افغانستان میں شناختی کارڈ پر والدہ کا نام لکھنے کا قانون منظور

اپ ڈیٹ 20 ستمبر 2020
اب افغان شناختی کارڈ پر والدہ کا نام بھی لکھا جائے گا— فائل فوٹو: اے ایف پی
اب افغان شناختی کارڈ پر والدہ کا نام بھی لکھا جائے گا— فائل فوٹو: اے ایف پی

افغان صدر اشرف غنی نے ترمیم کے ذریعے نیا قانون بنا دیا ہے جس کے بعد اب ہر افغان شہری کے شناختی کارڈ پر اس کی والدہ کا نام بھی لکھا جائے گا۔

افغانستان میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور رضاکاروں نے ملک میں بچوں کے شناختی کارڈ پر والدہ کا نام لکھنے کی مہم چلائی تھی اور اس سے قبل شناختی کارڈ پر صرف والد کا نام لکھا جاتا تھا۔

مزید پڑھیں: امن مذاکرات کے باوجود افغانستان میں جھڑپیں جاری

اے بی سی نیٹ کے مطابق پارلیمنٹ سے اس حوالے سے منظوری کا عمل التوا کا شکار ہوا تاہم منظوری کے فوراً بعد صدر اشرف غنی نے ترمیم پر دستخط کر کے اسے قانون کی شکل دے دی۔

اس سلسلے میں 'ویئر از مائی نیم' کے نام سے مہم چلائی گئی تھی تاکہ خواتین کا نام شناختی کارڈ پر لکھا جا سکے کیونکہ سرعام خواتین کا نام استعمال کرنے کو شرم کا مقام سمجھا جاتا ہے اور اس کے بجائے خواتین کو ان کے کسی قریبی رشتے دار کا حوالہ دے کر مخاطب کیا جاتا ہے۔

صرف یہی نہیں بلکہ عموماً دستاویزات، شادی کے دعوت ناموں اور حتیٰ کے قبر پر بھی خواتین کے نام نہیں لکھے جاتے۔

'ویئر از مائی نیم' نامی اس مہم کے دوران بڑی تعداد میں عوام نے اپنی شناخت اپنی والدہ کے نام سے کرائی تھی اور یہ تحریک تین سال کے عرصے میں افغانستان سے نکل کر ایک بین الاقوامی سطح کی مہم بن گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: افغان حکومت نے پیدائشی سرٹیفکیٹ میں والدہ کا نام شامل کرنے کی منظوری دے دی

اس تحریک کی روح رواں لالے عثمانی نے اپنی کامیابی اور شناختی کارڈ میں ترمیم پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ کامیابی ہماری مستقل جدوجہد اور عوام اور مہم چلانے والوں کے درمیان ہم آہنگی کا نتیجہ ہے۔

افغان کابینہ کے قانونی امور کی کمیٹی نے اسے بڑی کامیابی قرار دیتے ہوئے کہا کہ خواتین کا نام شناختی کارڈ پر لکھنے کا قدم صنفی برابری اور خواتین کے حقوق کو حقیقی معنوں میں فراہم کرنے کے حوالے سے بہت بڑا قدم ہے۔

ہیومن رائٹس واچ کی رکن ہیدر واچ نے کہا کہ یہ خواتین کے حقوق کے حوالے سے اچھی خبر ہے کیونکہ افغانستان میں ایسی خبریں روز سننے کو نہیں ملتیں، لہٰذا ہمیں ان رضاکاروں کے لیے جشن منانا چاہیے جنہوں نے طویل عرصے تک اس تبدیلی کے لیے جدوجہد کی۔

ہیومن رائٹس واچ نے بھی اپنے بیان میں اس اقدام کو سراہتے ہوئے کہا کہ اصلاحات کے سلسلے میں اٹھائے گئے اس قدم کے عملی زندگی پر انتہائی اہم اثرات مرتب ہوں گے اور خواتین کے لیے تعلیم، صحت اور پاسپورٹ اور اپنے بچوں کے لیے دستاویزات کا حصول ممکن ہو سکے گا۔

انہوں نے کہا کہ یہ قانون خصوصی طور پر بیوہ، مطلقہ یا اپنے پارٹنر کے تشدد کے خلاف آواز اٹھانے والی خواتین کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

مزید پڑھیں: امن مذاکرات میں خواتین مذاکرات کار سخت گیر طالبان کا سامنا کرنے کو تیار

یہ قانون ایک ایسے موقع پر منظور کیا گیا ہے جب قطر میں طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے درمیان امن مذاکرات کا عمل جاری ہے۔

اکثر خواتین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ طالبان سے مذاکرات کے دوران کہیں ان کے حقوق دوبارہ سلب نہ کر لیے جائیں اور مذاکرات کاروں سے مطالبہ کیا کہ امن مذاکرات کے دوران ان کے حقوق کا احترام کیا جائے۔

واضح رہے کہ 1990 کی دہائی میں افغانستان پر حکومت کرنے والے طالبان نے سخت شرعی قوانین مکمل طور پر نافذ کر دیے تھے جس کی وجہ سے خواتین کے تعلیم کے حصول اور گھر سے باہر سرگرمیوں پر پابندی تھی۔

2001 میں افغانستان پر امریکا کی چڑھائی کے بعد سے ملک میں خواتین کے لیے صورتحال میں بہتری تو آئی ہے لیکن اب بھی شہروں میں خواتین کو حقوق ملنے کے باوجود دور دراز اور دیہی علاقوں میں مسائل جوں کے توں ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: طالبان سے مذاکرات کیلئے افغان حکومتی وفد میں 5 خواتین بھی شامل

وائس آف امریکا کے مطابق جمعرات کو جس دن یہ قانون منظور کیا گیا اسی دن کابل میں امریکی سفارتخانے نے امریکی شہریوں کو انتباہ جاری کیا تھا کہ انتہا پسند خواتین کو نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں۔

البتہ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ہمارا اس طرح کے حملے کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں