ریگل چوک پر کیا کچھ بیتا؟ (دوسرا اور آخری حصہ)

ریگل چوک پر کیا کچھ بیتا؟ (دوسرا اور آخری حصہ)

اختر بلوچ


پہلا حصہ یہاں پڑھیے

کراچی یا سندھ کے کسی بھی شہر میں انسانی حقوق کی پامالی کا کوئی واقعہ ہو اور اس کے خلاف کوئی مظاہرہ کرنا ہو تو ایک شخصیت ایسی ہے جو موسمی حالات کی پرواہ کیے بغیر اپنی دھیمی مگر طاقتور آواز میں نعرے لگاتے ہوئے آپ کو نظر آئے گی۔ یہ کوئی اور نہیں مہناز رحمٰن ہیں جو انسانی حقوق کے حوالے سے جدوجہد کے لیے ایک بہت بڑا نام ہیں۔

ہمیں اس بات کا قطعاً اندازہ نہیں تھا کہ 60ء کی دہائی میں یونیورسٹی سے گھر جانے والی ایک نوجوان لڑکی صرف ایک مظاہرے کو دیکھنے کے لیے بس سے ریگل چوک اتری اور مظاہرہ دیکھ کر واپس گھر چلی گئی۔ لیکن اب ایسے احتجاجی مظاہرے ان کے لیے روزمرہ کا معمول بن چکے ہیں۔ مہناز رحمٰن نے ریگل چوک پر اپنے آنکھوں دیکھے واقعے کو یوں بیان کیا ہے:

’اب تو بہت برسوں سے پریس کلب کے باہر احتجاج اور مظاہروں کا رواج چل نکلا ہے، مگر اس سے پہلے کراچی کے سیاسی کارکنوں کے پاس احتجاج کے لیے ایک ہی جگہ ہوتی تھی۔ ریگل چوک یا ریگل بس اسٹاپ۔ 1975ء کے اواخر میں لالی (لالہ رخ حسین) اور میں 'پارٹی' کا کام کرکے بس میں کہیں سے آرہے تھے۔ جب ہماری بس ریگل اسٹاپ پر رُکی تو سامنے ایک سیاسی جلوس آرہا تھا، جس کی قیادت ایک دبلی پتلی لڑکی جس کے لمبے اور گھنے بال ایک موٹی سی چوٹی میں گندھے ہوئے تھے اور نعرے لگانے سے چہرہ سرخ ہوچکا تھا اور اس کے پیچھے چلنے والے سیاسی کارکن اس کے نعروں کا جواب دے رہے تھے۔ وہ لڑکی آصفہ رضوی تھی۔ لالی اور میرے لیے یہ ایک خوشگوار منظر تھا۔ 'چلو چلو بس سے اترو' ہم دونوں جلدی سے بس سے اتر گئے اور فٹ پاتھ پر کھڑے ہوکر جلوس کے دیکھنے لگے، اور جب اگلی بس آئی تو اس پر سوار ہوگئے‘۔

ریگل چوک
ریگل چوک

صحافی اور دانشور استاد علی احمد خان نے ریگل چوک کے حوالے سے اپنے تجربات کو ایک مخصوص محبت بھرے اور دھیمے لہجے میں بیان کیا ہے۔ ان کے مطابق:

’کسی کا شعر ہے یادِ ماضی عذاب ہے یا رب، چھین لے مجھ سے حافظہ میرا۔ فراقِ یار کی بات ہو تو یادِ ماضی یقینی عذاب ہے، لیکن بات اگر کسی خوشگوار واقعے کی ہو تو پھر یادِ ماضی ہر اس شخص کے لیے جائے پناہ بن جاتی ہے جس کا حال مشکلات کا شکار ہو۔ یہاں میں پی ایف یو جے کی تحریک سے متعلق ایک دلچسپ واقعے کا ذکر کرنا چاہتا ہوں جو 1977ء اور 1978ء کے دوران 2 مرحلوں میں چلائی گئی۔ پہلے اس کا مرکز لاہور تھا اور بعد میں کراچی۔ ان دونوں مرحلوں کی تفصیل احفاظ الرحمٰن کی کتاب 'سب سے بڑی جنگ' میں پڑھی جاسکتی ہے۔

’لاہور میں اپنے بہت سارے ساتھیوں کے ساتھ میں نے بھی گرفتاری پیش کی۔ مارشل لا عدالت سے سزا پانے اور کیمپ جیل لاہور، کوٹ لکھپت اور بہاولپور جیل سے کوئی دو ڈھائی مہینے بعد رہا ہوکر کراچی واپس پہنچ گیا۔ ابھی کچھ ہی دن گزرے تھے کہ تحریک کے پہلے مرحلے میں گرفتار ہونے والے سرکاری اخبارات کے بہت سے برطرف صحافیوں اور کارکنوں کی نوکریوں کی بحالی کے لیے تحریک شروع ہوگئی۔ اس تحریک کا مرکز جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ کراچی تھا، لہٰذا پورے ملک سے صحافی، اخباری کارکن، طلبہ اور مزدور یونینوں کے نمائندے اور سندھ کے مختلف علاقوں سے ہاری تنظیموں کے نمائندگان اس تحریک میں شریک تھے۔ شروع میں تو گرفتاریاں پریس کلب سے دی گئیں لیکن بعد میں عوام کی توجہ اپنے مطالبات کی طرف مبذول کرانے کے لیے ریگل چوک سے گرفتاریاں دی جانے لگیں اور پھر شہر کے مختلف علاقوں سے یعنی کبھی قائدِاعظم کے مزار سے تو کبھی ایمپریس مارکیٹ سے۔ برنا صاحب پہلے ہی گرفتار ہوچکے تھے، باقی پی ایف یو جے اور ایپنک کے جو قائدین تھے وہ روپوش تھے، ان کی ہدایات مختلف ذریعوں سے ہمیں ملتی رہتی تھیں۔

’دو ایک دن پہلے میں ڈان کی بلڈنگ میں موجود اقبال حیدر مرحوم کے دفتر میں تھا۔ معراج محمد خان کی اخباری کانفرنس میں بیٹھا ہوا تھا کہ کوئی دوڑتا ہوا آیا اور کہا کہ محمود شام کو ہیرالڈ ورکرز یونین کے کارکنوں نے گھیر لیا ہے۔ میں اور غلام نبی مغل دوڑتے ہوئے نیچے پہنچے تو دیکھا ایک ہال میں محمود شام ایک ٹیبل پر کھڑے ہیں اور ہیرالڈ ورکرز یونین کے صدر رشید چودھری اور کارکنوں نے ان کے گرد گھیرا ڈالا ہوا ہے۔ یہ دیکھتے ہی میں رشید چودھری پر جھپٹ پڑا، اس آپا دھاپی میں شام جی تو نکل لیے، اور میں رشید چودھری کو پکڑ کر کھینچتا ہوا ہال کے باہر لے آیا۔ ان کے کچھ ورکرز نے مجھ پر حملہ کردیا اور میری اچھی طرح پٹائی لگائی۔ چشمہ ٹوٹ گیا، ایک کان پر کسی کی چپل پڑی تو کان پھول گیا۔ اس پورے واقعے کی زاہد حسین تصویریں بناتے رہے، لیکن ہیرالڈ والوں کو پتا بھی نہیں چلا اور جب پتا چلا تو زاہد نکل چکے تھے۔

10 اگست 1978ء کو ریگل چوک پر فوجی آمر جنرل ضیا الحق کی جانب سے اخبارات اور صحافیوں کے خلاف کیے جانے والے بدترین کریک ڈاؤن کے خلاف پی ایف یو جے کی تاریخی تحریک کے دوران شفیع کلھوڑوی اور راجہ حسن اختر کو گرفتار کیا جا رہا ہے—سینئر فوٹوجرنلسٹ زاہد حسین
10 اگست 1978ء کو ریگل چوک پر فوجی آمر جنرل ضیا الحق کی جانب سے اخبارات اور صحافیوں کے خلاف کیے جانے والے بدترین کریک ڈاؤن کے خلاف پی ایف یو جے کی تاریخی تحریک کے دوران شفیع کلھوڑوی اور راجہ حسن اختر کو گرفتار کیا جا رہا ہے—سینئر فوٹوجرنلسٹ زاہد حسین

’بہرحال اس کے دوسرے یا تیسرے دن مجھے اطلاع ملی کہ الفتح کے دفتر میں بلایا جارہا ہے۔ میں وہاں پہنچا تو معلوم ہوا کہ آج مجھے ریگل چوک پر گرفتاری پیش کرنی ہے۔ میں اس اچانک فیصلے پر بڑا سٹپٹایا۔ میں نے کہا مجھے گھر والوں کو اطلاع تو کرنے دیں لیکن انہوں نے اس اچانک فیصلے کے اسباب بتاتے ہو ئے کہا آج صبح پولیس والے آپ کی تلاش میں آپ کے ہم نام علی احمد ٹھٹی کو اٹھا لے گئے ہیں اس کا مطلب ہے کہ پولیس آپ کی تلاش میں ہے تو بجائے گھر سے اٹھائے جائیں آج سہ پہر کو آپ ریگل چوک پر گرفتاری پیش کردیں۔ ناچار میں وہاں سے کسی کی موٹر سائکل پر پریس کلب پہنچا اور اوپر لائبریری میں ریگل چوک جانے کے انتظار میں ایک صوفے پر لیٹ گیا اور شام کو اپنے پھولے ہوئے کان اور دیگر چوٹوں اور اپنے دیگر 4 یا 5 ساتھیوں کے ساتھ گرفتاری پیش کردی‘۔

اب اپنے ٹھٹھی صاحب والے واقعے سے متعلق سنیے:

’ہوا یہ کہ میں اس زمانے میں روزنامہ سن سے وابستہ تھا۔ ہمارے بزنس منیجر علی احمد ٹھٹھی ہوا کرتے تھے اس سے پہلے وہ مارننگ نیوز میں تھے، جب سلطان احمد مارننگ نیوز سے سن میں آئے تو ٹھٹھی صاحب بھی سن کے بزنس منیجر بن کر آگئے۔ اتفاق سے ڈان میں میری پٹائی والے دن کسی نے سن کے دفتر سے ٹیلیفون پر میرا پتا وغیرہ معلوم کیا۔ جس نے ٹیلیفون اٹھایا اس نے سہواً یا قصداً میرا پتا بتانے کے بجائے علی احمد ٹھٹھی کا پتا بتادیا۔ دوسرے دن صبح تڑکے ٹھٹھی صاحب کے گھر پر پولیس نے چھاپا مارا اور انہیں گرفتار کرکے لے گئے۔ ٹھٹھی صاحب نے بڑا ہنگامہ کیا کہ وہ دبلہ ہے میں موٹا ہوں، میرا نام علی احمد ٹھٹھی ہے اس کا علی احمد خان، اس کا گھر ناظم آباد میں ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن پولیس ایسے معاملات میں بس حکم کی پابندی کرتی ہے‘۔

علی احمد خان مزید بتاتے ہیں کہ ’چنانچہ ٹھٹھی صاحب کو ڈنڈا ڈولی کرکے پولیس گاڑی میں بند کرکے تھانے لے جایا گیا جہاں حوالات میں ڈال دیا گیا۔ مجھے یہ یاد نہیں کہ کس تھانے میں ان کو رکھا گیا لیکن خیال ہے کہ انہیں فیروز آباد تھانے میں رکھا گیا ہوگا۔ یہ خیال اس لیے ہے کہ ان کی رہائش گاہ پی ای سی ایچ ایس میں ہی تھی۔ یہ خبر تو پھیل گئی تھی کہ ٹھٹھی صاحب گرفتار ہوگئے ہیں۔ سن تک بھی فوراً پہنچ گئی لیکن دفتر میں کوئی تھا ہی نہیں جو ان کی رہائی کی کوشش کرے اور پولیس والوں کو بتائے کہ انہوں نے علی احمد خان کے بجائے علی احمد ٹھٹھی کو گرفتار کرلیا ہے۔ بہرحال جب سلطان صاحب دفتر آئے تو انہیں یہ بات بتائی گئی، انہوں نے پھر ہوم سیکرٹری سے رابطہ کیا، اس زمانے میں سندھ کے ہوم سیکرٹری غالباً کنور ادریس تھے۔

’سلطان صاحب نے ان سے رابطہ کیا تو جناب اپنے ٹھٹھی صاحب کی گلو خلاصی ہوئی۔ اس واقعے کے بعد ٹھٹھی صاحب جب مجھ سے ملتے تو کہتے کہ بابا تم نے اگر کسی سے ادھار قرض لیا ہے تو بتادو ورنہ قرقی تمہارے نام آئے گی اور گھر ہمارا نیلام ہوگا۔ ٹھٹھی صاحب کا تعلق جنوبی ہندوستان سے تھا، پریس کلب میں کارڈ روم کے ممتاز اراکین میں ان کا شمار تھا اور اپنے دوستوں کے حلقے میں بڑے مقبول تھے‘۔

15 اگست 1978ء کو ریگل چوک پر فوجی آمر جنرل ضیا الحق کی جانب سے اخبارات اور صحافیوں کے خلاف کیے جانے والے بدترین کریک ڈاؤن کے خلاف پی ایف یو جے کی تاریخی تحریک کے دوران حسن سنگرامی و دیگر کو گرفتار کیا جا رہا ہے—سینئر فوٹوجرنلسٹ زاہد حسین
15 اگست 1978ء کو ریگل چوک پر فوجی آمر جنرل ضیا الحق کی جانب سے اخبارات اور صحافیوں کے خلاف کیے جانے والے بدترین کریک ڈاؤن کے خلاف پی ایف یو جے کی تاریخی تحریک کے دوران حسن سنگرامی و دیگر کو گرفتار کیا جا رہا ہے—سینئر فوٹوجرنلسٹ زاہد حسین

آئیے اب ذکر کرتے ہیں صحافیوں کی تحریک کا، کراچی میں جس کا آغاز کراچی پریس کلب میں ہوا تھا۔ اس وقت ایک نعرہ خاصا مشہور تھا 'کون بچائے گا پاکستان، طلبہ، مزدور اور کسان'۔ جس وقت صحافیوں کی تحریک کا آغاز ہوا اس وقت آمر جنرل ضیاء کی حکومت تھی۔ ضیاء اور اس کے حواریوں کا خیال تھا کہ یہ تحریک جلد ختم ہوجائے گی لیکن انہیں اس بات کا اندازہ نہیں تھا کہ تحریک اب صرف صحافیوں تک محدود نہیں تھی بلکہ اس میں مزدور، کسان اور طلبہ بھی شامل ہوچکے تھے۔ ممتاز صحافی مرحوم احفاظ الرحمٰن اپنی کتاب 'آزادی صحافت سب سے بڑی جنگ 78ء-1977ء' میں رقم طراز ہیں کہ:

'4 اگست کی شام کو کراچی پریس کلب میں اخباری صنعت کے کارکنوں، مزدوروں، ہاریوں اور طلبہ کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے جنگ ایمپلائیز یونین کراچی کے صدر، احمد علی علوی نے کہا، 'ہم نے چار دیواری کے اندر پُرامن تحریک جاری رکھی، مگر حکومتی ہٹ دھرمی کے باعث اس کا معقول نتیجہ برآمد نہیں ہوا، اس لیے آج یہاں ہماری اور آپ کی آخری ملاقات ہے۔ کل یہ تحریک سڑکوں پر ہوگی۔ آج پریس ورکرز کی جدوجہد میں مزدوروں، ہاریوں اور طلبہ کا گرم لہو شامل ہے، میں ان سے اپیل کروں گا کہ آگے بڑھیں اور اس کی قیادت کریں'۔

’تحریک کے چار دیواری سے باہر لانے کے فیصلے نے ہمارے ساتھیوں کو تو ولولے اور جوش سے بھردیا، مگر حکام کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ سی آئی ڈی والے اس روز بھی نوٹ بک تھامے پریس کلب کی دیوار سے کان لگائے کھڑے تھے۔ نئی خبر نے انہیں چوکنا کردیا۔ انہوں نے آپس میں تبادلہ خیال کیا اور فوراً وہاں سے روانہ ہوگئے۔ انہیں حکام کو اطلاع دینی تھی کہ صحافیوں نے حکمتِ عملی تبدیل کرلی ہے اور آخرکار وہ ہماری صفوں میں چھُپے ہوئے اپنے مخبروں کے ذریعے یہ معلوم کرنے میں کامیاب ہوگئے کہ اگلے دن مظاہرہ ریگل چوک پر ہوگا۔

’5 اگست کی شام کو ریگل چوک پر معمول کی سرگرمیاں یک دم تہہ و بالا ہوگئیں۔ کچھ دیوانے نعرے لگاتے نکلے۔ ہجوم میں بظاہر لاتعلق کھڑے ان کے ساتھی حرکت میں آئے۔ انہوں نے گرفتاری پیش کرنے والوں کے گلوں میں ہار ڈال دیے۔ قمیضوں میں چھپائے بینزر نکال لیے۔ ایک نے پمفلٹ بانٹنے کی ذمہ داری سنبھال لی۔ یہ دستہ 4 صحافیوں، ایک طالب علم اور ایک کسان پر مشتمل تھا۔ ان کے لبوں پر پُرجوش نعرے تھے۔ اگست کی نرم دھوپ ان کے ساتھ گنگنا رہی تھی۔ پشاہر کی ایکشن کمیٹی کے رکن، مشہور شاعر مرحوم جوہر میر کی آواز نمایاں تھی، سوز کے ساتھ عزم بھی تھا۔ ایک روشن کل کی امید تھی‘۔

شبیہ الحسن (یہ مرحوم نعیم آروی کا قلی نام تھا) نے پربھات (الفتح پبلی کیشنز) کے اگست 78ء کے شمارے میں اس منظر کو بڑے مؤثر انداز میں قلم بند کیا ہے:

'ریگل چوک سادہ وردی والوں سے پٹا پڑا ہے۔ ٹریفک کی آمد و رفت جاری ہے۔ وہی چہل پہل اور وہی رونقیں ہیں۔ خریداری بھی ہورہی ہے۔ ساتھ ساتھ تفریح بھی۔ متعدد شناسا چہرے نظر آتے ہیں۔ ہم کیفے جارج کے سامنے ذرا دیر کے لیے رکتے ہیں۔

’سی آئی ڈی کے 2 افراد کندھے سے کندھا ملائے کھڑے ہیں۔ پھر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ اخباری صنعت کے کارکن، مزدور، ہاری اور طالب علم کس جگہ خود کو گرفتاری کے لیے پیش کریں گے۔ اوڈین سنیما کے سامنے پولیس کی ایک بڑی وین کھڑی ہے۔ بک اسٹالوں کے قریب ایس پی، ڈی ایس پی اور پولیس کا جتھا شکار کی تلاش میں ہے۔ قریب ہی دائیں بازوں کے ایک اخبار کا کرائم رپورٹر کھڑا تھا، جس کے بارے میں مشہور تھا کہ مخبری کی علیحدہ سے فیس وصول کرتا ہے۔ یہ بات ہمارے لیے باعثِ حیرت تھی کہ وقت اور جگہ کا صحیح علم تو ہمیں بھی نہیں تھا، پھر اس کرائم رپورٹر کو کیسے ہوگیا۔

ریگل چوک
ریگل چوک

'ٹھیک سوا 5 بجے فریئر روڈ کی جانب سے ریگل اسٹاپ پہنچنے والی بس سے اخباری کارکن، مزدور، کسان اور طلبہ کے نمائندے اترے۔ ان کے ہاتھوں میں بینرز تھے، جن پر لکھا تھا: مہنگائی ختم کرو، اخباری کارکنوں کے 8 نکاتی مطالبات تسلیم کرو، پریس کو آزاد کرو، کارخانوں سے چھانٹی بند کرو، طلبہ کے مسائل حل کرو، کسانوں کی بے دخلیاں بند کرو۔ مظاہرین کو دیکھتے ہی پولیس اہلکار فوراً حرکت میں آئے۔ وہ جھاگ اڑاتے ہوئے دیوانوں کی سمت دوڑے۔ دیوانے اصولوں کی چٹان پر کھڑے تھے۔ بھاگنے کا ارادہ نہیں رکھتے تھے، مگر پولیس والوں کو دق کرنے کے آرزومند ضرور تھے۔ وہ ان کے بازوؤں سے پھسل کر پُرجوش نعرے لگارہے تھے۔ اردگرد موجود ساتھیوں نے ان کا ساتھ دیا۔ انہیں وین میں ڈال دیا گیا۔ گرفتار ہونے والوں نے وکٹری کا نشان بنا رکھا تھا۔

’جوہر میر اور کلیم درانی کھلی وین میں بھی بار بار کھڑے ہوکر نعرے لگارہے تھے اور جمِ غفیر ان کے نعروں کا جواب دے رہا تھا 'صحافی، طلبہ، مزدور، کسان اتحاد زندہ آباد' وین تو فراٹے بھرتی ہوئے وہاں سے چلی گئی، مگر ان کے نعرے تاحال فضا میں گونج رہے تھے۔ ریگل چوک میں توانائی دوڑ رہی تھی۔ جبر کچھ دیر کو ٹوٹا تھا۔ کچھ تازہ ہوا ماحول میں در آئی تھی۔ سانس لینے کا امکان پیدا ہوا تھا۔ لوگ تالیاں بجا رہے تھے۔ شبیہ الحسن کے الفاظ: 'لوگ حیران تھے کہ یہ کون سر پھرے ہیں، جو کھلے عام ظلم اور ناانصافی کے خلاف آواز بلند کرر ہے ہیں۔ یہ صحافی ہیں، پریس کے کارکن ہیں، مزدور ہیں، کسان ہیں، طلبہ ہیں۔ یہ لوگ ملک کا دل و دماغ ہیں، خون ہیں، جسم ہیں، ریڑھ کی ہڈی ہیں: کون بچائے گا پاکستان؛ طلبہ، مزدور اور کسان!'

اگلے روز گرفتاریاں پیش کرنے والوں میں 'الفتح' کے ایڈیٹر، وہاب صدیقی بھی شامل تھے۔ اس واقعے کی روداد اوروں کے علاوہ خود وہاب صدیقی نے بھی مجھے سنائی ہے، مگر مرحوم نعیم آروی کے قلم سے کھنچی تصویر اتنی شاندار ہے کہ بجائے کسی وسیلے کے کیوں نہ آپ براہِ راست اس منظر کا حصہ بن جائیں۔ نعیم آروی نے اپنے مضمون 'کون بچائے گا پاکستان' میں لکھا کہ:

'6 اگست کی صبح وہاب صدیقی سے ملاقات ہوئی۔ (دونوں الفتح میں ساتھ کام کرتے تھے) ہشاش بشاش، نکھرا نکھرا۔ کام کی زیادتی کی وجہ سے ہونٹوں کی جو مسکراہٹ مٹ چکی ہے، پوری آب و تاب سے چمک رہی تھی۔ نیلگوں کُرتا شلوار اور جیب میں ریڈ اینڈ وائٹ سگریٹ کے پیکٹ۔ اس نے دھواں اگلتے ہوئے کہا، کوٹا پورا! 'اچھا، تو آج کے ارادے کچھ نیک معلوم ہوتے ہیں۔ چلو، کچھ دن تو فرصت کے لمحات مل جائیں گے۔ واحد بھائی (واحد بشیر، سینئر صحافی اور ٹریڈ یونینسٹ) سارے بکھیڑوں سے نمٹتے رہیں گے۔ شام کے وقت ریگل چوک پر کافی رش تھا۔ کل کے واقعے کے بعد یہ خبر عام ہوچکی تھی کہ اخباری صنعت کے کارکن، طلبہ، مزدور اور ہاری اپنے مطالبات کی حمایت میں روزانہ گرفتاری پیش کریں گے۔ اس ہجوم میں طلبہ، مزدور، سیاسی کارکن اور عام لوگ شامل تھے۔

’خواتین پولیس نے بھی پورے علاقے میں اپنے کارندوں کا جال بچھا رکھا تھا۔ چپے چپے پر شلوار کرتے اور کندھے پر جھاڑن ڈالے خفیہ پولیس والے گھوم رہے تھے۔ عوام اور پولیس دونوں مجاہدین صحافت کے منتظر تھے، اپنے اپنے طور اور انداز سے۔ ریگل اسٹاپ پر جو بھی بس رکتی، پولیس والے اندر گھس کر مظاہرین کو تلاش کرتے۔ لیکن انہیں بڑی مایوسی ہوئی۔ پولیس کے اعلیٰ افسران اِدھر اُدھر بوکھلائے گھوم رہے تھے۔ شاید مخبری نہیں ہوسکی تھی کہ مجاہدین صحافت کس سمت سے آنے والے ہیں۔

’اچانک ایک جانب سے الفتح کے مدیر، وہاب صدیقی کی قیادت میں جھڈو میں نمائندہ 'عبرت' ہوت لغاری، سکھر میں نمائندہ 'ہلال پاکستان' غلام محمد جتوئی، 'مساوات' لاہور کے محمد عظیم، لیبر آرگنائزیشن کمیٹی کے ملک حق نواز اور سندھی ہاری کمیٹی کے یعقوب کھوڑو نمودار ہوئے۔ پولیس والے بڑے حیران ہوئے کہ یہ لوگ اچانک کہاں سے نکل آئے۔ سیٹیاں بجنے لگیں، پولیس گاڑیوں کے رخ تیزی سے تبدیل ہونے لگے۔ اس مرتبہ ہڑتالیوں کے سواگت کے لیے 2 بڑی گاڑیاں لائی گئی تھیں۔ ایک پرانی جگہ یعنی اوڈین سنیما کے بالمقابل تھی، دوسری فریئر روڈ پر تھی۔

کارکنوں کے گلے میں ہار پڑے تھے، اور ان کے ہاتھوں میں پلے کارڈز تھے جن پر ان کے مطالبات درج تھے: صحافیوں کے 8 نکاتی مطالبات پورے کرو، مہنگائی ختم کرو، مزدوروں کی چھانٹیاں اور برطرفیاں بند کرو، طلبہ کے مسائل حل کرو۔ پولیس کا پہلا ہلّہ بینروں اور پلے کارڈوں پر ہوا۔ انہیں چھیننے کے بعد مجرموں کی جانب متوجہ ہوئے۔ انہیں گرفتار کرکے گاڑیوں میں بٹھادیا گیا۔ اس دوران وہاں عوام کا زبردست ہجوم جمع ہوگیا، جو گرفتار کارکنوں کے نعروں کا بڑے جوش و خروش سے جواب دے رہا تھا۔ بھیڑ کی وجہ سے ٹریفک کی آمدورفت معطل ہوگئی۔ بسوں سے لوگ اتر کر کارکنوں کے ہجوم میں شامل ہوگئے‘۔

ریگل چوک
ریگل چوک

معروف ماہرِ تعلیم، دانشور اور کالم نگار ڈاکٹر توصیف احمد خان نے ریگل چوک کے حوالے سے بتایا کہ:

’80ء کی دہائی میں مارشل لا اپنے عروج پر تھا، بیگم بھٹو زیرِ حراست تھیں، ان کی رہائی کے لیے سیاسی کارکن مظاہرہ کرنا چاہتے تھے۔ ضیاء کے مارشل لا میں کراچی کے ریگل چوک یا کسی اور علاقے میں مظاہروں پر پابندی تھی۔ اگر سیاسی کارکن ریگل چوک یا کسی اور علاقے پر مظاہرہ کرتے تھے تو انہیں گرفتار کرلیا جاتا تھا اور اس کے بعد انہیں مارشل لا کورٹوں سے سزائیں دی جاتی تھیں۔ ایک دن ہم پریس کلب پر موجود تھے کہ ہمیں اطلاع ملی کہ ریگل چوک پر کوئی مظاہرہ ہونا ہے۔ ہم دیگر صحافیوں کے ہمراہ ریگل چوک پر پہنچے۔ کچھ دیر بعد ہم نے دیکھا کے 2، 3 گاڑیوں پر مشتمل ایک قافلہ وہاں آکر رکا۔ گاڑیوں سے جو خواتین اتریں ان کے حلیے اور لباس سے یہ صاف ظاہر تھا کہ ان کا تعلق طبقہ اشرافیہ سے ہے۔ انہوں نے گاڑیوں سے اتر کر بینر اور پلے کارڈز نکال کر مظاہرہ شروع کردیا۔ حسبِ روایت پولیس ڈنڈے لے کر انہیں منتشر کرنے کے لیے ان کی جانب بڑھی۔ اتنی دیر میں ایک پولیس افسر جو عہدے سے ڈی اسی پی لگ رہے تھے مظاہرین اور پولیس کے درمیاں آکر کھڑے ہوگئے اور چیخ کر پولیس اہلکاروں کو کہا کہ 'رک جاؤ، گورنر کی بہن مظاہرے میں شامل ہے'۔ پولیس نے مزید کارروائی روک دی اور یہ خواتین آدھے گھنٹے تک مظاہرہ کرتی رہیں اور اس کے بعد وہاں سے گورنر ہاؤس روانہ ہوگئیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ گورنر سندھ ایس ایم عباسی کی بہن اس مظاہرے میں شریک تھیں۔ ہمارے لیے یہ حیرت انگیز بات تھی کہ فوجی گورنر کی بہن نصرت بھٹو کے حق میں مظاہرہ کر رہی تھی‘۔

انہوں نے ایک دوسرا واقعہ کچھ یوں بتایا کہ ’وزیراعظم محمد خان جونیجو کے دور میں جلسے جلوسوں پر عائد پابندی ختم کردی گئی تھی اور یہ اعلان کیا گیا تھا کہ اب دفعہ 144 لاگو نہیں ہے اس لیے ہر شخص اپنی رائے کا آزادانہ اظہار کرسکتا ہے۔ مجھ سمیت کسی کو بھی اس کا یقین نہیں ہورہا تھا۔

’اس دور میں قومی اسمبلی میں ملک کا بجٹ پیش کیا جانا تھا۔ ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے کارکنوں نے یہ طے کیا کہ بجٹ میں تعلیم کے لیے مختص رقم حسبِ معمول کم ہوگی۔ اس کو یونیسکو کے مطابق 5 فیصد ہونا چاہیے۔ اس مطالبے کی منظوری کے لیے ریگل چوک پر بھوک ہڑتال کا فیصلہ کیا گیا۔ میں بھی وہاں موجود تھا۔ یہ ایک عام سی بات تھی کہ جیسے ہی بھوک ہڑتالی اپنے کیمپ پر بیٹھتے تو پولیس وہاں پہنچ جاتی اور انہیں گرفتار کرلیتی۔ اس دوران تصویریں بنتی اور خبر اگلے روز اخبارات میں شائع ہوجاتی، لیکن اس دن ہماری حیرت کی انتہا ہوگئی کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ ہم انتظار کرتے رہے کہ پولیس کب آئے گی، گرفتاریاں ہوں گی اور خبر بن جائے گی۔ انتظار کرتے کرتے صبح سے شام ہوگئی مگر پولیس تھی کہ آنے کا نام نہیں لے رہی تھی۔

’ہم سب لوگ مایوسی کا شکار تھے لیکن شام ڈھلے جب پولیس کی ایک وین بھوک ہڑتالی کیمپ کی طرف آتی نظر آئی تو ہماری امیدیں بر آئیں کہ بھوک ہڑتالیوں کو گرفتار ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ مجھ سمیت تمام ساتھیوں نے زور و شور سے نعرے بازی شروع کردی۔ اتنی دیر میں پولیس وین سے ایک موٹا سا آدمی اترا، اس کے ساتھ ایک پولیس کا سب انسپکٹر بھی تھا۔ اس نے ہمیں نعرے لگانے سے روک دیا۔ اب معاملات ہماری امید کے مطابق گرفتاری کی جانب جا رہے تھے۔ نعرے بند ہوگئے، اس موٹے شخص نے کہا کہ میں اس علاقے کا ایس ڈی ایم ہوں، آپ کو جب تک بھوک ہڑتال کرنی ہے آرام سے کریں، پریشانی کی کوئی بات نہیں، اور میرے ساتھ یہ جو سب انسپکٹر ہے، یہ علاقے کا انچارج ہے، آپ اس کا فون نمبر لے لیں اور اگر کوئی آپ کو تنگ کرے تو اسے بتائیں! اس کے بعد ہمیں یقین ہوگیا کہ جونیجو حکومت نے جو اعلان کیا تھا اس پر عمل درآمد بھی کرلیا ہے‘۔

ایم آر ڈی لیڈران غلام مصطفیٰ جتوئی اور معراج محمد خان کو ضیا آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے جاری احتجاجی مظاہرے کے دوران پولیس حراست میں لے رہی ہے — تصویر بشکریہ سینئر فوٹوجرنلسٹ زاہد حسین
ایم آر ڈی لیڈران غلام مصطفیٰ جتوئی اور معراج محمد خان کو ضیا آمریت کے خاتمے اور جمہوریت کی بحالی کے لیے جاری احتجاجی مظاہرے کے دوران پولیس حراست میں لے رہی ہے — تصویر بشکریہ سینئر فوٹوجرنلسٹ زاہد حسین

ہمارے سینئر صحافی دوست شاہد حسین نے ریگل چوک پر ہونے والے مظاہروں کے بارے میں بتایا کہ ایوب خان کے دور میں ایک نعرہ ریگل چوک کے حوالے سے بہت مقبول ہوا تھا کہ: 'بات ہوگئی ہے، بات ہوگئی ہے'۔

انہوں نے اس نعرے کا پس منظر یہ بتایا کہ ’اس دور میں ایک طالب علم رہنما جو بعد میں وفاقی وزیر اور سینیٹر بھی بنے۔ ان کے لیے مشہور تھا کہ وہ ریگل چوک پر ہونے والے مظاہروں کی اطلاع پولیس کو کردیتے تھے جس کی وجہ سے اکثر مظاہرے ہونے سے پہلے ہی مظاہرین کو گھروں سے اٹھا لیا جاتا تھا۔ بلکہ یہاں تک مشہور تھا کہ ان کے اہل خانہ اپنے رشتہ داروں کو فخریہ بتاتے تھے کہ ان کے بیٹے کی 'خفیہ' میں نوکری لگی ہے۔ یہ بات بہت مشہور ہوگئی، وہ جہاں بھی جاتے لوگ سرگوشیوں میں کہتے 'خفیہ' والا آگیا۔ اس تاثر کو زائل کرنے کے لیے انہوں نے اچانک اعلان کیا کہ وہ طلبہ حقوق کی حمایت میں ریگل چوک پر مظاہرہ کریں گے۔

’یہ بات بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے رہنماؤں کے لیے ہی نہیں بلکہ طالب علموں کے لیے بھی حیرت انگیز تھی۔ اکثر و بیشتر طلبہ مظاہرہ دیکھنے کے لیے ریگل چوک پہنچ گئے۔ اچانک سہراب کٹرک روڈ جہاں اب پرانی کتابوں کی مارکیٹ لگتی ہے وہاں سے 20 سے 25 لوگ اس رہنما کی قیادت میں ریگل چوک پہنچے۔ وہ اپنی وضع قطع اور حلیے سے طالب علم نہیں لگ رہے تھے۔ بہرحال جب وہ چوک پر پہنچے تو ان کے ہاتھوں میں بینر اور پلے کارڈز تھے جن پر طلبہ حقوق کی حمایت میں نعرے درج تھے لیکن حیرت انگیز طور پر مجمع نعرے نہیں لگا رہا تھا۔ پولیس مظاہرین کی جانب لپکی اور زور و شور سے لاٹھی چارج شروع کردیا۔ اس دوران قیادت کرنے والا رہنما پولیس افسر کی جانب بڑھا اور بلند آواز میں کہا 'بات ہوگئی ہے' بس ان کا یہ نعرہ لگانے کی دیر تھی کہ ان کے تمام ساتھی بلند آواز سے نعرے کا جواب دینے لگے 'بات ہوگئی ہے، بات ہوگئی ہے!' اب یہ وہاں موجود لوگوں کے لیے ایک عجیب و غریب نعرہ تھا کہ 'بات ہوگئی ہے'۔

’مذکورہ رہنما دوبارہ پولیس افسر کی جانب بڑھا اور انہیں آنکھ مارتے ہوئے زور سے کہا کہ 'بات ہوگئی ہے'۔ پولیس افسر نے ایک زوردار تھپڑ ان کے منہ پر رسید کرتے ہوئے بلند آواز میں کہا 'کیا، بات ہوگئی ہے؟' مظاہرین کے کانوں میں صرف یہ آواز پہنچی کہ 'کیا بات ہوئی ہے'۔ انہوں نے دوبارہ زور و شور سے نعرہ بلند کیا کہ 'کیا بات ہوئی ہے'، جواب میں 'بات ہوگئی ہے، بات ہوگئی ہے'۔ پولیس مظاہرین کو گرفتار کرکے تھانے لے گئی۔ بعد میں معلوم ہوا کہ اس طالب علم رہنما نے مظاہرے سے قبل علاقے کے ڈی ایس پی سے بات کرلی تھی کہ وہ اس طرح کا ایک مظاہرہ کریں گے، اور پولیس ہلکا سا لاٹھی چارج کرنے کے بعد انہیں گرفتار کرکے چھوڑ دے گی، یوں اس طرح خبر بھی بن جائے گی اور ان کے بارے میں پولیس کے مخبر ہونے کا جو تاثر ہے وہ بھی زائل ہوجائے گا۔ اب بدقسمتی یہ ہوئی کہ جس دن مظاہرہ ہونا تھا اور جس ڈی ایس پی سے بات ہوئی تھی اس کا اسی دن تبادلہ ہوگیا تھا اور اس نے نئے ڈی ایس پی کو یہ بتایا ہی نہیں کہ آج ریگل پر ہونے والے مظاہرے کے بارے میں 'بات ہوگئی ہے'‘۔

ریگل چوک ایک ایسی اولاد کی طرح ہے جسے اس کے ماں باپ نے ایک طویل ریاضت کے بعد پال پوس کر بڑا کیا ہو۔ اس کی تعلیم و توجہ میں کوئی کسر نہ چھوڑی ہو۔ ریگل چوک کے والدین، اساتذہ اور استادوں میں بڑی بڑی سیاسی پارٹیوں، ان کے رہنماؤں اور قائدین کا کردار ہے۔ یہ سب ریگل چوک سے بہت پیار کرتے تھے اور اس کو اپنی اولاد سمجھتے تھے، لیکن وقت گزرتا گیا اور ریگل چوک پر موجود ایرانی ہوٹل بھی بند ہوگیا، جہاں مظاہروں کے بعد سیاسی کارکن چائے پینے کے بہانے پناہ لیتے تھے یا یہاں پر موجود سینماؤں کے پوسٹرز دیکھنے کے بہانے گرفتاری سے بچ جایا کرتے تھے۔ اب ایسا کچھ بھی نہیں ہے۔ میں جب بھی ریگل چوک سے گزرتا ہوں تو میرے کانوں میں یہ آواز آتی ہے کہ کراچی والوں نے میرے ساتھ ایسا کیوں کیا؟


اختر بلوچ سینیئر صحافی، لکھاری، اور محقق ہیں۔ وہ ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے کونسل ممبر ہیں۔ وہ سوشیالوجی پر کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔


ڈان میڈیا گروپ کا لکھاری اور نیچے دیے گئے کمنٹس سے متّفق ہونا ضروری نہیں۔