اور کیل ٹھونکنے کے مترادف ہیں۔

اس تحقیق میں 90 مریضوں کے ساتھ ساتھ کچھ اداروں کے طبی عملے کے افراد کے اندر اینٹی باڈیز ردعمل کو دیکھا گیا اور دریافت ہوا کہ 60 فیصد میں کووڈ 19 کے خلاف جدوجہد کے دوران اینٹی باڈیز ٹیسٹ مثبت رہے، مگر 3 ماہ بعد صرف 17 فیصد میں اینٹی باڈیز کی وہ سطح برقرار رہ سکی۔

دیگر مریضوں میں 3 ماہ کے دوران بیماری سے تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں 23 گنا کمی آئی جبکہ کچھ کیسز میں تو اس عرصے میں وہ مکمل طور پر غائب ہوگئیں۔

اس تحقیق کے نتائج ابھی کسی طبی جریدے میں شائع نہیں ہوئے تاہم اس میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19 سے بہت زیادہ بیمار ہونے والے افراد میں اینٹی باڈیز کی سطح زیادہ مستحکم اور دیر تک برقرار رہتی ہے۔

مگر نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ عام نزلہ زکام کی طرح نیا کورونا وائرس بھی ایک سے زیادہ بار لوگوں کو متاثر کرسکتا ہے، چاہے پہلی بار بیمار ہونے کے بعد ان کے اندر اینٹی باڈیز ہی کیوں نہ بن گئی ہوں۔

واضح رہے کہ ہرڈ امیونٹی یا اجتماعی مدافعت کا مطلب یہ ہے کہ کسی ملک کی آبادی کے بڑے حصے میں وائرس کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کے لیے انہیں اس سے متاثر ہونا دیا جائے، جس سے صحتیاب ہونے کے بعد ان کے اندر اس بیماری کے خلاف مدافعتی اینٹی باڈیز بن جائیں گی۔

اب برطانوی تحقیق میں بھی اس کے حصول کو ناممکن قرار دیا گیا ہے۔

اس سے قبل گزشتہ دنوں اسپین کے ماہرین کی طبی جریدے دی لانسیٹ میں شائع تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ملک بھر میں صرف 5 فیصد آبادی میں ہی وائرس کی روک تھام کرنے والی اینٹی باڈیز بن سکیں۔

تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ پہلے مرحلے میں 14 فیصد افراد میں کورونا وائرس اینٹی باڈیز ٹیسٹ مثبت رہا مگر چند ہفتوں بعد وہ اینٹی باڈیز غائب ہوگئیں۔

محققین کا کہنا تھا کہ امیونٹی نامکمل ہے اور ایسا نظر آتا ہے کہ وہ بہت مختصر وقت کے لیے ہوتی ہے اور پھر غائب ہوجاتی ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ نتائج سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کووڈ 19 کی معتدل شدت یا بغیر علامات والے مریضوں میں اینٹی باڈیز بہت کم وقت کے لیے موجود رہتی ہیں۔

ان کے بقول ہر وہ فرد جس کا اینٹی باڈی ٹیسٹ مثبت رہا ہو، وہ یہ تصور نہ کرے کہ وہ محفوظ ہے۔

آسان الفاظ میں کورونا وائرس کے مریضوں میں کووڈ 19 سے دوبارہ متاثر ہونے کا خطرہ ہوسکتا ہے۔

اس سے قبل امریکا اور چین میں ہونے والی تحقیقی رپورٹس میں بھی دریافت کیا تھا کہ اجتماعی مدافعت کا حصول ممکن نہیں۔

اسپین کے ماہرین کا کہنا تھا کہ نتائج کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ اجتماعی مدافعت کے حصول کے لیے کوئی بھی مجوزہ حکمت عملی نہ صرف بہت زیادہ غیراخلاقی بلکہ ناقابل حصول ہے۔

اس تحقیق کے دوران 61 ہزار سے زائد افراد کے اینٹی باڈیز ٹیسٹ ہوئے تھے جو کورونا وائرس کا شکار ہوئے تھے اور نتائج سے اجتماعی مدافعت کے خیال کو مسترد کردیا گیا۔

اس سے قبل مئی میں سوئیڈن میں ہونے والی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اسٹاک ہوم میں صرف 7.3 فیصد افراد میں اینٹی باڈیز بن سکی تھیں حالانکہ وہاں سخت لاک ڈاؤن کا نفاذ نہیں ہوا تھا۔

طبی ماہرین نے اس حکمت عملی کو اجتماعی مدافعت کے حصول کی کوشش قرار دیا گیا مگر اب نئی تحقیق کے نتائج سے ایسا ممکن نظر نہیں آتا۔

تبصرے (0) بند ہیں