امریکا کے صدارتی انتخابات کورونا وبا کے سبب پیدا ہونے والی کساد بازاری کے ماحول میں ہورہے ہیں۔ امریکی صدر کی بیماری سے پہلے ہونے والے گیلپ سروے میں امریکی ووٹروں کی اکثریت نے معیشت کو اہم ترین فیکٹر قرار دیا تھا۔

معیشت کو ترجیح بتانے والے ووٹروں کی شرح 99 فیصد تھی۔ تین تہائی ووٹروں نے مزید 6 فیکٹرز کو بھی اہم بتایا۔ ان تین تہائی میں سے 83 فیصد نے دہشت گردی اور سیکیورٹی کو، 82 فیصد نے تعلیم، 80 فیصد نے صحت، 80 فیصد نے جرائم، 77 فیصد نے کورونا وائرس اور 76 فیصد نے نسلی امتیاز کو بھی اہم فیکٹر تسلیم کیا۔

99 فیصد ووٹروں کا معیشت کو صدارتی انتخابات میں ووٹ چوائس بتانا حیران کن نہیں۔ امریکیوں کا اقتصادی اعتماد مارچ کی کم ترین سطح کے بعد بہتر ہوا ہے لیکن بیروزگاری کی شرح 1948ء کے صدارتی الیکشن سے پہلے کی سطح سے بھی بلند ہے۔

ویسے جو ری پبلکن ووٹر ہیں وہ معیشت کے حوالے سے تو ٹرمپ پر اعتماد کا اظہار کرتے ہیں، لیکن شاید اس کا فائدہ ٹرمپ کو کم ہی ہو کیونکہ ڈیموکریٹ یا اس کی طرف رجحان رکھنے والے آزاد ووٹر کی ترجیحات میں نسلی امتیاز کا خاتمہ، ماحولیاتی تبدیلیوں کا مقابلہ اہم ہے اور صدر ٹرمپ ان محاذوں پر انتہائی کمزور ہیں۔

ٹرمپ کا سب سے کمزور ترین پہلو کورونا وبا سے نمٹنے کی حکمت عملی ہے۔ امریکا اس وبا سے متاثر ہونے والے ممالک میں سب سے اوپر ہے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے امیدوار جو بائیڈن کورونا وائرس کو سب سے بڑا ایشو بنائے ہوئے ہیں۔ جو بائیڈن کی انتخابی مہم کا بنیادی نکتہ ہی یہ ہے کہ وہ اس وبا سے ٹرمپ کی نسبت بہتر انداز میں نمٹیں گے۔

بائیڈن کی انتخابی مہم کے منتظمین کا کہنا ہے کہ 3 نومبر تک اسی نکتے پر مہم چلائی جائے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ انتخابات 2 طرح کی قیادت کے درمیان ہورہے ہیں۔ بائیڈن نے وبا آنے کے بعد مثال بن کر قوم کی رہنمائی کی۔ انہوں نے ماسک استعمال کیا، سماجی فاصلے کے اصول کی پاسداری کی اور ذمہ دار لیڈر ہونے کا مظاہرہ کیا۔

امریکا کے صدارتی انتخابات کے لیے پولنگ سے صرف 32 دن پہلے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کا اعلان کیا اور پھر انہیں فوجی ہسپتال منتقل کردیا گیا۔ صدر ٹرمپ کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کے پانچویں دن ہسپتال سے واپس وائٹ ہاؤس پہنچ گئے اور پھر چند گھنٹوں بعد صدارتی معالج نے صدر میں بیماری کی کوئی بھی علامت نہ ہونے کا اعلان کیا۔

صدر ٹرمپ کی جانب سے جب کورونا ٹیسٹ مثبت آنے کا اعلان ہوا تو ووٹروں اور سیاسی مبصرین نے صدارتی محل سے آنے والی اطلاعات کی بنیاد پر حالات کا تجزیہ کیا اور کئی طرح کی قیاس آرائیاں ہونا شروع ہوگئیں۔

والٹر ریڈ ہسپتال سے وائٹ ہاؤس واپس پہنچنے سے پہلے ہی ٹرمپ نے ٹویٹر پر بریکنگ نیوز کے طور پر لکھ دیا تھا کہ دوسرے صدارتی مباحثے سے پہلے وہ ہسپتال سے واپس آجائیں گے اور اس کے بعد ویڈیو پیغام بھی منظر عام پر آیا جس میں انہوں نے کہا کہ ’وہ نہ صرف ٹھیک ہیں بلکہ خود کو 20 سال پہلے سے بھی زیادہ اچھا محسوس کر رہے ہیں‘۔ اس پوری صورتحال میں 2 طرح کے تبصرے زیادہ دلچسپ اور قرین قیاس محسوس ہونے لگے۔

ایک امریکی ٹی وی نے صدر کی ہسپتال سے واپسی کو ’مسولینی موومنٹ‘ کہا جبکہ صدر کی بیماری کے انکشاف نما اعلان پر ’اکتوبر سرپرائز‘ کا تبصرہ بھی سازشی تھیوریز پر غور کرنے والوں کے لیے ’حق الیقین‘ کا لمحہ بنتا نظر آیا۔

