ہمالیہ میں بھارت اور چین کے متنازع سرحدی علاقے میں 45 برس بعد دونوں ممالک کے افواج کے درمیان پہلی مرتبہ گزشتہ ہفتے ہوائی فائرنگ کا تبادلہ ہوا۔

غیرملکی خبررساں ادارے ‘رائٹرز‘ کے مطابق بھارتی حکام نے بتایا کہ مذکورہ واقعہ ایسے وقت پر پیش آیا جب دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کی ملاقات متوقع تھی۔

مزید پڑھیں: بھارت، چین کے درمیان سرحدی علاقے میں جھڑپ، دونوں ممالک کے متعدد فوجی زخمی

خیال رہے کہ دونوں فریقین کے مابین طویل عرصے سے ایک معاہدہ ہے کہ فوج لائن آف ایکچول کنٹرول پر اسلحہ کا استعمال نہیں کریں گے اور اسی لیے 45 برس سے کوئی گولی نہیں چلائی گئی تھی۔

صورتحال سے واقف عہدیداروں نے رائٹرز کو بتایا کہ لیکن پچھلے مہینے کے اواخر میں مغربی ہمالیہ میں انتباہی فائرنگ کے 3 واقعات پیش آچکے ہیں جہاں دونوں ممالک کی فوج آمنے سامنے ہیں۔

ایک عہدیدار نے بتایا کہ ’شکر کہ وہ صرف ہوائی فائرنگ تھی اور فوجیوں نے ایک دوسرے پر گولیاں نہیں برسائیں‘۔

ہوائی فائرنگ کا ایک واقعہ پینگونگ تسو جھیل کے شمالی کنارے پر پیش آیا جب گزشتہ جمعرات کو ماسکو میں بھارت کے وزیر خارجہ سبرہامنیم جیشنکر اور چینی ہم منصب وانگ یی کے مابین ملاقات ہونی تھی۔

ایک دوسرے عہدیدار نے بتایا کہ دونوں طرف سے شدید فائرنگ کی گئی تھی۔

عہدیدار نے بتایا کہ وہ مزید تفصیلات فراہم نہیں کرسکتے لیکن انڈین ایکسپریس اخبار نے بتایا کہ 100 سے 200 راؤنڈ فائر کیے گئے۔

مزید پڑھیں: سرحدی علاقے میں چین سے جھڑپ، افسر سمیت 20 بھارتی فوجی ہلاک

دونوں ممالک کے فوجی لداخ سیکٹر میں غیر متعین تبت سے ملحقہ پہاڑی سرحد پر موجود ہیں اور دونوں جانب نے بتایا گیا کہ گزشتہ پیر کو فوجیوں نے جھیل کے جنوبی کنارے پر ہوائی فائرنگ کی تھی۔

بھارتی عہدیداروں نے بتایا کہ دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ نے تناؤ کو دور کرنے پر اتفاق کیا اور تب سے صورتحال پرسکون ہوگئی ہے لیکن ابھی تک فوجیوں کو پیچھے نہیں ہٹایا گیا۔

سابق بھارتی فوجی کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہوڈا نے کہا کہ عدم اعتماد اتنا بڑھ چکا ہے کہ اب معاہدے پر واپس آنا مشکل ہوگا اور فوجیوں نے گشت کے دوران اسلحہ بھی ساتھ رکھ لیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ اب ہمیں ایل اے سی کے ساتھ امن کی بات نہیں کرنی چاہیے بلکہ تنازعات کی روک تھام کے بارے میں بات کرنا چاہیے۔

خیال رہے کہ کئی ماہ سے مغربی ہمالیائی حصے میں فوجیں موجود ہیں جہاں دونوں فریقین ایک دوسرے پر لائن آف ایکچوئل کنٹرول کی خلاف وزری کا الزام لگاتے ہیں۔

قبل ازیں 20 جون کو گالوان وادی میں کشیدگی کے دوران 20 بھارتی فوجی ہلاک ہوگئے تھے جس کے بعد دونوں فریق پیچھے ہٹنے پر رضامند ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: چین اور بھارت کا ایک دوسرے پر پھر سرحدی اشتعال انگیزی کا الزام

تاہم مذاکرات کے کئی دور کے باوجود مختلف مقامات پر فوجیں آمنے سامنے ہیں جس میں انتہائی بلندی کا مقام پیانگونگ تسو جھیل بھی شامل ہے جس کے بارے میں دونوں ممالک دعویٰ کرتے ہیں۔

بھارتی فوج نے ایک بیان میں کہا تھا کہ '29 اور 30 اگست 2020 کی درمیانی شب کو پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) نے لداخ کے مشرقی حصے میں جاری کشیدگی کے دوران فوجی اور سفارتی رابطوں کے دوران ہونے والے گزشتہ اتفاق رائے کی خلاف ورزی کی اور اشتعال انگیز فوجی نقل و حرکت کی تاکہ حیثیت کو تبدیل کیا جائے'۔

چین کی فوج نے جواب میں کہا تھا کہ بھارتی فوج نے 4200 میٹر بلندی پر واقع جھیل کے قریب پینگونگ تسو کے مقام پر سرحد عبور کی اور اشتعال انگیزی کرتے ہوئے سرحد میں حالات میں تناؤ پیدا کردیا۔

واضح رہے کہ بھارت اور چین اپنے تقریباً 3500 کلومیٹر (2 ہزار میل) طویل سرحد پر اتفاق نہیں کرسکے ہیں اور اس کے لیے 1962 میں دونوں کے درمیان جنگ بھی ہوئی تھی تاہم نصف صدی کے دوران رواں موسم گرما میں دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی انتہائی عروج پر پہنچ گئی تھی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں