پاکستان کے سیاسی منظرنامے میں آج کل ’ایک بار پھر‘ مائنس وَن کا شور بپا ہے اور عام تاثر یہ پایا جاتا کہ وزیرِاعظم عمران خان کی حکومت اب چند ماہ کی مہمان ہے۔

یہ حکومت کس طرح جائے گی؟ اس بارے میں کسی کے پاس کوئی ٹھوس دلیل موجود نہیں، سوائے ایک دلیل کے کہ وزیرِاعظم کے خلاف تحریک عدم اعتماد لائی جائے۔

اگر تحریک عدم اعتماد آ بھی جائے تو اس کی کامیابی کے امکانات کتنے ہوں گے؟ اس بارے میں دلیل دینے والوں کے پاس بھی یقین کے ساتھ کوئی جواب نہیں۔

تحریک عدم اعتماد ایک آئینی راستہ ہے، دوسرا راستہ یہ ہے کہ اگر وزیرِاعظم سمجھیں کہ اس طرح کی کوئی صورتحال بننے جارہی ہے تو وہ صدر کو مشورہ دے کر قومی اسمبلی توڑ سکتے ہیں، نتیجے میں نئے عام انتخابات کی طرف جانا ہوگا۔

مائنس وَن کی دوسری صورت یہ ہے کہ عمران خان صاحب کسی عدالتی حکم کے ذریعے نااہل قرار پائیں اور اپنی جگہ کسی اور کو نامزد کریں، لیکن فی الحال تو ایسا بھی ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔

مہنگائی کے ستائے عوام اور حکومت مخالف لوگ سمجھتے ہیں کہ عمران خان اگر چلے گئے تو معاملات بہتری کی طرف چل پڑیں گے۔ کم از کم حکومت مخالف 3 بڑی جماعتیں تو میڈیا میں اس طرح کا تاثر بھی دینے میں کامیاب ہوگئی ہیں۔

پہلے مسلم لیگ (ن) لیگ کی جانب سے عام انتخابات کا مطالبہ کیا جاتا رہا، بعد میں کہا گیا کہ تمام فریق مل بیٹھیں اور ملک کو بحران سے نکالیں، یعنی ان کا اشارہ ایک ایسی حکومت کی طرف تھا جس میں تمام جماعتیں شامل ہوں، لیکن وہ اس کا کھل کر اظہار نہیں کرتی۔

لیکن پاکستان پیپلز پارٹی موجودہ حالات میں عام انتخابات کی حامی نہیں۔ وہ سمجھتی ہے کہ عمران خان چلے جائیں اور ان کی جگہ تحریک انصاف کے کسی اور رکن کو قائدِ ایوان نامزد کیا جائے۔

A photo posted by Instagram (@instagram) on

لیکن کیا واقعی ایسا کچھ ہونے بھی جا رہا ہے، جس کا ہنگامہ برپا ہے؟

اسلام آباد کے ایوانِ اقتدار اس بات کی نفی کرتے ہیں۔ اپوزیشن کے رہنماؤں سے بات کی جائے تو وہ آپ کو بتاتے ہیں حکومت سچ نہیں بول رہی، ظاہر ہے کہ اب تیسری قوت اسٹیبلشمنٹ ہے، سیاست جس کے زیرِ اثر ہے، ان کے قریبی حلقے کہتے ہیں کہ

دودھ وچ سرکہ پا بیٹھے آں

سوچے پئے آ ہن کی کرئیے

پاکستان میں یہ عام رواج ہے کہ اقتدار کے ایک یا دو سال بعد ہی حکومت مخالف عوامی جذبات نظر آنا شروع ہوجاتے ہیں، اور اگر اس میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے الزامات کا تڑکا لگادیا جائے تو بے یقینی مزید بڑھ جاتی ہے، لیکن اس بار بے یقینی کا تڑکا ان کی طرف سے نہیں لگایا گیا۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دو حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور تیسری اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ دو حکومتوں کے دوران بھی مائنس وَن کی آوازیں آتی رہیں۔

پہلی حکومت میں زرداری صاحب پر پاگل ہونے کے الزامات لگاکر کر انہیں مائنس کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ اگرچہ وہ خود کو بچانے میں تو کامیاب ہوگئے لیکن ایک وزیرِاعظم کی قربانی دینی پڑی۔

میاں نواز شریف تو تاحیات نااہل ہوگئے، اور یہ خیال کیا گیا کہ وہ مائنس ہوگئے، ان دونوں جماعتوں کی اپنی حکومتوں کے دوران اسٹیبلشمنٹ سے یہ شکایت رہی کہ انہیں سکون سے کام نہیں کرنے دیا گیا، لیکن اس کے باوجود بھی ان دونوں جماعتوں نے اپنی حکومتوں کی آئینی مدت مکمل کی۔

