فیروز شاہ تغلق: جس کے لیے سندھ کبھی آسان محاذ نہ رہا

فیروز شاہ تغلق: جس کے لیے سندھ کبھی آسان محاذ نہ رہا

ابوبکر شیخ

ہم یقین کے گھنے درخت کے نیچے کھڑے ہیں اور ہمیں کھڑا ہونا بھی چاہیے کہ وقت ہمیشہ آگے کی طرف سفر کرتا ہے۔ اس یقین کے درخت میں جو شیریں ثمر لگتا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ وقت سدا آگے اور مثبت مرکز کی طرف سفر کرتا ہے اور گزرے وقتوں کی پُراسرار راہوں پر ہم کو سفر کرنا اس لیے دلچسپ اور اچھا لگتا ہے کہ یہ ہمارے ان گزرے ہوئے وقت کے شب و روز ہیں جہاں ہماری جڑیں ان زمانوں کی زمینوں میں پیوست ہیں اور ہماری کئی نسلیں ان خوفناک گزرگاہوں سے ہوتے ہوئے ان زمانوں میں پہنچی ہیں جہاں تپتی دوپہروں میں گھوڑوں کی ٹاپوں اور ان کے سموں سے اٹھتی ہوئی مٹی کے بادلوں کا ڈر اب کب کا مفقود ہوچکا ہے۔

آج کا سفر بھی ان گزرے زمانوں کا سفر ہے، جہاں گھوڑوں کے ٹاپوں کی آواز اور ان ٹاپوں سے اٹھتے ہوئے دھول کے بادل خوف کی نشانیاں تھیں۔ 2 بادشاہوں کی جنگ میں ان کی سانسوں کی ڈوریوں کے کٹنے کا وقت بہت ہی کم آتا اور وہ آمنے سامنے بھی بہت کم ہوتے ہیں۔ ان کی اندرونی کیفیتوں کے نتیجے میں جنگ کے میدان کسی شطرنج کی بازی کی طرح سجتے ہیں۔ اگرچہ کھیلنے والے 2 ہی ہوتے ہیں لیکن مات کھانے والے اور زمین کو اپنے خون سے سرخ کرنے والے لاکھوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہی گزرے وقتوں کا سب سے بڑا سچ ہے۔

سلطان محمد بن تغلق نے 20 مارچ 1351ء، اتوار کی رات کو ننگر ٹھٹہ سے مشرق میں دریائے سندھ کے مغربی کنارے پر اپنی زندگی کی آخری سانسیں لیں۔ جسم ٹھنڈا ہوا تو ساتھ لائی ہوئی فوج میں آگ بھڑک اٹھی۔ خاص کر ان مغلوں کے جتھوں نے بڑا اُدھم مچایا جن کو محمد بن تغلق نے اپنی مدد کے لیے افغانستان سے بلایا تھا۔

ایسے حالات میں جب ماحول میں تناؤ کسی جنگل کی آگ کی طرح پھیلا ہو وہاں وقت کی رفتار دھیمی پڑجاتی ہے۔ 22 مارچ کو طویل بحث و مباحثوں کے بعد یہ فیصلہ ہوا کہ تخت پر فیروز شاہ تغلق کو بٹھایا جائے۔ یہ خبر جب بن تغلق کی بیٹی 'خداوند زادہ' کے پاس پہنچی جو خود وہیں پر موجود تھی تو جس تناؤ کی آگ کم ہونے لگی تھی اسے خداوند زادہ کے اعتراض نے ایک بار پھر بھڑکا دیا۔

میں اس تناؤ بھرے ماحول سے متعلق 'مولوی ذکا اللہ' کی تاریخ ہندوستان سے کچھ جملے ادھار لوں گا۔ وہ لکھتے ہیں کہ 'جب بادشاہی کے لیے فیروز شاہ کے منتخب ہونے کی خبر 'خداوند زادہ' کو پہنچی تو اس نے پیغام بھیجا کہ جب ملک خسرو سے اس کا بیٹا 'ملک داور' موجود ہے تو ایسی صورت میں یہ انصاف نہیں ہے کہ تم اس پر امیر حاجب کو ترجیح دیتے ہو۔ میں تغلق شاہ کی بیٹی ہوں، جب میرا بیٹا موجود ہے تو دوسرا غیر کیسے بادشاہ ہو سکتا ہے‘۔

سلطان فیروز شاہ تغلق
سلطان فیروز شاہ تغلق

بعض روایتیں یہ بھی ہیں کہ اس نے کچھ نامناسب الفاظ نکال کر اپنے دل کی بھڑاس نکالی۔ خداوند زادہ کا یہ پیغام جب نامزد بادشاہ اور ان کے چاہنے والوں تک پہنچا تو کسی نے اسے پسند نہیں کیا۔ سب سانپ کی طرح بل کھانے لگے۔ بہت سے معززین اور بزرگوں نے متفق ہوکر شاندار اور سحر انگیز باتیں کرنے والے ملک سیف الدین خوجو کو خداوند زادہ کے پاس بھیجا گیا۔

اس نے وہاں پہنچ کر یہ تقریر بڑے سحر انگیز طریقے سے کی کہ 'اے عورت اگر فیروز شاہ کے ہوتے تیرے بیٹے کو بادشاہی کے لیے منتخب کریں تو نہ تجھ کو اپنا گھر دیکھنا نصیب ہوگا اور نہ ہمیں اپنی بیوی بچے دیکھنے کا موقع ملے گا۔ تیرا نالائق بیٹا بادشاہی کرنے کے لائق نہیں۔ ہم پردیس میں پڑے ہوئے ہیں۔ مغلوں کی سپاہ ہماری جان کھا رہی ہے۔ تو اگر اپنی اور دوسروں کی سلامتی چاہتی ہے تو میں جو کہتا ہوں اس پر راضی ہوجا۔ تمہارے بیٹے کو 'نائب باربک' (شاہی دربار کا دروغہ) کا خطاب مل جائے گا'۔

ملک سیف الدین کی چرب زبانی کام کرگئی اور خداوند زادہ کے پاس خاموش رہنے کے سوا اور کوئی چارہ نہیں تھا۔

خداوند زادہ کی پکار کو خوف اور دھمکی کے پانی سے بجھا دیا گیا۔ میں حیران ہوں کہ 'تاریخ فیروز شاہی' کے مصنف شمس سراج عفیف نے بھی اس واقعے کو بڑا اہم جانا اور اس پر بڑی تفصیل سے تحریر کیا۔ اب سوال یہ ہے کہ محمد قاسم فرشتہ نے اس اہم واقعے کو اہمیت کیوں نہیں دی؟ کیونکہ اس حوالے سے 'منتخب التواریخ' کے ملا عبدالقادر بدایونی نے محمد بن تغلق سے متعلق اور حضرت چراغ دہلوی سے متعلق جو حقیقت بیان کی ہے وہ بن تغلق کی موت کو ایک قتل کے شک میں تبدیل کردیتی ہے۔ مگر اس پر کسی اور نشست میں بات کریں گے۔

22 محرم 752ھ یعنی 22 مارچ 1351ء کو فیروز شاہ کو تخت پر بیٹھنے کا حق دے دیا گیا۔ جب فیروز شاہ کو 'بادشاہ' بننے کی سند ملی تو اس وقت اس نے محمد بن تغلق کی موت کا ماتمی لباس پہنا ہوا تھا۔

تاریخ کے اوراق لکھتے ہیں کہ 'فیروز شاہ نے ماتمی لباس اتارنے سے انکار کردیا اور شاہی لباس اس کے اوپر پہن لیا۔ سواری کے لیے ہاتھی آیا، ہاتھی پر جب وہ سوار ہوا تو باجوں کا شور و غل تھا اور خوشی کے مارے خلقت آپے سے باہر ہوئی جاتی تھی۔ جیسے شادی کا ماحول ہو۔ بادشاہ ہاتھی پر سوار ہوکر حرم میں گیا۔ وہاں جاکر خداوند زادہ کے قدموں پر سر رکھا۔ اس نے سر کو اٹھا کر اپنے گلے لگایا اور اس پر اپنے ہاتھ سے ایک لاکھ ٹنکے کی قیمت کا تاج، فیروز کے سر پر رکھا۔ یہ تاج اس کے پاس سلطان تغلق شاہ و سلطان محمد شاہ کی تاجداری کا یادگار تھا'۔

فیروز شاہ تغلق
فیروز شاہ تغلق

یہ سب کرنا وقت کا تقاضا تھا۔ فیروز شاہ کے لیے بھی اور خداوند زادہ کے لیے بھی۔ مگر دونوں کے اندر اس تلخ کلامی کی وجہ سے جو نفرت کا بیج بویا جاچکا تھا وقت کا پانی اسے سینچتا رہا۔ بادشاہ دہلی پہنچا اور اپنی نئی حکومت کی بنیاد رکھنے میں مصروف ہوگیا۔ کہتے ہیں کہ جو لوگ، باتیں کم کریں، سنیں زیادہ اور آنکھوں سے دیکھنے کا زیادہ کام لیں، وہ باہر سے چاہے کتنے بھی پُرسکون نظر آتے ہوں مگر ان کے اندر نفرت کا ایک لاوا ابلتا رہتا ہے۔ یہاں بھی کچھ ایسا حال تھا۔ مگر دونوں کی نفرتوں میں فرق تھا۔ خداوند زادہ شدید نفرت ہوتے ہوئے بھی کچھ کرنے کی حالت میں نہیں تھی جبکہ فیروز شاہ تغلق تخت و تاج کا مالک تھا۔ وہ جو چاہتا وہ سب ممکن تھا۔ ٹھٹہ والی مخالفت بادشاہ کے دل میں رہی اور نتیجہ یہ نکلا کہ محمد بن تغلق جس کے دکھ میں فیروز تغلق روتا پھرتا تھا اس نے اس کی بیٹی کو زمانے میں ذلیل و خوار کردیا۔

بادشاہ کے اشارے پر ایک سازش اس طرح رچی گئی کہ جب یہ اپنے اختتام کو پہنچے تو گنہگار 'خداوند زادہ' اور 'خسرو ملک' قرار دیے جائیں۔

شمس سراج عفیف لکھتے ہیں کہ 'خداوند زادہ اور خسرو ملک نے بادشاہ کو قتل کرنے کی سازش کی۔ چونکہ بادشاہ ہر جمعہ کو نماز کے بعد ان کے پاس آتا اور بات چیت کرکے چلا جاتا۔ اس موقعے پر بادشاہ کو قتل کرنے کی سازش رچی گئی مگر داور ملک (جو خسرو ملک کا اپنا بیٹا نہیں تھا بلکہ خداوند زادہ کے دوسرے شوہر سے تھا) نے غداری کی اور بادشاہ کو بچالیا۔

شاہی محل میں مقدمہ چلا جس کے فیصلے کے تحت خداوند زادہ کا وظیفہ مقرر کرکے اس کو گوشہ نشین ہونے کا حکم دیا گیا اور اس کے پاس جو بے شمار مال تھا وہ تمام و کمال ضبط کرکے خزانہ شاہی میں داخل کردیا گیا۔ خسرو ملک کو جلا وطن کردیا گیا اور قانون جہاں داری و روش شہریاری کی بنا پر داور ملک کی بابت حکم ہوا کہ ہر ماہ کی پہلی تاریخ چادر اوڑھ کر اور کفن پہن کر بادشاہ کے حضور سلام کرنے حاضر ہوا کرے'۔ اسی طرح انتہائی پُرسکون طریقے سے فیروز تغلق نے اپنے خون کے رشتوں اور اپنے محسن کی بیٹی سے ہمیشہ کے لیے جان چھڑالی۔

اب چونکہ بنگال ریاست کے بادشاہ الیاس شاہ نے مشرقی بنگال اور شمالی بہار کو فتح کیا تھا اور نیپال وادی کے کھٹمنڈو پر حملہ کرکے وہاں کی ساری دولت سمیٹ کر بنگلہ لانے میں کامیاب ہوگئے تھے اس لیے 1351ء میں بادشاہ کو خیال آیا کہ بنگال کی شاندار ریاست کو اپنے قبضے میں کرلیا جائے تو ہزاروں کشتیوں کے میلے میں نکل پڑے، اور قلعے کے محاصرے میں فیروز شاہ تغلق کو فتح بھی نصیب ہوگئی۔

عفیف لکھتے ہیں کہ 'فیروز شاہ نے بنگال کو فتح کیا اور ہر خاص و عام کو راحت نصیب ہوئی۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ بنگال کے تمام مقتول افراد کے سر جمع کیے جائیں۔ فیروز شاہ نے وعدہ کیا کہ جو شخص مقتول بنگالیوں کے سر لائے گا، فی سر ایک ٹنکہ انعام پائے گا۔ اس حکم کی تعمیل میں کوششیں شروع ہوگئیں۔ جب سروں کا شمار کیا گیا تو ایک لاکھ 80 ہزار سے زائد سر جمع ہوئے اور بادشاہ دارالحکومت دہلی واپس روانہ ہوگئے'۔ یہ ایک الگ حقیقت ہے کہ جب فیروز شاہ نے دوسری بار بنگال پر 7 برس کے بعد 1359ء میں حملہ کیا تو الیاس شاہ کے بیٹے سلطان سکندر نے فیروز شاہ کو شکست دی اور دہلی اور بنگال کے درمیان امن معاہدہ ہوا۔ فیروز شاہ نے سلطان سکندر کو 60 ہزار روپے مالیت کا سونے کا تاج پیش کیا اور بادشاہ جان بچا کر دارالحکومت دہلی کے لیے روانہ ہونے میں کامیاب ہوسکے۔

ٹنکہ حضرت دہلی
ٹنکہ حضرت دہلی

فیروز شاہ جب بھی کوئی نئی ریاست یا قلعہ اپنی ریاست میں شامل کرکے دہلی لوٹتے تو محفل میں سندھ کے ٹھٹہ کا ذکر ضرور ہوتا کیونکہ ننگر ٹھٹہ میں بادشاہ سر پر تاج رکھ کر افراتفری کے عالم میں مغلوں اور مقامی لوگوں کے حملوں کی وجہ سے شدید تناؤ میں دہلی کی طرف روانہ ہوئے تھے۔

برنی لکھتے ہیں کہ 'ٹھٹہ سے آگے سیہون سے پہلے ٹھٹہ کے لوگ خیموں پر ٹوٹ پڑتے، جس کی وجہ سے بڑی افراتفری پھیل جاتی تھی۔ پیدل سوار، مرد اور عورتیں ایک دوسرے سے بھاگتے الگ ہوجاتے۔ لشکر آگے بڑھتا تو مغل لوٹ مار کرتے اور پیچھے ہٹتے تو ٹھٹہ کے لوگ ان کو پریشان کرنے میں کوئی کمی نہیں چھوڑتے'۔

یہ لشکر جب پریشان ہوتا ہوا اور سیہون پہنچا تو کچھ سکون حاصل ہوا۔ وہاں یہ فیصلہ ہوا کہ محمد بن تغلق کے ٹھنڈے جسم کو سیہون میں قلندر شہباز کی مزار کے قریب امانت کے طور پر دفن کیا جائے اور ایسا ہی کیا گیا۔ اسی طرح وہ فیروز تغلق جن کا جنم شمالی سندھ کے شہر ملتان میں ہوا تھا، لیکن جنوبی سندھ جہاں مقامی سمہ حکمرانوں کی حکومت تھی انہوں نے فیروز کے بادشاہ بننے کے ابتدائی دنوں کو اتنا کڑوا بنا دیا تھا کہ وہ کڑواہٹ آگے چل کر دھیرے دھیرے غصے میں تبدیل ہوگئی۔ محفل میں اکثر ٹھٹہ کا ذکر ہوتا تو بادشاہ کے چہرے کی کیفیتیں تبدیل ہوجاتیں اور اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اکتوبر 1365ء میں سلطنتِ دہلی کے بادشاہ نے سندھ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کر ہی لیا۔

ٹھٹہ
ٹھٹہ

'عفیف' تحریر کرتا ہے کہ سندھ پر حملہ کرنے کا فیصلہ کرلیا گیا۔ بادشاہ سلامت سندھیوں سے اس ذلت کا بدلہ لینا چاہتا تھا جو اس نے سندھ کے ریگزاروں اور راستوں میں برداشت کی تھی۔

'برنی' لکھتا ہے کہ 'فیروز شاہ کی سندھ پر چڑھائی ننگر ٹھٹہ والوں کی سرکشی تھی۔

'انشا ماھرو' بھی برنی کی تائید کرتا ہے۔ جنوبی سندھ میں سومرا حاکموں کی حکومت کے خاتمے کے بعد سمہ سردار نے حکومت سنبھالی۔ سومروں کے آخری حاکم ھمیر کو دہلی سلطنت کی حمایت حاصل تھی جس کا ہمیں عبداللہ بن ماھرو کے خطوط سے اندازہ ہوتا ہے۔ تاریخ کے اوراق ہمیں بتاتے ہیں کہ سومروں اور سموں کے درمیاں آخری خونی معرکہ عمرکوٹ کے آس پاس ہوا تھا جس میں سومرا حکومت کا خاتمہ ہوا اور سمہ سرداروں نے 1351ء میں فیروزالدین جام انڑ کو 'جام' کا لقب دے کر اپنا بادشاہ مقرر کیا۔ اس کی وفات کے بعد اس کا بیٹا صدرالدین جام بابینو (بانبھڑیو) 1353ء میں تخت پر بیٹھا اور 1368ء تک حکومت کی۔

سمہ دور میں رائج سکے
سمہ دور میں رائج سکے

فیروز سندھ کی طرف آتے ہوئے مختلف شہروں اور قلعوں کو فتح کرتا ہوا آیا تھا۔ قلعہ نگر کوٹ کی فتح کے بعد عفیف تحریر کرتا ہے کہ 'غرض کہ یہ تمام واقعات ٹھٹہ کی مہم سے پہلے رونما ہوئے اور ٹھٹہ کی مہم کے بعد فیروز شاہ نے جنگی مہمات سے قطعاً کنارہ کشی کرلی۔ وقت کا بھی تقاضا یہی تھا کہ اب جنگ سے قطعاً دستبردار ہوا جائے'۔

ننگر ٹھٹہ، اکثر حملہ کرنے والوں خاص کر 'تغلوں' کے لیے کبھی کامیابی کی سرزمین نہ بن سکا۔ دریائے سندھ کے کنارے بھی ان کے لیے کم ہی مہربان رہے بلکہ اگر تاریخ کی کتابوں میں جھانکیں تو یہاں کے میدان اور جنگل بھی ان کی کسی آسائش کا سبب نہیں بن سکے۔ میں ستاروں کی چالوں کو نہیں مانتا مگر یہاں لکھنا پڑ رہا ہے کہ محمد بن تغلق اور فیروز شاہ نے 4 بار ننگر ٹھٹہ پر فوج کشی کی مگر ہر دفعہ وہ ناکام ہی لوٹے۔ شاید انہوں نے جو وقت چنا ہوگا وہ مناسب نہیں تھا یا تجزیہ کرتے وقت غلطی کر بیٹھے ہوں گے۔ بہرحال جو بھی تھا اس ہونے کے سارے مناظر تاریخ کے صفحات میں سانس لیتے ہیں۔ ہم بھی اس ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ دہلی کی گلیوں سے نکل پڑتے ہیں جو ٹھٹہ پر حملہ کرنے کے لیے جا رہا ہے اور جس میں ہزاروں گھڑ سوار، 84 ہزار پیادے اور 500 قریب ہاتھی شامل ہیں۔ سارا لشکر بہت خوش ہے کہ مال غنیمت ملے گا۔

بادشاہ جب بکھر اور سیہون کے قریب پہنچا تو حکم ہوا کہ ملک کے سارے بجرے اور کشتیاں بادشاہ کے ساتھ روانہ ہوں۔ اس حکم کے بعد 5 ہزار کشتیاں بھی اس لشکر کا حصہ بنیں اور اس طرح چند روز کے بعد بادشاہ ننگر ٹھٹہ کی حدود میں قیام پذیر ہوا۔

جام بابینو اور جام جونو کی حکومت ایک مضبوط اور عوامی حکومت محسوس ہوتی ہے جس کے لیے خود عفیف تحریر کرتا ہے کہ 'واضح ہو کہ اس زمانے میں ٹھٹہ کی آبادی 2 حصوں میں منقسم تھی۔ ٹھٹہ کے باشندے کثیر تعداد میں تھے اور ہر گروہ بے حد شان و شکوہ کے ساتھ جنگ آزمائی کے لیے ہر وقت تیار رہتا تھا۔ تمام مرد جنگجو تھے، چنانچہ ان کی مردی و مردانگی کا حال تمام عالم کو معلوم ہے۔ یہاں کے حاکم بابینو اور جام ہیں۔ طرفین سے فوج و لشکر کے دستے جنگ کے لیے نمودار ہوتے تھے لیکن خدا کی مشیّت سے فیروز شاہ کے لشکر میں ابتری پیدا ہوئی اور جانوروں کی بیماری نے اس قدر شدت اختیار کی کہ تمام لوگ قطعاً ناامید ہوگئے۔ ہزاروں میں سے چند سو گھوڑے بچے اور وہ بھی راستے میں بھوک اور پیاس سے مرتے جاتے۔ اس کے علاوہ غلے کی گرانی سے بے حد پریشانی پیدا ہوئی اور غلے کی قیمت 2 یا 3 ٹنکے فی من تک پہنچ گئی'۔

تاریخ کے صفحات فیروز شاہی کے ایسے منظرناموں سے بھرے پڑے ہیں۔ مصنف نے بڑی کوشش کی ہے کہ بادشاہ سلامت کی کمزوری اور کیفیت کو تحریر میں نہ لایا جائے۔ مگر کبھی کبھار حقیقتیں اور ان کی کیفیتیں جو منظرنامہ پیش کررہی ہوتی ہیں وہ اتنی زیادہ طاقتور ہوتی ہیں کہ آپ چاہنے کے باوجود بھی ان کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ وہ تحریر میں آنے کے لیے کہیں نہ کہیں سے اپنا راستہ بنا ہی لیتے ہیں۔

مصنف لکھتا ہے کہ 'ایسے پریشان کن حالات میں ٹھٹہ والے جنگ کرنے میدان میں اترے۔ بادشاہ بظاہر تو اہلِ سندھ کے بے شمار گروہ کا خیال دل میں نہیں لاتا تھا، مگر اندر ہی اندر اپنے لشکر کی کمزوری اور مخالف حالات سے بہت ڈرا ہوا تھا۔ جنگ تو مجبوراً کرنی تھی اس لیے اس کی ابتدا ہوئی۔ شاید بادشاہ سلامت کی دعا سن لی گئی اور تیز طوفان آ نکلا۔ دن کے اختتام پر بادشاہ اپنے قیام گاہ کو آیا اور اعوان و انصار کی ایک مجلس مشاورت مقرر کی اور اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ 'میرا ارادہ ہے کہ اب یہاں سے واپس ہوکر گجرات کا رخ کروں اور وہاں فوج و حشم کی تیاری کروں اور آئندہ سال اس مہم کو سر کرنے پر توجہ دوں'۔

بادشاہ کے اس فیصلے کے بعد آنے والا وقت اور بھی کٹھن تھا۔ شاید اتنا کہ بادشاہ سلامت سوچ بھی نہیں سکتے تھے۔ ٹھٹہ سے گجرات روانگی ایک اندازے کے مطابق مارچ کے آخر میں ہوئی ہوگی۔ کیونکہ ساحلی پٹی کی وجہ سے یہاں مارچ، اپریل اور مئی کے پہلے 10 دنوں تک گرد وباد کے طوفان چلتے ہیں۔ یہاں کے جو معروضی حالات ہیں اس حوالے سے ان Dust storms کا یہاں قدیم زمانے سے ریکارڈ ملتا ہے۔ ایک بڑے قافلے کے لیے ننگر ٹھٹہ سے گجرات پہنچنا ویسے تو کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے تھا مگر میں خود پریشان ہوں کہ ہندوستان کے بادشاہ جس کے ساتھ لاکھوں نہیں تو ہزاروں کا تو لشکر ضرور ہوگا، ان کے پاس ایسی کوئی جماعت یا بندہ نہیں تھا جو گجرات کا راستہ جانتا ہو؟ کیونکہ مقامی طور پر حالات ٹھٹہ سے چاچکان (بدین) تک دہلی سرکار کے حق میں نہیں تھے۔

بادشاہ نے ایک اور غلطی یہ کی کہ ٹھٹہ سے نکلنے کے بعد اس نے کچھ مقامی لوگوں کو چنا کہ وہ گجرات پہنچانے کے لیے ان کی رہنمائی کریں۔ وہ سیدھا راستہ لینے کے بجائے اس جنگی قافلے کو 'رن کَچھ' میں لے آئے۔ یہ کَچھ اور سندھ کے بیچ میں ایسا دلدلی علاقہ ہے جہاں نمک کی مقدار اتنی زیادہ ہے کہ یہاں کچھ بھی نہیں اگتا۔ بارشوں سے پہلے یہ باہر سے ایک سیدھی زمین نظر آتی ہے مگر بنیادی طور پر یہ گہری دلدلوں سے بھری ہوتی ہے۔ یہ اتنے وسیع اراضی میں پھیلا ہوا ہے کہ بغیر سوجھ بوجھ کے اسے پار نہیں کیا جاسکتا۔ جہاں اور جس طرف چلے جائیں زمین کی شبیہہ تبدیل نہیں ہوتی۔ بارش کے سوا میٹھے پانی کا ایک قطرہ ملنا ناممکنات کے دائرے میں آتا ہے۔

فیروز شاہ تغلق کی قبر
فیروز شاہ تغلق کی قبر

شاہ عبداللطیف بھٹائی نے بھی اپنی شاعری میں ایسے ویرانوں کو بہت خطرناک قرار دیا ہے۔

تاریخ کے اوراق لکھتے ہیں کہ 'غلے کا نرخ ایک ٹنکہ سے دو ٹنکہ فی سیر ہوگیا۔ مخلوق بھوک اور پھٹے کپڑوں کی وجہ سے پریشان ہونے لگی۔ اہلِ لشکر کا یہ حال تھا کہ غلے کی کمیابی کی وجہ سے بیمار اور مردار جانوروں کا گوشت اور خام چمڑا کھا کر اپنا پیٹ بھرتے تھے۔ بعض اشخاص کا یہ حال تھا کہ خام چرم کو پانی میں جوش دے کر کھاتے اور اس سے شکم سیر ہوتے تھے'۔

یہ ایسے تناؤ بھرے شب و روز تھے جس کا تصور بھی خوفناک صورت لے کر سامنے آتا ہے اور آپ تصور کریں کہ ہزاروں لوگ، بے یار و مددگار کیفیت میں ہیں اور وہ بادشاہ جس کی زبان سے نکلے ہوئے الفاظ پر تخت و تاج الٹ پلٹ ہوجایا کرتے تھے، جس کے ایک اشارے پر ہزاروں بلکہ لاکھوں سانس کی ڈوریوں کو ایسے کاٹا جاتا تھا جیسے درانتی دھان فصل کو کاٹتی ہے۔ چوں چاں کی گنجائش کہاں سے نکلتی کہ بادشاہ سلامت کا حکم جو تھا۔ بادشاہ کے ایک وقت کے طعام کے لیے خوراک کا ہر حوالے سے خیال رکھا جاتا۔

دسترخوان پر زبان کے ذائقے کی نہریں بہتیں اور کھانے کے بعد میٹھے کا نمبر آتا تو میٹھے کے ذائقوں اور لذتوں کی ایک دنیا بستی کہ بھوک اور انسان کا آپس میں بڑا قدیم رشتہ ہے، اس لیے وہ ایک دوسرے سے چاہیں بھی تو دامن نہیں چھڑا سکتے۔ بظاہر دیکھا جائے تو مرکزی نکتہ بھوک ہی ہے جس کے گرد یہ جہاں دائرے میں گھومتا ہے۔

اس بھوک نے فیروز شاہ تغلق کے اس کاروان میں ایسی جڑیں گاڑی تھیں کہ اب بادشاہ کی سانس گھٹنے لگی تھی۔ کچھ دنوں کی بات ہوتی تو گزارا ہو بھی جاتا۔ چلیے ایک دو ہفتے بھی انسان برداشت کر ہی لیتا ہے مگر یہاں بھوک، ذلت اور رسوائی ایسی آئی کہ 6 ماہ تک پیچھا نہیں چھوڑا۔ قافلے کے لوگ بھوک اور پانی کی شدید کمی کی وجہ سے مسلسل مر رہے تھے۔ بادشاہ چلتے چلتے بیٹھ جاتا اور زار و قطار اتنا روتا کہ ہچکیوں کا سلسلہ بندھ جاتا۔

بقول مؤرخ 'اس غم زدہ جماعت پر 4 بلاؤں کا نزول تھا، ایک بلا قحط، دوسری مصیبت پیادہ پائی، تیسری بلا صحرائے جاں اور چوتھی رنج فرقت عزیزاں۔ ان آفات و مصائب نے یہاں تک طول پکڑا کہ بادشاہ کا کوئی احوال دہلی نہ پہنچ سکا۔ تمام شہر میں یہ شور بلند ہوا کہ فیروز شاہ مع لشکر سندھ کے بنوں میں غائب ہوگیا ہے۔ بادشاہ سلامت کو بھی اپنی زندگی سے مایوسی ہوگئی اور ہر لحظہ غم و فکر میں رہنے لگا'۔

اس سفر میں مصنف کچھ عجیب قسم کی کہانیاں بھی سناتا ہے۔ آخر 6 ماہ کے بعد اس کڑی آزمائش کا وقت ختم ہوتا ہے اور اگست کے مہینے میں بارشیں پڑتی ہیں تو جو لوگ بادشاہ سمیت زندہ بچ گئے تھے ان کو شیریں آب نصیب ہوتا ہے اور وہ 1366ء میں گجرات پہنچ جاتے ہیں۔

گجرات پہنچنے سے پہلے جو فیروز شاہ زار و قطار روتا تھا اور توبہ تائب ہوتا تھا مگر جیسے ہی کچھ دن بادشاہت میں گزارے تو بادشاہی کی غرور کی بیل ایک بار پھر ہری ہوگئی۔

گجرات کے گورنر امیر حسن نظام الملک کو محض اس لیے عہدے سے برخاست کردیا اور جاگیر چھین لی کہ اس نے بادشاہ سلامت کو کَچھ رن میں رسد کیوں نہیں بھیجی؟ جب اس کو احکامات ہی نہیں ملے تھے تو وہ یہ کام کیسے کرسکتا تھا مگر بادشاہ کا فیصلہ آخری ہوتا ہے۔ یہ وہی نظام الملک تھا جس نے محمد بن تغلق کے زمانے میں ویران ہوتے گجرات کو پھر سے بسایا تھا۔ یاد رہے کہ اس کام میں برسوں لگے تھے۔

جس وقت وہ برخاست ہوا اس وقت گجرات میں وصول سالانہ ٹیکس 2 کروڑ ٹنکے (ٹنکہ: سفید چاندی کا سکہ جس کا وزن ایک تولے سے تھوڑا زیادہ ہوتا ہے۔ ان دنوں کے حساب سے ایک ٹنکہ ڈھائی روپے کا تھا) خزانے میں موجود تھے۔ بادشاہ نے وہ سارے پیسے اپنی فوج کو نئے سرے سے فارم میں لانے کے لیے خرچ کرنے کے احکام جاری کردیے۔ فوج 2 قسم کی تھی۔ ایک وہ فوجی تھے جو باقاعدہ حکومت کا حصہ تھے جسے 'وجہ دار' بلایا جاتا تھا۔ دوسرے وہ تھے جو مقررہ پیسوں پر جنگ کے لیے بھرتی کیے جاتے اور ان کو 'غیر وجہ دار' فوجی بلایا جاتا۔ ان دونوں فوجوں میں پیسے بانٹے گئے۔ نئے گھوڑے اور ہتھیار بھی خریدے گئے اور دہلی سرکار کو بھی احکامات جاری کردیے گئے کہ خوراک اور دوسرا سامان بھیجے۔

جنگ جب تک فتح کرنے کی حالت میں رہے تب تک ایک سسٹم کے تحت لڑی جاتی ہے مگر جب ناکامی کی صورت میں یہ انا میں تبدیل ہوجائے تو پھر ذہنی تناؤ اتنا بڑھ جاتا ہے کہ ہر فیصلہ بغیر سوچے سمجھے کیا جانے لگتا ہے۔ ایک یہ کہ لڑ کر مرجاؤ یا بھاگ کر جان بچاؤ۔ یہ طرفین پر منحصر ہوتا ہے کہ وہ کس طرح کا تناؤ ایک دوسرے کو دینے میں کامیاب ہوتے ہیں۔

بہرحال جب جنگ کی ساری تیاری مکمل ہوگئی اور بادشاہ نے ستمبر 1367ء میں سندھ پر حملہ کرنے کا اعلان کیا تو فوج میں شامل بہت سارے لوگ بھاگ گئے، اور باقی رہ جانے والوں کے ساتھ بادشاہ چل پڑا اور ٹھٹہ کے قریب دریائے سندھ کے مشرقی کنارے پر خیمے نصب کیے اور مقامی چھوٹی چھوٹی آبادیوں پر حملہ کرکے لوگوں کو گرفتار کرنا شروع کیا کہ ایک خوف پیدا کیا جاسکے مگر وہ دریائے سندھ پار نہ کرسکے۔

فیروز شاہ تغلق کا مقبرہ
فیروز شاہ تغلق کا مقبرہ

مقبرے میں فیروز شاہ تغلق کے علاوہ ان کے بیٹے اور پوتے کی قبریں بھی موجود ہیں
مقبرے میں فیروز شاہ تغلق کے علاوہ ان کے بیٹے اور پوتے کی قبریں بھی موجود ہیں

یہ ٹھٹہ پر فیروز شاہ کا دوسرا حملہ تھا۔ خود اس کا مصنف روایت بیان کرتے ہوئے تحریر کرتا ہے کہ 'اہلِ سندھ کا ایک گروہ بے حد قوت و ساز و سامان کے ہمراہ 70 کوس (180 کلومیٹر) تک راہ میں حائل تھا۔ جس کی وجہ سے اہلِ ہند دریا کو عبور نہیں کرسکتے تھے۔ بے حد غور کے بعد طے پایا کہ عماد الملک اور ظفر خان یہاں سے بکھر جائیں اور وہاں سے دہلی کا رخ کریں اور وہاں سے توانا فوج لائیں'۔

ان دونوں کو دہلی سے واپس آتے آتے یقیناً 8 ماہ لگ گئے ہوں گے۔ بادشاہ سلامت وہیں کھونٹا گاڑے بیٹھا رہا۔ اتنا وقت دریا کنارے بیٹھے رہنے سے ننگر ٹھٹہ کے انتظامی معاملات اور عام زندگی سخت متاثر ہوئی اور خوراک کا مسئلہ اب ٹھٹہ کے لوگوں کے لیے پیدا ہوا۔ بادشاہ کے سامنے بیٹھے رہنے اور دہلی سے نئی فوج لانے کا جو نفسیاتی دباؤ تھا اور ساتھ میں قحط کی وجہ سے ٹھٹہ کے لوگ ہمت ہارنے لگے۔

آخر اس تناؤ نے ذہنوں اور جسموں کو نچوڑ ڈالا اور بات وہاں پہنچی جہاں ہر جنگ کے خاتمے پر پہنچتی ہے۔ جام بابینو اور فیروز شاہ تغلق کے بیچ میں جنگ کی بجائے دونوں نے 'صلح' کو اہمیت دی اور اچ کے مخدوم جہانیاں سید جلال الدین بخاری نے یہاں آکر دونوں میں صلح کروائی اور مندرجہ ذیل شرطوں پر صلح ہوئی:

  • سمہ سردار لگان دیں گے۔
  • جام بابینو اور جام جونو دہلی جائیں گے اور شاہی دربار میں رہیں گے۔
  • ان کے دوسرے رشتہ دار اپنی حکومت قائم رکھیں گے اور سندھ کو دہلی سلطنت سے نہیں ملایا جائے گا۔

عفیف تحریر کرتا ہے کہ 'جب جام جونو اور بابینو بے حد سعی و کوشش کے ساتھ شاہی اطاعت گزار حلقے میں شامل ہوگئے اور ان کا خطرہ قطعاً زائل ہوگیا تو فیروز شاہ کے لشکر میں عام خوشی پیدا ہوگئی'۔

یہ یقیناً ہم سب کے لیے ایک لمبا اور تھکا دینے والا سفر تھا مگر اس صلح کے بعد تاریخ کا سفر رکا تو نہیں۔ مجھے نہیں پتا کہ سمہ سرداروں کا یہ خاندان دہلی کے جس محلے میں آباد ہوا اس کو 'سرائے ٹھٹہ' کے نام سے موسوم کیا گیا تھا یا وہ اس وقت دہلی کے کسی کونے میں موجود ہے بھی یا نہیں۔ مگر یہ نہ ان حقائق کا اختتام ہے، نہ فیروز شاہ تغلق کی زندگی کا اور نہ سمہ سرداروں کا دہلی میں رہنے کا۔

کچھ ہی وقت میں حالات نے پلٹا کھایا اور تاریخ کے ماہ و سال وقت کی نئی پگڈنڈیوں پر نکل پڑے کہ مکافاتِ عمل کا چرخہ کبھی سوت بنانا نہیں چھوڑتا کیونکہ اگر عمل اچھے ہیں تو چرخے سے بنے سوت سے خوبصورت پہناوا بھی تیار ہوتا ہے اور اس سوت سے رسی بھی بنتی ہے!


حوالہ جات:

۔ تاریخ فرشتہ۔ محمد قاسم فرشتہ۔ المیزان، ناشران و تاجران کتب، لاہور

۔ ’انشای ماھرو‘۔ پروفیسر شیخ عبدالرشید ۔ادارہ تحقیقات پاکستان، دانشگاہ پنجاب، لاہور

۔ تاریخ ہندوستان۔ مولوی ذکا اللہ۔ مطبع انسٹیٹیوٹ علی گڑھ

۔ منتخب التواریخ۔ عبدالقادر بدایونی۔شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور

۔ تاریخ فیروز شاہی۔ شمس سراج عفیف ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور

۔ نگری نگری پھرا مسافر۔ ابوبکر شیخ ۔ سنگ میل پبلیکیشنز، لاہور

۔ تاریخ گجرات۔ سید ابوظفر ندوی۔ ندوۃ المصنفین، اردو بازار، دہلی

۔ سمن جی سلطنت۔ ڈاکٹر غلام محمد لاکھو۔ سندھی ادبی بورڈ، حیدرآباد

۔ سندھ کتھا۔ محمد حسین پنہور۔ سندھیکا اکیڈمی، کراچی


ابوبکر شیخ آرکیولاجی اور ماحولیات پر لکھتے ہیں۔ انٹرنیشنل یونین فار کنزرویشن آف نیچر کے لیے فوٹوگرافی اور ریسرچ اسٹڈیز بھی کر چکے ہیں۔ ان کا ای میل ایڈریس [email protected] ہے۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دئے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