شوگر اسکینڈل: برطانیہ سے واپسی پر ایف آئی اے کے سامنے پیش ہوں گا، جہانگیرترین

اپ ڈیٹ 20 ستمبر 2020
ایف آئی اے نے شوگر اسکینڈل کی تحقیقات میں انہیں طلب کیا تھا —فائل فوٹو: ڈان نیوز
ایف آئی اے نے شوگر اسکینڈل کی تحقیقات میں انہیں طلب کیا تھا —فائل فوٹو: ڈان نیوز

لاہور: برطانیہ میں موجود پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے ناراض رہنما جہانگیر ترین نے شوگر اسکینڈل میں فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) کو اپنا مختصر جواب جمع کرادیا جس میں انہوں نے ایف آئی اے کی انکوائری سے متعلق مزید وقت مانگا ہے۔

واضح رہے کہ ایف آئی اے نے شوگر اسکینڈل کی تحقیقات میں انہیں طلب کیا تھا۔

ڈان میں شائع رپورٹ کے مطابق اپنے جواب میں جہانگیر ترین نے کہا کہ وہ برطانیہ میں ہیں اور علاج کروا رہے ہیں۔

مزید پڑھیں: چینی کی برآمد، قیمت میں اضافے سے جہانگیر ترین کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا، رپورٹ

انہوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ ایک مرتبہ صحتیاب ہوجائیں تو وہ ذاتی طور پر ایف آئی اے کے سامنے پیش ہونے کے لیے وطن واپس آئیں گے۔

رہنما پی ٹی آئی نے ایف آئی اے کو کہا کہ کاروبار، اثاثوں اور شوگر ملز سے متعلق سوالوں کا جواب داخل کرنے کے لیے انہیں مزید وقت درکار ہے۔

خیال رہے کہ ایف آئی اے لاہور کی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم شوگر اسکینڈل کی تحقیقات کررہی ہیں۔

تحقیقاتی ٹیم نے جہانگیر ترین کے بیٹے اور پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) فرنچائز 'ملتان سلطان' کے مالک علی ترین کو بھی گزشتہ جمعہ کو اپنا بیان ریکارڈ کرنے کے لیے طلب کیا تھا۔

جہانگیر ترین کے بیٹے علی ترین نے ایف آئی اے کو اپنے وکیل کے توسط سے بتایا کہ وہ لندن میں ہیں اور اس کے سوالات کا جواب پیش کرنے کے لیے وقت درکار ہے۔

مزیدپڑھیں: شوگر سبسڈی اسکینڈل: جے آئی ٹی نے جہانگیر ترین، علی ترین کو طلب کرلیا

ایف آئی اے نے جہانگیر ترین ک ملکی اور بیرون ملک اثاثوں، ان کے بینک لین دین، خاص طور پر بیرون ملک رقم کی منتقلی، ان کے کنبہ اور اس کے ملازمین کے بینک اکاؤنٹس اور ان کی فرم جے ڈی ڈبلیو کے شوگر سے متعلق لین دین کی تفصیلات طلب کی ہیں۔

دوسری جانب جہانگیر ترین کے قریبی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ وزیر اعظم نے اس اُمید کا اظہار کیا تھا کہ جہانگیر ترین اپنے اوپر لگائے جانے والے الزامات صاف کریں گے۔

انہوں نے بتایا کہ جہانگیر ترین کے خلاف گروپ دونوں تحریک انصاف اور بیوروکریسی میں موجود ہیں اور وہ بات کو یقینی بنارہے ہیں کہ انہیں اس معاملے سے چھٹکارہ نہ ملے۔

ذرائع نے بتایا کہ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حکومت میں ہی جہانگیرترین کا احتساب ہوتا ہے تو اس سے تحریک انصاف کو سیاسی فائدہ ہو گا۔

تاہم پارٹی میں کچھ لوگوں کا مؤقف ہے کہ چینی کے اسکینڈل کی تحقیقات مکمل ہونے تک جہانگیر ترین کو ملک چھوڑنے کی اجازت دی گئی تھی اور ایک بار جب معاملات تھم جائیں گے اور ملک کے سیاسی نقشے پر ایک نئی صورتحال پیدا ہوگئی تو انہیں وطن واپسی کے لیے گرین سگنل دیا جائے گا۔

چینی بحران کی تحقیقات اور کارروائی کا معاملہ

ملک میں چینی کے بحران کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی نے 4 اپریل کو اپنی رپورٹ عوام کے سامنے پیش کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ چینی کی برآمد اور قیمت بڑھنے سے سب سے زیادہ فائدہ جہانگیر ترین کے گروپ کو ہوا جبکہ برآمد اور اس پر سبسڈی دینے سے ملک میں چینی کا بحران پیدا ہوا تھا۔

انکوائری کمیٹی کی تحقیقات کے مطابق جنوری 2019 میں چینی کی برآمد اور سال 19-2018 میں فصلوں کی کٹائی کے دوران گنے کی پیدوار کم ہونے کی توقع تھی اس لیے چینی کی برآمد کا جواز نہیں تھا جس کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں چینی کی قیمت میں تیزی سے اضافہ ہوا۔

مزید پڑھیں: حکومت نے شوگر کمیشن کیخلاف سندھ ہائیکورٹ کا فیصلہ چیلنج کردیا

بعد ازاں حکومت چینی بحران پر ایف آئی اے کی تحقیقاتی رپورٹ کا فرانزک آڈٹ کرنے والے کمیشن کی حتمی رپورٹ 21 مئی کو سامنے لائی تھی جس کے مطابق چینی کی پیداوار میں 51 فیصد حصہ رکھنے والے 6 گروہ کا آڈٹ کیا گیا جن میں سے الائنس ملز، جے ڈی ڈبلیو گروپ اور العربیہ مل اوور انوائسنگ، دو کھاتے رکھنے اور بے نامی فروخت میں ملوث پائے گئے۔

شہزاد اکبر نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کو مل مالکان کی جانب سے 2، 2 کھاتے رکھنے کے شواہد ملے ہیں، ایک کھاتہ سرکاری اداروں جیسا کہ ایس ای سی پی، ایف بی آر کو دکھایا جاتا ہے اور دوسرا سیٹھ کو دکھایا جاتا ہے جس میں اصل منافع موجود ہوتا ہے۔

معاون خصوصی نے کہا تھا کہ انکوائری کمیشن کے مطابق اس وقت ملک میں شوگر ملز ایک کارٹیل کے طور پر کام کررہی ہیں اور کارٹیلائزیشن کو روکنے والا ریگولیٹر ادارہ مسابقتی کمیشن پاکستان اس کو روک نہیں پارہا، 2009 میں مسابقتی کمیشن نے کارٹیلائزیشن سے متعلق رپورٹ کیا تھا جس کے خلاف تمام ملز مالکان میدان میں آگئے تھے۔

چنانچہ 7 جون کو وزیر اعظم عمران خان نے شوگر کمیشن کی سفارشات کی روشنی میں چینی اسکینڈل میں ملوث افراد کے خلاف سفارشات اور سزا کو منظور کرتے ہوئے کارروائی کی ہدایت کی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: چینی کی برآمد، قیمت میں اضافے سے جہانگیر ترین کو سب سے زیادہ فائدہ پہنچا، رپورٹ

17 اگست کو سندھ ہائی کورٹ نے چینی بحران کی تحقیقات کے لیے وفاقی حکومت کے تشکیل کردہ شوگر انکوائری کمیشن اور اس کی رپورٹ کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔

سندھ ہائی کورٹ نے کمیشن کو غیر قانونی قرار دینے کی 8 وجوہات کا ذکر کیا جس میں ضروری قواعد و ضوابط پر عمل کرنے میں ناکامی، کمیشن کی تشکیل کا نوٹیفکیشن بروقت گزیٹ میں شائع نہ ہونا، کمیشن کی نامکمل تشکیل، کمیشن کی جانبداری اور درخواست گزاروں کو صفائی کا موقع نہ دینا شامل ہیں۔

جس کے بعد 27 اگست کو وفاقی حکومت نے سندھ ہائی کورٹ کی جانب سے شوگر کمیشن کی تشکیل اور اس کی رپورٹ کو غیر قانونی قرار دینے کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا تھا۔

اٹارنی جنرل خالد جاوید خان نے درخواست میں مؤقف اپنایا کہ ہائی کورٹ نے مکمل طور پر تکنیکی بنیادوں پر کمیشن کی تشکیل کے نوٹیفکیشن کو کالعدم قرار دیا جبکہ کمیشن کے ساتوں اراکین کی تعیناتی کو وفاقی کابینہ نے منظور کرلیا تھا۔

درخواست میں چینی کے شوگر ملز مالکان کے ساتھ ساتھ کے اثاثہ جات برآمدگی یونٹ (اے آر یو) کے سربراہ شہزاد اکبر کو بھی فریق بنایا گیا تھا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ کسی شوگر مینوفیکچرر نے کمیشن کی کارروائی کی معلومات نہ ہونے کا دعویٰ کیا نہ کرسکتا ہے جس کے لیے پاکستان شوگر ملز ایسوسی ایچن (پی ایس ایم اے) سے مکمل طور پر رابطہ تھا۔

تبصرے (0) بند ہیں