’خدشہ ہے کہ سیاح اس وائرس کو اپنے شہروں تک پھیلا سکتے ہیں‘

12 ستمبر 2020
سیاحوں کو لے جانے والی کم از کم 150 گاڑیاں روزانہ ایسے 95 فیصد سیاحوں کے ساتھ اس خطے میں داخل ہوتی ہیں جو اپنے ساتھ کورونا ٹیسٹ کے نتائج نہیں لاتے ہیں—فوٹو: نوید خان
سیاحوں کو لے جانے والی کم از کم 150 گاڑیاں روزانہ ایسے 95 فیصد سیاحوں کے ساتھ اس خطے میں داخل ہوتی ہیں جو اپنے ساتھ کورونا ٹیسٹ کے نتائج نہیں لاتے ہیں—فوٹو: نوید خان

کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن کی ایک استاد مونا خان کے لیے گلگت بلتستان کی سیر کے لیے 6 دن کی چھٹی لینا ایک شعوری لیکن ‘مشکل فیصلہ’ تھا کیونکہ اس کا مطلب تھا کہ وہ ‘مقامی لوگوں کو کورونا وائرس سے متاثر کرسکتی ہیں’۔

اس موسمِ گرما میں قریب 2 لاکھ افراد نے گلگت بلتستان کا سفر کیا اور بہت سے دیگر افراد صوبہ خیبر پختونخوا گئے ہیں۔ کورونا کے کیسز میں کافی حد تک کمی آنے کے بعد حکومت نے 8 اگست کو سیاحت سمیت مختلف شعبوں کو باضابطہ طور پر دوبارہ کھول دیا۔ لیکن سیاحت کے لیے گرین سگنل ملنے کے بعد کورونا سے متعلق پروٹوکول کا ناقص نفاذ نمایاں نظر آرہا ہے، اور پہلے ہی سے مخدوش ہیلتھ کیئر کے نظام پر سنگین مضمرات کا پیش خیمہ ہوسکتا ہے۔

سیاحت کی بحالی

جب حکومت نے سیاحت کو ‘کنٹرول’ انداز میں دوبارہ شروع کرنے کا اعلان کیا تو خیال یہ تھا کہ شروعات نسبتاً کم رابطے یا کم بھیڑ والے کاروبار سے ہوگی، جیسے کوہِ پیمائی، ٹریکنگ، پیرا گلائیڈنگ اور راک کلائمبنگ جیسی سرگرمیوں سے۔ یہ فیصلہ بنیادی طور پر سیاحت کی صنعت سے بالواسطہ یا بلاواسطہ منسلک لوگوں کے موسمی کاروبار کو بحال کرنے کے لیے لیا گیا تھا۔ اگر صرف پختونخوا کی بات کی جائے تو وہاں کم و بیش 10 لاکھ افراد کا روزگار اسی صنعت سے وابستہ ہے۔

مزید پڑھیے: ’کوئی احتیاط نہیں کررہا،شاید ہم اپنا سفر مکمل کیے بغیر ہی لوٹ جائیں‘

نیشنل ٹؤرازم کؤآرڈینیشن بورڈ کے تحت قائم کردہ ‘ٹؤرازم ریکوری کمیٹی’ کے چیئرمین آفتاب رانا نے کہا کہ یہ درست سمت میں ایک قدم تھا کیونکہ پاکستان نے ‘زاویہ برابر’ کردیا تھا اور اس کے ساتھ ہی مسلسل کم تعداد میں نئے کیسز کی اطلاع مل رہی تھی۔ ملک بھر میں روزانہ نئے انفیکشن کی سرکاری تعداد 7 اگست کو 842 سے کم ہوکر 24 اگست تک 450 ہوگئی۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘گلگت بلتستان کی حکومت نے علاقہ کھولنے کا جو فیصلہ لیا ہے اس سے یقینی طور پر آبادی کے معاشی مسائل کو کم کرنے میں مدد ملے گی کیونکہ سیاحت ہی ان کی معاش کا واحد ذریعہ ہے۔ گلگت بلتستان کے دیہی علاقوں میں لوگ اگرچہ تھوڑی بہت کھیتی باڑی یا کاشتکاری کرسکتے ہیں اور مویشی بھی پال سکتے ہیں، لیکن بڑھتی آبادی کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے یہ کافی نہیں ہے’۔

قواعد کا ناقص نفاذ

صوبے میں سیاحت کے ڈائریکٹر اقبال حسین نے تھرڈ پول کو بتایا کہ ‘اس سال گلگت بلتستان میں متمول سیاحوں کی آمد زیادہ ہوئی ہے جو عام طور پر موسمِ گرما کی تعطیلات کے لیے بیرونِ ملک جاتے تھے’۔

مونا خان نے کہا کہ انہوں نے ‘ذمہ داری سے’ سفر کیا اور حکومت کے تیار کردہ معیاری آپریٹنگ طریقہ کار (ایس او پیز) کی پاسداری کی۔

سیاحوں کے لیے گلگت بلتستان میں داخلے کے ضوابط میں کورونا ٹیسٹ کے منفی نتائج کا ثبوت، تصدیق شدہ ہوٹل کی بکنگ اور سفری تفصیلات شامل ہیں تاکہ ٹریسنگ کو سہل بنایا جاسکے۔ قواعد میں کہا گیا ہے کہ تمام داخلی مقامات پر مسافروں کی اسکریننگ اور اندراج کروائی جائے اور مشتبہ مریضوں کو فوری طور پر ان کے اپنے خرچ پر قرنطین کیا جائے۔

رہائش کے لیے صرف زیادہ گنجائش والے ہوٹلوں کو کام کرنے کی منظوری دی گئی ہے اور چھوٹے یعنی ایک یا 2 بیڈروم والے گیسٹ ہاؤسز کو شامل نہیں کیا گیا۔ ایک کمرے میں زیادہ سے زیادہ 2 مہمانوں کی اجازت ہے اور ہوٹل کے عملے اور مہمانوں کو عوامی مقامات پر ہر وقت ماسک پہننا لازم ہے۔

خان نے کہا کہ ‘ہم (خان اور اس کی بہن) نے سفر کرنے سے پہلے کورونا کا ٹیسٹ کروایا تھا جبکہ ماسک ہمیشہ پہنا کرتے تھے۔ ساتھ ساتھ اپنے ہاتھ بھی کثرت سےصاف کرتے تھے اور ہم کسی جگہ پر بیٹھتے تو بیٹھنے سے پہلے اور اٹھنے کے بعد جگہ کو ضرور جراثیم کش سے صاف کرتے’۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ‘بھیڑ سے بچنے کے لیے انہوں نے ایسی جگہوں کا انتخاب کیا جہاں لوگ کم جاتے تھے’۔ انہوں نے واپسی کے بعد 14 دن تک خود کو قرنطینہ میں بھی رکھا تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ اگر وہ وائرس ساتھ لائی ہیں تو دوسروں کو متاثر نہ کرسکیں۔

مزید پڑھیے: پاکستان میں سیاحت کی بحالی کا فیصلہ ٹھیک ہے؟

لیکن بہت سے لوگ اپنے سفر کے دوران حکومت کی جانب سے لاگو ایس او پیز کو نظر انداز کر رہے ہیں۔ مونا خان نے کہا کہ انہوں نے گلگت بلتستان میں سیاحوں اور مقامی لوگوں کو سماجی فاصلے، ماسک پہننے اور صفائی ستھرائی کے بنیادی اصولوں کو نظر انداز کرتے دیکھا، اور جن 4 ہوٹلوں میں انہوں نے قیام کیا وہاں کے منتظمین نے کورونا کے ٹیسٹ سے متعلق پوچھا تو ضرور، لیکن کہیں بھی ان سے یہ نہیں کہا گیا کہ اپنی ٹیسٹ رپورٹس ہوٹل عملے کو دکھائیں۔

ایک خاتون جو اپنے شوہر اور 3 بچوں کے ساتھ لاہور سے گلگت بلتستان تک سفر کررہی تھیں، انہوں نے بتایا کہ ان میں سے کسی کا بھی ٹیسٹ نہیں کروایا گیا تھا۔ ‘میں ٹیسٹ کے لیے فی کس 6 ہزار روپے (تقریباً 36 امریکی ڈالر) ادا کرنے کو تیار نہیں تھی۔ ہمارے پاس ڈاکٹر کا سرٹیفکیٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ہم سب ٹھیک ہیں اور کسی میں کورونا وائرس کی علامات نہیں ہیں’۔

25 سال سے بطور ٹؤر آپریٹر کام کرنے والے نیک نام کریم نے کہا کہ کورونا کے پھیلتے خوف نے انہیں رواں سال اپنی ٹریول ایجنسی ایڈونچر ٹؤرز پاکستان شروع کرنے سے روک دیا۔ انہوں نے تھرڈ پول کو بتایا کہ ‘گلگت بلتستان آنے والے سیاح ممکنہ طور پر اپنے متعلقہ شہروں میں وائرس کے ساتھ واپس جائیں گے کیونکہ مقامی افراد کسی بھی ایس او پیز کی پیروی نہیں کر رہے ہیں اور نہ ہی علامات ہونے پر ان کی جانچ کی جا رہی ہے’۔

گلگت کے ضلعی ہیلتھ افسر عبدالمبین نے کہا کہ مقامی لوگ اس یقین کے تحت فاصلاتی پروٹوکول پر عمل نہیں کررہے ہیں کہ ‘اللہ ان کی حفاظت کرے گا’۔

عبدالمبین نے ایک ایسی پیشرفت شیئر کی جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایس او پیز کو کتنے ناقص طریقہ سے نافذ کیا جارہا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ‘2 ہفتے پہلے گلگت کے ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں قیام پذیر 23 افراد کا ٹیسٹ کیا گیا تھا جن میں سے 2 مثبت تھے۔ ایک اور شہر چلاس میں مزید 6 افراد کے ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آیا۔ لیکن جب تک ان کی رپورٹس آئیں، ان میں سے کوئی بھی اس شہر میں نہیں تھا جہاں ان کا ٹیسٹ کیا گیا تھا۔ گلگت کے ہوٹل میں قیام کرنے والے 2 افراد کو مطلع کیا گیا تھا لیکن باقی 6 افراد کا پتہ نہیں چل سکا کیونکہ یا تو انہوں نے ہمیں غلط فون نمبر دیے تھے یا ایسے علاقوں میں تھے جہاں فون سگنل کمزور تھے’۔

کیسز عروج پر ہیں

نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کے دیے گئے اعداد و شمار نے بتایا کہ گلگت بلتستان میں 30 جولائی کو کورونا وائرس سے متعلق اموات کی تعداد 3 تھی، جبکہ 25 اگست کو یہ تعداد 65 تک پہنچ گئی۔ جانچ ابھی بھی کم ہے، جس میں یومیہ 300 سے زیادہ ٹیسٹ نہیں کیے جاتے ہیں اور یہ سب حکومت کے زیرِ انتظام لیبز کے ذریعہ ہوتے ہیں۔

خطے میں سیاحت کھولنے کے مخالف سابق وزیرِ اعلیٰ حفیظ الرحمن نے کہا کہ ’انہیں حیرت نہیں ہے کہ ایس او پیز کو گلگت بلتستان میں داخل ہونے والے سیاحوں کی آمد پر ‘یکسر نظر انداز کردیا گیا ہے’۔

این سی او سی کے مطابق 7 اگست کو (گلگت بلتستان میں سیاحت دوبارہ کھولے جانے سے پہلے) 2 ہزار 301 انفیکشن ریکارڈ ہوئے جو 25 اگست کو 2 ہزار 720 تک پہنچ گئے یعنی 18 دن میں 18 فیصد اضافہ۔

گلگت بلتستان میں کورونا وائرس سے متعلق فوکل پرسن شاہ زمان نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ اگر ایس او پیز کو نافذ نہ کیا گیا تو خطے میں کورونا کے کیسز ‘قابو سے باہر’ ہوسکتے ہیں کیونکہ اس علاقے میں صحت کی سہولیات محدود ہیں۔

ڈان کی ایک خبر میں ان کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ ‘سیاحوں کو لے جانے والی کم از کم 150 گاڑیاں روزانہ ایسے 95 فیصد سیاحوں کے ساتھ اس خطے میں داخل ہوتی ہیں جو اپنے ساتھ کورونا ٹیسٹ کے نتائج نہیں لاتے ہیں۔

تھرڈ پول نے اس سے قبل گلگت بلتستان کے صحت کے ناقص انفرااسٹرکچر پر رپورٹ پیش کی تھی۔ پاکستان جرنل آف پبلک ہیلتھ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ ’گلگت بلتستان میں ڈاکٹر سے آبادی کا تناسب تشویشناک طور پر غیر متناسب یعنی 4100 افراد پر ایک ڈاکٹر ہے جبکہ قومی شماریات میں یہ 1206 افراد پر ایک ڈاکٹر کی اوسط ہے۔ یہ شماریاتی ثبوت اس حقیقت کی گواہی دیتے ہیں کہ گلگت بلتستان میں صحت کی دیکھ بھال پریشان کن حالت میں ہے’۔

مزید پڑھیے: سیاحت کھلنے کے امکانات، خدشات اور احتیاطی تدابیر

آفتاب رانا نے کہا کہ ایس او پیز کی سخت تعمیل کو یقینی بنانے کی ذمہ داری ضلعی انتظامیہ پر عائد ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘انتظامیہ نے حال ہی میں سیاحوں کی پولیس تشکیل دی ہے (جس میں 37 گشت والی گاڑیاں اور 24 موٹر بائیکس ہیں)۔ اس فورس کو چاہیے کہ ایس او پیز کی عدم تعمیل پر جرمانے عائد کرے’۔

انتظامیہ نے حال ہی میں سیاحوں کی پولیس تشکیل دی ہے (جس میں 37 گشت والی گاڑیاں اور 24 موٹر بائیکس ہیں)—فوٹو: آفتاب رانا
انتظامیہ نے حال ہی میں سیاحوں کی پولیس تشکیل دی ہے (جس میں 37 گشت والی گاڑیاں اور 24 موٹر بائیکس ہیں)—فوٹو: آفتاب رانا

انہوں نے اعتراف کیا کہ بلتستان کے 10 اضلاع میں کی جانے والی اسکریننگ ‘کافی نہیں’ تھی اور وہ تھرمل گنوں سے درجہ حرارت کی جانچ کرنے یا قومی شناختی کارڈ نمبر نوٹ کرنے تک ہی محدود رہی۔

انہوں نے مزید کہا کہ ‘ہم سیاحوں کو اپنی ذمہ داریوں سے آگاہ کرتے ہوئے ایس او پیز کی سختی سے پیروی کرنے کے بارے میں سیاحت کی سروسز فراہم کرنے والوں اور ہوٹلوں کی صلاحیتوں کو بڑھا کر محفوظ طریقے سے سیاحت کا دوبارہ آغاز کرسکتے ہیں۔ مزید یہ کہ ہمیں ایس او پیز کی خلاف ورزی کرنے پر بھاری جرمانے لگانے کے لیے ایک سخت ریگولیٹری طریقہ کار کی ضرورت ہے، اور یہی واحد حل ہے’۔


یہ مضمون ابتدائی طور پر دی تھرڈ پول پر شائع ہوا، جسے بہ اجازت یہاں شائع کیا گیا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں