آذر بائیجان، آرمینیا کے درمیان متنازع علاقے میں جھڑپیں، 23 افراد ہلاک

اپ ڈیٹ 29 ستمبر 2020
حملوں میں آذربائیجان کے ایک خاندان کے 5 افراد اور آرمینیا کے 16 جنگجو ہلاک ہوئے—فوٹو:رائٹرز
حملوں میں آذربائیجان کے ایک خاندان کے 5 افراد اور آرمینیا کے 16 جنگجو ہلاک ہوئے—فوٹو:رائٹرز

آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان علیحدگی پسندوں کے علاقے نیگورنو-کراباخ میں جھڑپوں کے دوران کم ازکم 23 افراد ہلاک ہوگئے جبکہ روس اور ترکی کے درمیان بھی کشیدگی کے خطرات بڑھ گئے ہیں۔

خبرایجنسی اے ایف پی نے آرمینیا کے ساتھ مل لڑنے والے علیحدگی پسند عہدیداروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 16 علیحدگی پسند جنگجو مارے گئے اور 100 سے زیادہ زخمی ہوگئے۔

دونوں ممالک کی جانب سے جانی نقصان کا دعویٰ کیا اور آرمینیا میں ایک خاتون اور بچہ ہلاک ہوا جبکہ باکو کے مطابق آذربائیجان کے ایک ہی خاندان کے 5 افراد آرمینیا کے علیحدگی پسند جنگجووں کی شیلنگ میں مارے گئے۔

آرمینیا کے جنگجوو نے 2 ٹینکوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا—فوٹو:اے پی
آرمینیا کے جنگجوو نے 2 ٹینکوں کو نشانہ بنانے کا دعویٰ کیا—فوٹو:اے پی

رپورٹ کے مطابق مسلم ملک آذربائیجان اور عیسائی اکثریتی ملک آرمینیا کے درمیان کشیدگی سے خطے کی دو بڑی طاقتین روس اور ترکی کے درمیان تلخی کا خدشہ ہے۔

آرمینیا کے وزیراعظم نیکول پشینیان نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ ترکی کو تنازع سے دور رکھیں۔

انہوں نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ہم قفقاز میں مکمل طور پر جنگ کے دہانے پر ہیں اور آذربائیجان کی مطلق العنان حکومت نے ایک مرتبہ پھر آرمینیا کے عوام پر جنگ مسلط کی ہے۔

فرانس جرمنی اور یورپین یونین نے فوری طور پر جنگ بندی پر زور دیا جبکہ پوپ فرانسس نے امن کے لیے دعا کی۔

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے آرمینیا کے وزیراعظم سے فوج کشیدگی پر بات کی اور تنازع کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

کریملن سے جاری بیان کے مطابق روس نے بڑے پیمانے پر شروع ہونے والی جھڑپوں پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے۔

دوسری جانب آذربائیجان کے اتحادی ترکی نے کشیدگی شروع کرنے کا الزام آرمینیا پرعائد کیا اور باکو کی حمایت کا اعادہ کیا۔

قبل ازیں غیرملکی خبرایجنسیوں کی رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ آرمینیا کی وزارت دفاع نے دعویٰ کیا کہ آذربائیجان کے دو ہیلی کاپٹر مار گرائے گئے ہیں۔

مزید پڑھیں:پاکستان کی آذربائیجان کے ضلع توزو پر آرمینیا کے حملے کی مذمت

وزارت دفاع کی ترجمان سشنا اسٹیپنیان کا کہنا تھا کہ آرمینیا کی فوج نے آذربائیجان کی 3 ٹینکوں کوبھی نشانہ بنایا تاہم کسی قسم کے جانی نقصان کے حوالے سے کچھ نہیں بتایا۔

آذربائیجان نے آرمینیا کا دعویٰ مسترد کردیا—فوٹو:اے پی
آذربائیجان نے آرمینیا کا دعویٰ مسترد کردیا—فوٹو:اے پی

خیال رہے کہ نیگورنو-کراباخ آذربائیجان کی حدود میں آرمینیا کے قوم پرستوں کا علاقہ ہے جو 1994 کی جنگ کے بعد آذربائیجان کے قبضے میں نہیں ہے۔

دونوں ممالک کی افواج کی بھاری تعداد آذربائیجان سے منسلک سرحد میں موجود ہے۔

آذربائیجان کی وزارت دفاع نے ہیلی کاپٹر مارگرانے اور ٹینک کو نشانے بنانے کے دعوے مسترد کردیے۔

قومی سے ٹیلی ویژن خطاب میں آذربائیجان کے صدر الہام علیوف کا کہنا تھا کہ 'آرمینیا کی بمباری سے آذربائیجان کی فورسز اور شہری آبادی کا نقصان ہوا ہے'۔

