بھارت: 'نفرت انگیز' مواد نہ ہٹانے پر فیس بک کے سربراہ طلب

اپ ڈیٹ 13 ستمبر 2020
بھارت میں فیس بک کے سربراہ اجیت موہن کو 15 ستمبر تک پیش ہونے کا حکم دے دیا گیا—فوٹو: اے این آئی
بھارت میں فیس بک کے سربراہ اجیت موہن کو 15 ستمبر تک پیش ہونے کا حکم دے دیا گیا—فوٹو: اے این آئی

بھارت میں 'نفرت انگیز' مواد کو نہ ہٹائے جانے یا نفرت انگیز مواد شیئر کرنے والے افراد کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر نئی دہلی کی اسمبلی کی خصوصی کمیٹی نے فیس بک کے مقامی سربراہ کو طلب کرلیا۔

بھارتی دارالحکومت نئی دہلی کی امن اور ہم آہنگی سے متعلق کمیٹی نے بھارت میں فیس بک کے بانی کو ایسے وقت میں طلب کیا ہے جب کہ حال ہی میں فیس بک پر بھارت میں نفرت انگیز مواد نہ ہٹائے جانے پر سخت تنقید کا سلسلہ شروع ہوا تھا۔

فیس بک پر گزشتہ ماہ اس وقت تنقید میں اضافہ ہوا جب امریکی اخبار وال اسٹریٹ جنرل نے اپنی رپورٹ میں بتایا تھا کہ کاروباری مقاصد کے لیے فیس بک حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن راجا سنگھ کے نفرت انگیز بیان کو ہٹانے سے گریزاں ہے۔

رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ فیس بک کے مواد کی نگرانی کرنے والے ملازمین نے اخذ کیا تھا کہ مارچ 2020 تک راجا سنگھ نے آن لائن اور آف لائن مسلمانوں اور روہنگیا تارکین وطن کے خلاف ویب سائٹ پر نہ صرف نفرت انگیز تقاریر کے اصولوں کی خلاف ورزی کی بلکہ وہ مسلمانوں کے خلاف عالمی تشدد پر اکسانے کے سلسلے میں اپنے الفاظ کے انتخاب پر خطرناک کیٹیگری میں شامل ہوئے، تاہم اس کے باوجود فیس بک انتظامیہ نے ان پر پابندی نہیں لگائی۔

یہ بھی پڑٖھیں: کاروباری مفادات، فیس بک بی جے پی کے خلاف کارروائی سے گریزاں

ساتھ ہی فیس بک پر مزید تین انتہاپسند قوم پرست ہندو رہنماؤں کے نفرت انگیز مواد کو نہ ہٹائے جانے پر بھی تنقید کا سامنا تھا۔

شدید تنقید کے بعد رواں ماہ 4 ستمبر کو فیس بک نے نفرت انگیز اور مسلم مخالف مواد پھیلانے والے ریاست تلنگانہ کے رکن اسمبلی راجا سنگھ پر پابندی بھی عائد کی تھی تاہم اس کے باوجود فیس بک پر سخت تنقید جاری تھی۔

فیس بک پر سخت تنقید کی وجہ سے ہی اب نئی دہلی اسمبلی کی امن اور ہم آہنگی سے متعلق ذیلی کمیٹی نے بھارت میں فیس بک کے سربراہ اجیت موہن کو طلب کرلیا۔

خبر رساں ادارے ایجنسی فرانس پریس (اے ایف پی) نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ خصوصی ذیلی کمیٹی نے فیس بک کے کنٹری سربراہ کو 15 ستمبر سے قبل پیش ہونے کے لیے سمن جاری کردیا۔

کمیٹی نے 12 ستمبر کو فیس بک کے بھارت کے سربراہ کو سمن جاری کیا، ساتھ ہی کمیٹی کے کچھ ارکان نے اس بات کا بھی مطالبہ کیا کہ رواں برس کے آغاز میں نئی دہلی میں ہونے والے نسلی فسادات کے دوران بھی فیس بک پر پھیلنے والے مواد کی تفتیش کی جائے۔

کمیٹی نے بھارت میں فیس بک کے سربراہ کو اس وقت مؤقف دینے کے لیے طلب کیا جب حال ہی میں امریکا کے ایک انسانی حقوق کے گروہ نے بھارت میں فیس بک پر نفرت انگیز مواد کے پھیلاؤ کے خلاف کارروائی نہ کرنے پر تفتیش کا اظہار کیا تھا۔

مزید پڑٖھیں: فیس بک: 'نفرت انگیز بیان' پر بی جے پی رہنما پر پابندی

اگرچہ اب فیس بک نے نفرت انگیز مواد پھیلانے والے راجا سنگھ پر پابندی عائد کردی ہے تاہم اس کے باوجود فیس بک سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ بھارت میں 'پالیسی ہیڈ' انکھی داس کو ہٹایا جائے، جنہوں نے مبینہ طور پر بھارت میں نفرت انگیز مواد پھیلانے والے حکمران جماعت کے انتہاپسند سیاستدانوں کے خلاف کارروائی سے گریز کیا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ انکھی داس کے فیس بک میں اعلیٰ عہدے پر تقرر میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کا ہاتھ ہے اور اسی وجہ سے ہی وہ حکمران جماعت کے انتہاپسند سیاستدانوں کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہیں۔

بھارت فیس بک اور واٹس ایپ سمیت متعدد سوشل سائٹس اور ایپس کے استعمال والا سب سے بڑا ملک ہے، جس وجہ سے کئی ادارے وہاں پر سخت پالیسی کے نفاذ سے گریزاں رہتے ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں