سری نگر: مقبوضہ کشمیر میں 3 نوجوانوں کو مشتبہ عسکریت پسند قرار دے کر قتل کیے جانے سے متعلق تحقیقات کے بعد بھارتی فوج نے اہلکاروں کی غیر طے شدہ تعداد کے خلاف تادیبی کارروائی کا آغاز کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک دفاعی ترجمان نے کہا کہ شواہد سے پتا چلتا ہے کہ فوجیوں نے آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ (اے ایف ایس پی اے) کے تحت اپنے اختیارات سے تجاوز کیا جو فوج کو گولی مارنے کے اختیارات سمیت وسیع اختیارات فراہم کرتا ہے۔

مزیدپڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں دکاندار کا ماورائے عدالت قتل، پاکستان کا اظہار مذمت

جولائی میں بھارتی فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے ضلع شوپیاں میں مبینہ عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن میں تینوں افراد کو قتل کردیا ہے۔

دوسری جانب جاں بحق ہونے والے افراد کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز نے نوجوانوں کو سرعام گولیاں ماری تھیں۔

علاوہ ازیں بھارتی فوج کے مطابق وہ اب بھی جاں بحق ہونے والے افراد کی عسکریت پسند گروپوں سے تعلقات کی تحقیقات کر رہے ہیں۔

سری نگر میں مقیم دفاعی ترجمان راجیش کالیا نے بتایا کہ 'انکوائری میں کچھ ابتدائی ثبوت سامنے آئے ہیں جن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آپریشن کے دوران اے ایف ایس پی اے 1990 کے تحت اختیارات سے تجاوز کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں مجاز اتھارٹی نے ہدایت کی کہ ان لوگوں کے خلاف آرمی ایکٹ کے تحت تادیبی کارروائی شروع کی جائے۔

نئی دہلی کی جانب سے کشمیر میں تعینات کیے جانے والے بھارتی فوجیوں پر طویل عرصے سے یہ الزام عائد کیا جارہا ہے کہ وہ مقبوضہ کشمیر میں اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے ماورائے قانون قتل و غارت میں ملوث ہیں۔

مزیدپڑھیں: پاکستان کامقبوضہ کشمیر میں ماورائے عدالت قتل کے واقعات پر شدید اظہار مذمت

جاں بحق ہونے والے تینوں افراد کزنز تھے جن کے بارے میں فوج نے دعویٰ کیا تھا کہ وہ 'پاکستانی دہشت گرد' تھے۔

بھارتی فورسز نے 18 جولائی کو جنوبی کشمیر کی وادی میں کارروائی میں انہیں قتل کیا تھا اور انہیں دور دراز کے سرحدی علاقے میں دفن کیا گیا تھا۔

لیکن ان کے لواحقین جنہوں نے سوشل میڈیا پر تصاویر سے ان کی لاشوں کی شناخت کی، نے بتایا کہ وہ مقامی مزدور ہیں۔

مذکورہ واقعے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں غم و غصہ پایا گیا اور سیاسی گروپوں، انسانی حقوق کے کارکنوں اور مقامی لوگوں نے اموات کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ کیا۔

بھارتی فوج کے ترجمان راجیش کالیا نے کہا کہ آپریشن میں شامل فوجیوں نے اپنے اختیارات سے 'تجاوز' کیا اور مقبوضہ کشمیر میں فوجی طرز عمل کے اصولوں کی 'خلاف ورزی' کی ہے۔

راجیش کالیا نے مزید کہا کہ ذمہ داروں کے خلاف 'تادیبی کارروائی' کی جائے گی۔

فوج کے بیان میں مزید کہا گیا کہ پولیس کی جانب سے جاں بحق ہونے والے افراد کا 'دہشت گردی یا اس سے متعلقہ سرگرمیوں' میں ملوث ہونے کا تاثر نہیں ملا۔

یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں 9 نوجوانوں کا قتل، پاکستان کی بھارتی 'ریاستی دہشتگردی' کی مذمت

پولیس عام طور پر اس طرح کی کارروائیوں میں فوجیوں کے ساتھ ہوتی ہے اگرچہ حکام کا کہنا ہے کہ جولائی کے آپریشن میں ایسا نہیں ہوا تھا۔

مذکورہ افراد کے اہل خانہ کا کہنا تھا کہ ڈی این اے ٹیسٹ کے منتظر ہیں جو یہ ثابت کریں گے کہ وہ مقامی مرد ہیں۔

سن 2010 میں بھارتی فوج کے 3 افسران نے 3 مزدوروں کو قتل کرنےکے بعد دعویٰ کیا تھا کہ انہیں متنازع سرحد کے قریب پاکستانی دراندازی قرار دیا تھا۔


یہ خبر 19 ستمبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی

تبصرے (0) بند ہیں