دوسری جانب آرمینیا کی وزارت دفاع کی ترجمان سشنا اسٹیپنیان کا کہنا تھا کہ اتوار کو آذر بائیجان کے حملے کے بعد جھڑپ شروع ہوئی لیکن آذربائیجان کا کہنا تھا کہ آرمینیا کی طرف سے حملہ ہوا جس پر جوابی کارروائی کی گئی۔

ترکی کا آذربائیجان سے تعاون کا اظہار

آذربائیجان کے قریبی اتحادی ترکی نے واقعے کی اطلاع ملتے ہیں تشویش کا اظہار کیا اور مکمل تعاون کا یقین دلایا جبکہ آرمینیا سے جارحیت ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے اپنے بیان میں آرمینیا کو خطے کے لیے بڑا خطرہ قرار دے دیا اور کہا کہ آذر بائیجان سے مکمل تعاون کیا جائے گا۔

اپنی ٹوئٹ میں ان کا کہنا تھا کہ 'ترکی کے لوگ آذربائیجان کے بھائیوں سے ہمیشہ کی طرح ہر ممکن تعاون کریں گے'۔

انہوں نے کہا کہ 'آرمینیا خطے کے امن واستحکام کے لیے بڑا خطرہ بن رہا ہے'۔

عالمی برادری کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وہ آرمینیا کی 'جارحیت کو روکنے کے لیے اہم اقدامات کرنے میں ناکام رہی ہے'۔

طیب اردوان نے کہا کہ آذربائیجان کے صدر الہام علیوف سے فون پر بات ہوئی ہے اور اس دوران انہیں پرعزم پایا۔

ترک حکمران جماعت کے ترجمان عمر سیلک نے ٹوئٹ میں کہا کہ 'ہم آذربائیجان پر آرمینیا کے حملے کی بھرپور مذمت کرتے ہیں، آرمینیا ایک مرتبہ پھر قانون کو نظر کرتے ہوئے اشتعال انگیزی کا مرتکب ہورہا ہے'۔

انہوں نے کہا کہ ترکی بھرپور انداز میں آذربائیجان کے ساتھ کھڑاہے جبکہ آرمینیا کی خطے کے پائیدار امن پر آگ کے ساتھ کھیل رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:پاکستان کا آذربائیجان سے سپرمشاق طیاروں کی فروخت کا معاہدہ

صدر طیب اردوان کے ترجمان ابراہیم کیلن نے بھی آرمینیا کے اقدام کی مذمت کی اور کہا کہ 'آرمینیا نے شہریوں پر حملہ کرکے جنگ بندی کی خلاف ورزی کی ہے، عالمی برادری اس کو خطرناک ارادے روکنے کا حکم دے'۔

ترک وزیردفاع ہولوسی آکار نے اپنے بیان میں کہا کہ 'قفقاز میں امن و استحکام کی راہ میں بڑی رکاوٹ آرمینیا کی جارحیت ہے'۔

انہوں نے کہا کہ آرمینیا 'اس جارحیت کو ختم کرے ورنہ خطے میں آگ لگ جائے گی'۔

خیال رہے کہ ترکی اور آذربائیجان قریبی اتحادی ہیں اور آپس میں گہرے ثقافتی اور زبانی تعلقات ہیں۔

ترکی اور آرمینیا کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں جس کی وجہ آرمینیا کا مؤقف ہے کہ عثمانی دور خلافت میں آرمینیا کے شہریوں کا قتل عام کیا گیا اور اس کو نسل کشی سے تعبیر کرتا ہے۔

ترک سفارتی ذرائع کے مطابق ترک وزیر خارجہ میولت کوسواوغلو اور روس کے ہم منصب سرگئی لاروف نے ٹیلی فونک رابطے میں اس معاملے پر بھی بات کی۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان 2016 کے بعد شدید جھڑپ ہوئی ہے جبکہ دہائیوں سے دونوں ممالک کے درمیان سرحدی تنازع قائم ہے۔

نیگورنو-کراباخ کا علاقہ 4 ہزار 400 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا ہے اور 50 کلومیٹر آرمینیا کی سرحد سے جڑا ہے، آرمینیا نے مقامی جنگجووں کی مدد سے آذربائیجان کے علاقے پر خطے سے باہر سے حملہ کرکے قبضہ بھی کرلیا تھا۔

قبل ازیں رواں برس جولائی میں بھی دونوں ممالک کے درمیان بدترین جھڑپیں ہوئی تھیں، جس کے نتیجے میں دونوں اطراف کے 16 افراد مارے گئے تھے۔

عالمی برادری کی جانب سے کشیدگی روکنے کے لیے اقدامات کیے جاتے ہیں تاہم دونوں حریف ممالک کے درمیان جھڑپیں ہوتی رہی ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں