یہ مارچ 1992ء تھا۔ قومی ٹیم ورلڈ کپ میں اپنے ابتدائی 5 میچوں میں سے صرف ایک ہی جیت سکی تھی اور اب اس کو پرتھ میں میزبان آسٹریلیا کا سامنا کرنا تھا جبکہ غلطی کی کوئی گنجائش نہیں تھی بلکہ اس میچ کے بعد باقی تمام مقابلے بھی جیتنا تھے۔

مجھے یاد ہے کہ ہم بھی یہ اہم ترین مقابلہ دیکھنے کے لیے ابو کے ساتھ علی الصبح جاگ اٹھے تھے۔ آسٹریلیا 221 رنز کے تعاقب میں صرف 31 رنز پر دوسری وکٹ سے محروم ہوا تو ابو نئے بیٹسمین کو میدان میں آتا دیکھ کر بولے ’اب اس کو آؤٹ کردیا تو سمجھو پاکستان آدھا میچ تو یہیں جیت جائے گا‘۔ یہ ڈین جونز تھے۔

کچھ ہی دیر میں مجھے پورا اندازہ ہوگیا کہ آخر ابو نے ایسا کیوں کہا تھا۔ ڈین جونز کی آمد کے بعد لگ رہا تھا کہ پاکستان ورلڈ کپ میں مسلسل چوتھا میچ بھی ہار کر ٹورنامنٹ سے باہر ہوجائے گا کیونکہ انہوں نے جیف مارش کے ساتھ مل کر اسکور کو 116 رنز تک پہنچا دیا تھا۔ اب آسٹریلیا کو 100 سے کچھ اوپر رنز ہی درکار تھے اور اس کی 8 وکٹیں بھی باقی تھیں۔ تب مشتاق احمد نے جونز کو 47 رنز پر آؤٹ کردیا اور یہیں سے میچ نے پلٹا کھا لیا۔

پاکستان نے آخری 8 وکٹیں صرف 56 رنز کے اضافے سے حاصل کیں اور میچ جیت کر ورلڈ کپ میں اپنی امیدیں زندہ رکھیں اور بعد میں فائنل جیت کر ورلڈ چیمپیئن بھی بنا۔ آسٹریلیا یہ میچ تو ہار گیا لیکن ڈین جونز اس اننگز کے ساتھ میرے ذہن میں اپنی پہلی یاد چھوڑ گئے، اور ان کی آخری یاد؟ وہ لمحہ جب انہوں نے میرے ساتھ پورے پاکستان کے بھی دل جیت لیے۔

یہ فروری 2020ء میں میرا اپنا شہر کراچی تھا کہ جس کے نیشنل اسٹیڈیم میں پشاور زلمی اور ڈین جونز کی ٹیم کراچی کنگز مقابل تھے۔ مقابلہ میزبان کراچی نے باآسانی جیتا اور میچ کے اختتام کے بعد ہم نے دیکھا کہ ڈین جونز کوڑا کرکٹ اٹھا کر کوڑے کے ڈبے میں ڈال رہے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ وہ ایک سال پہلے قومی کرکٹر آصف علی کی کینسر کی شکار بیٹی کا ذکر کرتے ہوئے پریس کانفرنس میں آبدیدہ ہوگئے تھے۔ یہ 2 واقعات ہیں جو پاکستان کرکٹ کے شائقین کے دلوں پر ہمیشہ نقش رہیں گے۔

پاکستان کی نئی نسل کی 'پروفیسر ڈینو' سے واقفیت پاکستان سپر لیگ (پی ایس ایل) کی وجہ سے ہے لیکن پرانے شائقین انہیں بہت پہلے سے جانتے ہیں۔ ایک ایسا بیٹسمین جس نے ون ڈے کرکٹ کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ وہ جاوید میانداد کی طرح 'اسٹریٹ فائٹر' مزاج کے کھلاڑی تھے، جو لگ بھگ اس زمانے کے ہر آسٹریلوی پلیئر کا انداز تھا۔ بلکہ وہ تو 2 فیلڈرز کے درمیان شاٹ کھیلنے اور ایک کے بجائے 2 رنز بھاگنے کے معاملے میں بھی میانداد سے مماثلت رکھتے تھے۔

کھلاڑی کی حیثیت سے ڈین جونز کا انٹرنیشنل کرکٹ کیریئر 1984ء سے 1994ء تک 10 سال کے عرصے پر محیط رہا۔ اس دوران انہوں نے 52 ٹیسٹ میچ کھیلے اور 46.55 کے شاندار اوسط سے 3 ہزار 631 رنز بنائے۔ ان کے کیریئر میں 11 سنچریاں اور 14 ففٹیز شامل رہیں جبکہ اپنے پسندیدہ فارمیٹ ون ڈے انٹرنیشنل میں انہوں نے 164 میچوں میں 44.61 کے اوسط اور 7 سنچریوں اور 46 نصف سنچریوں کی مدد سے 6 ہزار 68 رنز بنائے۔ ڈین جونز ورلڈ چیمپیئن بھی رہے، وہ 1987ء میں کلکتہ کے ایڈن گارڈن پر ورلڈ کپ جیتنے والے آسٹریلوی دستے کا حصہ تھے۔

ٹیسٹ میں ان کی یادگار ترین اننگ بلاشبہ وہ 210 رنز والی ہی ہے جو انہوں نے مدراس میں بھارت کے خلاف بنائی تھی۔ یہ وہ تاریخی مقابلہ تھا جو ٹائی ہوا تھا۔ 502 گیندوں پر بنائے گئے 210 رنز کی اننگ میں ڈین جونز نے بھارتی باؤلرز کا کم اور مدراس کی گرمی کا زیادہ مقابلہ کیا تھا۔ اس اننگ کے دوران ان کی حالت اتنی بگڑ گئی تھی کہ وہ الٹیاں کرنے لگے، لیکن پھر بھی میدان چھوڑنے کو تیار نہیں تھے۔ جب اننگ مکمل ہوئی تو انہیں فوراً ہسپتال لے جاکر ڈرپس لگوائی گئیں تاکہ نمکیات کی کمی پوری ہوسکے۔ ایسے فائٹرز دنیا نے کم ہی دیکھے ہیں۔

ہوسکتا ہے ڈین جونز کا بحیثیت کھلاڑی کرکٹ کیریئر بہت طویل نہ لگے، لیکن کمنٹری اور پھر کوچنگ کو ملا لیں تو سمجھیں انہوں نے ساری زندگی میدان ہی میں گزاری۔ وہ 2016ء سے ہی پاکستان سپر لیگ سے وابستہ تھے اور اسلام آباد یونائیٹڈ کے کوچ بنے۔ جی ہاں! وہی اسلام آباد کہ جس کو تب کوئی خاطر میں نہیں لار ہا تھا، اور سب کی زبانوں پر کراچی، لاہور اور پشاور کے نام تھے، لیکن ڈین جونز کی کوچنگ میں اسلام آباد نے نہ صرف پہلے سیزن میں بلکہ بعد میں تیسرے سیزن میں بھی وننگ ٹرافی اٹھائی۔

اس سال یعنی 2020ء میں ڈین جونز کراچی کنگز منتقل ہوئے تھے اور انہی کی تربیت میں ہمیں کراچی پہلی بار ایک مضبوط ٹیم کے روپ میں نظر آیا اور پوائنٹس ٹیبل پر دوسرے نمبر تک پہنچا۔ اگر کورونا وائرس کی وجہ سے پی ایس ایل مؤخر نہ ہوتا تو ہوسکتا ہے کراچی ہی چیمپیئن بن جاتا۔

ڈین جونز ان چند غیر ملکیوں میں سے ایک تھے جو پی ایس ایل اور خاص طور پر اس کے پاکستان میں انعقاد کے بڑے حامی تھے۔ 2017ء میں، اس وقت جب پی ایس ایل کے ملک میں انعقاد پر خود پاکستانیوں کو شکوک تھے، ڈین جونز نے کہا تھا کہ اگر پی ایس ایل کو بچانا ہے تو اسے پاکستان واپس لانا ہوگا، ورنہ یہ لیگ متحدہ عرب امارات کے میدانوں پر دم توڑ جائے گی۔

اس موضوع پر انہوں نے آسٹریلیا کے اخبارات میں کالمز تک لکھے۔ ان کے الفاظ تھے ’اگر پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ واپس نہ آئی تو پی ایس ایل مرجائے گی اور وہ خواب بھی ٹوٹ جائیں گے جو ان ننھی آنکھوں میں جگمگا رہے ہیں کہ ایک دن ہم بھی اپنے ملک کی طرف سے کرکٹ کھیلیں گے‘۔

وہ آواز اب ہمیشہ کے لیے خاموش ہوگئی ہے، اور صرف یادیں رہ گئی ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں