ہواوے نے اعلان کیا ہے کہ وہ اپنے تیار کردہ ہارمونی آپریٹنگ سسٹم سے لیس اسمارٹ فونز 2021 میں متعارف کرانے والی ہے۔

چینی کمپنی کی جانب سے یہ اعلان گزشتہ دنوں سالانہ ڈویلپر کانفرنس میں کیا گیا۔

ہارمونی او ایس سے لیس فونز کی تیاری ہواوے موبائل سروسز سے مشروط ہے، یعنی کمپنی کتنی بڑی تعداد میں ایپس کو اپنی ایپ گیلری کا حصہ بناپاتی ہے۔

خیال رہے کہ ہواوے موبائل سروسز امریکی پابندیوں کے باعث گوگل پلے سروسز تک رسائی ختم ہونے پر متعارف کرائی گئی تھیں۔

اب تک ہواوے ایپ گیلری میں 96 ہزار ایپس کو شامل کیا جاچکا ہے جو جولائی میں 81 ہزار اور مارچ میں 60 ہزار تھی۔

اس کے مقابلے میں گوگل پلے اور ایپل ایپ اسٹور میں ایپس کی تعداد لاکھوں میں ہے۔

اپنے ایکوسسٹم میں مزید ایپس کو لانے کے لیے ہواوے نے ہارمونی او ایس 2. کے بیٹا ورژن کا اعلان کیا ہے جو موبائل ڈویلپرز کے لیے رواں سال کے آخر تک متعارف ہوگا۔

اس سے یہ بھی عندیہ ملتا ہے کہ فی الحال ہواوے فونز پر اینڈرائیڈ آپریٹنگ سسٹم کا ہی استعمال ہوگا۔

ہواوے کے نئے یوزر انٹرفیس ای ایم یو آئی 11 کو بھی ڈویلپر کانفرنس میں متعارف کرایا گیا، جو اینڈرائیڈ پر ہی کام کرے گا مگر اس اینڈرائیڈ 11 کی جگہ اینڈرائیڈ 10 کو زیادہ ترجیح دی گئی۔

خیال رہے کہ ہواوے کو گزشتہ سال امریکا نے بلیک لسٹ کرتے ہوئے گوگل سمیت امریکی کمپنیوں کی ٹیکنالوجی سے رسائی تک روک دیا تھا، جس کے بعد ہواوے کی جانب سے اینڈرائیڈ ایپ ایکوسسٹم کے متبادل کو تشکیل دیا گیا۔

ہارمونی او ایس 2.0 کو پہلے ٹیبلیٹس، کار سسٹمز اور اسمارٹ واچز کا حصہ بنایا جائے گا۔

ہواوے کا آپریٹنگ سسٹم اس وقت 49 کروڑ افراد تک مختلف ہارڈ ویئر ڈیوائسز کے ذریعے پہنچ چکا ہے اور اب وہ اس بڑھانا چاہتا ہے۔

اس مقصد کے لیے ہواوے نے چین میں کئی ہوم اپلائنسز تیار کرنے والی کمپنیوں سے معاہدے بھی کیے ہیں جن میں گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں قابل ذکر ہیں۔

ہواوے اسمارٹ واچز رواں سال کی پہلی سہ ماہی میں مارکیٹ کے 8.3 شیئر رکھتی تھیں جو کہ گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 2.8 فیصد زیادہ ہے۔

ہواوے نے رواں سال کے اولین 6 ماہ کے دوران 105 ملین اسمارٹ فونز فروخت کیے یہ تعداد گزشتہ سال کے اسی عرصے میں 118 ملین تھی۔

امریکی پابندیوں اور کورونا وائرس کی وبا کے نتیجے میں اسمارٹ فونز کی فروخت کا اثر ہواوے ڈیوائسز پر ہوا ہے۔

تاہم کمپنی کی آمدنی اس عرعصے میں 255 ارب چینی یوآن رہی جو کہ گزشتہ سال کے اس عرصے میں 220 ارب یوآن تھی۔

تبصرے (0) بند ہیں