اس بار بھی کچھ نیا نہیں ہورہا۔ ابھی مشکل سے دو سال ہی گزرے ہیں اور اقتدار کے اعلیٰ ایوانوں میں مائنس وَن کی باتیں ہونا شروع ہوگئی ہیں۔ اپوزیشن کی یہ خواہش رہی ہے کہ عمران خان اگر مائنس ہوجائیں تو جو بھی ان کی جگہ وزیرِاعظم بن جائے ان سے معاملات چلانا بہتر رہے گا۔ لیکن عمران خان نے کہہ دیا کہ وہ مائنس ہو بھی جائیں لیکن ان کی جگہ جو بھی آئے گا وہ انہیں نہیں چھوڑے گا۔

پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار دو حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور تیسری اپنا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔ گزشتہ دو حکومتوں کے دوران بھی مائنس وَن کی آوازیں آتی رہیں۔

دوسری جانب اسلام آباد میں ایک اور تھیوری بھی بڑی شدت سے زیرِ بحث ہے کہ ملک میں قومی حکومت بنائی جائے، جو مل کر ملک کو بحران سے نکالے۔ اس تھیوری کو مسترد کرنے کے لیے ایک دلیل موجود ہے کہ ملک کے آئین میں تو اس طرح کی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں۔ جس پر کہا جاتا ہے کہ اگر تمام جماعتیں مل کر افہمام و تفہیم سے اقتدار بانٹ لیں تو آئین میں گنجائش نکالنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔

اس حد تک یہ بات درست بھی ہے، لیکن کیا قومی حکومت کے نام پر خود تحریک انصاف رضامند ہوگی، جس کے پاس اس وقت باقی جماعتوں سے زیادہ اکثریت ہے۔ خود تحریک انصاف کے اہم رہنما قومی حکومت یا مل کر کوئی نمائندہ حکومت بنانے کے تصور کو رد کرتے ہیں۔ وہ نہ صرف اس تصور کو مسترد کرتے ہیں بلکہ مائنس وَن والی بات بھی دیوانے کا خواب قرار دیتے ہیں۔

ایک رہنما نے بتایا کہ اس سے انکار نہیں کہ عمران خان ان حالات کے باوجود دو سال پہلے والے اپنے بیانیے پر قائم ہیں۔ اس کام کے لیے انہیں جن کی حمایت چاہیے وہ ان کے پاس ہے اور جب تک وہ حمایت ان کے پاس ہے تو باقیوں کا محتاج ہونے کی انہیں کوئی ضرورت نہیں۔

یہ بات کافی حد تک درست بھی ہے۔ ملکی تاریخ میں سویلین اقتدار میں عمران خان ایسے لیڈر ہیں جنہوں نے اپنا سویلین اختیار خود اسٹیبلشمنٹ کو ان کی خواہش کے مطابق دے دیا ہے۔

‘ہم اسٹیبلشمنٹ کی دو باتیں سنتے تھے، ایک دوسرے کان سے نکال دیتے اور پہلی پر عمل کرتے تھے، لیکن عمران خان تو نہ صرف دونوں باتیں سنتے ہیں بلکہ اس پر بحث بھی نہیں کرتے، بلکہ جو کہا جاتا ہے وہ کردیتے ہیں’، پیپلز پارٹی کے ایک رہنما مجھے بتارہے تھے۔

بجٹ پاس ہونے کے بعد قومی اسمبلی میں جب وزیرِاعظم نے خود اپنے مائنس ہونے کا تذکرہ چھیڑا تھا تو سیاسی حلقوں کو لگا کہ واقعی کچھ ہورہا ہے، لوگوں نے کڑیاں ملانا شروع کیں تو فواد چوہدری کا انٹرویو اور دیگر سیاسی رہنماؤں کے بیانات کی اہمیت بڑھ گئی۔

اب سوال تو یہ بنتا ہے کہ کیا واقعی مائنس وَن ہونا بھی ہے یا یہ بھی عوام کو انگیج رکھنے کا ایک بہانہ ہے؟ عمران خان سے مختلف اوقات میں ملنے والے رہنماؤں کا دعویٰ ہے کہ قومی اسمبلی کے اجلاس میں عمران خان نے مائنس وَن کا تذکرہ چھیڑ کر اپنی پارٹی کے اندر اس طرح کی سوچ رکھنے والے رہنماؤں کو آگے جانے سے روک دیا ہے۔

اس بات سے تو انکار نہیں کہ عمران خان جتنا قد آور لیڈر تو ان کی پارٹی میں کوئی نہیں۔ یہ بات بالکل ٹھیک کہی جاتی ہے کہ تحریک انصاف اور عمران خان ایک سکّے کے دو رخ ہیں، عمران ہیں تو تحریک انصاف ہے، اور ان کے سیاسی نظریے پر ہی ان کی جماعت کھڑی ہے۔

عمران خان کے لیے یہ بھی مشہور ہے کہ وہ خود بھی اکثر اوقات اپنی جماعت کے مختلف رہنماؤں کو ایک دوسرے کے پیچھے لگادیتے ہیں تاکہ اندازہ کیا جاسکے کہ کون کتنے پانی میں ہے۔ اس لیے ان کے مائنس ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔

جبکہ ان حالات میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں بھی عوامی مسائل پر ڈٹ کر کھڑے ہونے کے بجائے اپنے معاملات پر سودے بازی کے چکر میں ہیں، اور شاید یہی وجہ ہے کہ ایک بڑا نمبر رکھنے کے باوجود قومی اسمبلی میں موجود اپوزیشن اتنی طاقتور نہیں، جتنا اسے ہونا چاہیے۔

اپوزیشن بہت سارے معاملات پر تقسیم ہے، خصوصاً میاں شہباز شریف اور بلاول بھٹو زرداری کے درمیان بھی شخصی تناؤ محسوس ہوتا ہے۔ گزشتہ 3 ہفتوں سے بلاول بھٹو زرداری کی کوشش تھی کہ ایک کل جماعتی کانفرنس بلائی جائے جس کی میزبانی پیپلزپارٹی کرے، لیکن یہ بات (ن) لیگ کو ہضم نہیں ہو پارہی۔ مسلم لیگ (ن) کوشش کر رہی ہے کہ وہ اس کانفرنس کی میزبانی خود کرے۔

وہسے بھی ان دونوں جماعتوں کا رومانس بھی عارضی ہے، کیونکہ پیپلزپارٹی پنجاب میں کچھ حاصل کیے بغیر وفاق میں کچھ نہیں کرسکتی اور (ن) لیگ کسی صورت یہ گنجائش پیپلزپارٹی کو دینا نہیں چاہتی۔

جن حالات سے ملک گزر رہا ہے، ان میں نئے انتخابات کے امکانات بھی فی الحال موجود نہیں۔ حزبِ اختلاف کی جماعتیں حکومت مخالف ایک تگڑی قسم کی عوامی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتی۔ بظاہر تو انہیں کورونا وائرس کا ایک خوبصورت بہانہ مل گیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر کورونا کے حالات نہ بھی ہوتے تب بھی یہ جماعتیں آخری حد تک جانے کے لیے تیار نہ ہوتیں، کیونکہ عوامی جدوجہد سے زیادہ ان کا ایمان اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر ہے۔

اپوزیشن کے رہنماؤں کو اس بات کا بھی اندازہ ہے کہ اگر عمران خان کی حکومت رواں سال کے آخر تک چلی جاتی ہے تو دو سال کی خراب کارکردگی پی ٹی آئی کی مظلومیت میں چھپ جائے گی اور وہ ایک بار پھر نئی قوت کے ساتھ انتخابی مہم میں موجود ہوں گے۔

رہی بات ایوان کے اندر عمران خان کی اکثریت کو ختم کرنے کی تو دو اتحادیوں کو توڑ کر یہ اکثریت ختم کی جاسکتی ہے، یعنی اگر متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور مسلم لیگ (ق) حکومت سے اپنے تعلق کو ختم کرلیں تو موجودہ حکومت ایوان میں اکثریت کھو بیٹھے گی، لیکن سب جانتے ہیں کہ ان دونوں جماعتوں کی ڈور کس کے ہاتھ میں ہے، اور جن کے ہاتھ میں ان کی ڈور ہے وہ فی الحال عمران خان کے اتنے بھی مخالف نہیں جتنی اپوزیشن کو امید ہے۔

اس سارے منظرنامے کو سامنے رکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ اپوزیشن، اسٹیبلشمنٹ اور حکومت بند گلی میں ہیں۔ کسی کے پاس بھی ان حالات سے باہر نکلنے کا راستہ نہیں۔ گزشتہ دنوں پیپلزپارٹی نے دھمکی دی تھی کہ وہ اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف تحریک عدم اعتماد لارہے ہیں، لیکن وہ بات بیان کی حد تک ہی رہی اور ابھی تک اس پر کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔

اپوزیشن کی جماعتیں بھی نہ صرف تقسیم ہیں بلکہ ان کے درمیان بے اعتباری کی لکیر بھی نظر آتی ہے۔ پیپلزپارٹی کا خیال ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ شہباز شریف اوپر اوپر سے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کرکے ہمیں اکیلا چھوڑ دیں۔

اس لیے موجودہ حالات میں اس بات کے کم ہی امکانات نظر آتے ہیں کہ عمران خان مائنس ہوجائیں۔ پاکستان میں حقیقی معنوں میں نمبر گیم جن کے ہاتھ میں ہیں ان کا ہاتھ اب بھی عمران خان کے سر پر ہی ہے، اور جب تک یہ ہاتھ قائم رہتا ہے تب تک تو کسی بھی طرح کی تبدیلی ممکن نظر نہیں آتی۔

تبصرے (0) بند ہیں