صدر ٹرمپ کی ہسپتال واپسی کو مسولینی موومنٹ کہنا دراصل ان کو فسطائیت کا علمبردار قرار دینا ہے۔ ڈیموکریٹ پارٹی کے حامی ٹی وی نے صدر ٹرمپ کو دوسری مدتِ صدارت کے لیے ووٹنگ سے پہلے ایک بار پھر فاشسٹ کہہ کر ووٹروں کو صدر ٹرمپ کی سفید فام بالادستی کی حمایت، نسلی امتیاز پر خاموشی، تضاد بیانی یا یوں کہیں کہ کئی مواقع پر عوام سے بولے گئے جھوٹ اور آمرانہ رویوں سے ڈرایا۔

فاشزم کا بانی مسولینی کسی زمانے میں سوشلسٹ تھا لیکن پھر سوشلزم سے اکتا کر خود کو انفرادیت پسند کہلوانے لگا اور بالآخر فاشزم کی بنیاد رکھی۔ مسولینی کی قیادت میں فاشٹ 2 متضاد باتوں کو اکھٹا کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ پہلی اور سب سے بڑی بات یہ تھی کہ یہ لوگ سوشلزم اور کمیونزم کے دشمن تھے۔ اس بنیاد پر وہ آجر طبقہ (صنعت کاروں، تاجروں، زمینداروں) کی ہمدردیاں رکھتے تھے۔ لیکن مسولینی خود بہت پرانا سوشلسٹ احتجاجی اور انقلابی تھا۔ وہ سرمایہ داری کے خلاف مقبول نعرے لگایا کرتا تھا جو غریب طبقات بہت پسند کرتے تھے۔ اس نے احتجاج کے مختلف طریقے بھی کمیونسٹوں سے سیکھ رکھے تھے۔ فاشزم ایک عجیب و غریب ملغوبہ بن گیا جس کی تعبیر مختلف انداز میں کی جاسکتی تھی۔ یہ ایک ایسی سرمایہ دارانہ تحریک تھی جس کے نعرے بذاتِ خود سرمایہ داری کے لیے خطرناک تھے جبکہ متوسط طبقے کے بے روزگار اس تحریک کی ریڑھ کی ہڈی تھے۔

صاحبِ ثروت فاشسٹ سمجھتے تھے کہ مسولینی ان کی املاک کو تحفظ دے گا۔ ان کا خیال تھا کہ مسولینی کی سرمایہ داروں کے خلاف تقریریں اور نعرے بازی محض ڈھونگ اور سادہ لوح عوام کو فریب دینے کے لیے ہے۔ غریب فاشسٹ کا خیال تھا کہ فاشزم کی روح سرمایہ داری کی مخالفت ہے اور باقی سب کچھ امیر لوگوں کو خوش کرنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ چنانچہ مسولینی نے ان طبقات کو ایک دوسرے کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کی۔ وہ ایک دن امیروں کے حق میں بولتا تو دوسرے دن غریبوں کی ہمدردی میں بیان دیتا۔ لیکن اصل میں وہ سرمایہ دار اور آجروں کے مفاد کا نگران تھا کیونکہ وہی اس کی مالی امداد کر رہے تھے۔ یہ لوگ محنت کشوں اور سوشلزم کی قوت کو ختم کرنا چاہتے تھے کیونکہ یہ ایک عرصہ سے ان کے لیے خطرہ بنی ہوئی تھی۔

فاشسٹوں کا ایک ہی مقصد تھا یعنی اقتدار حاصل کرنا اور وہ مسولینی کے وزیرِاعظم بننے کے ساتھ پورا ہوگیا تھا۔ اقتدار ملنے کے بعد مسولینی نے اپنی پوزیشن مضبوط بنانے کے لیے مخالفین کو کچلنے کا عزم کیا، تشدد اور دہشت گردی کی غیر معمولی صورت پیدا ہوگئی۔ تاریخ میں تشدد ایک معمول کی بات ہے لیکن اسے ایک تکلیف دہ ضرورت سمجھا جاتا ہے اور اس کی وضاحتیں اور جواز پیش کیے جاتے ہیں۔

فاشزم، تشدد کے لیے معذرت خواہانہ رویہ میں یقین نہیں رکھتا۔ فاشسٹ اسے قبول کرتے ہیں اور کھلے عام اس کی تعریف کرتے ہیں۔ اس کا استعمال وہاں بھی کرنے سے گریز نہیں کرتے جہاں کوئی مزاحمت نہیں ہوتی۔ امریکا میں حالیہ دنوں میں سیاہ فام اور دیگر اقلیتی برادریوں کے ساتھ روا رکھا گیا سلوک، پولیس تشدد میں ہلاکتیں، مظاہروں کو دبانے کے لیے نیشنل گارڈز کی تعیناتی اور ٹرمپ کے حامیوں کی طرف سے جوابی ریلیاں اور ‘بلیک لائیوز میٹر’ تحریک کے کارکنوں پر حملے فاشزم سے تعبیر کیے جا رہے ہیں۔

پہلے صدارتی مباحثے میں صدر ٹرمپ نے سفید فام بالادستی کے لیے کام کرنے والے گروپوں کی مذمت سے انکار کیا اور ایک دن بعد لولی لنگڑی وضاحت بھی کی، اس تمام صورتحال کو اسی تناظر میں پیش کیا جا رہا ہے۔

ڈیموکریٹ پارٹی خود کو متوسط طبقے کی ترجمان بتاتی ہے اور برنی سینڈرز سمیت اس کے کئی نمایاں لیڈر سوشلسٹ رجحانات رکھتے ہیں۔ ڈیموکریٹس ووٹرز کو باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ ٹرمپ غریبوں کا ہمدرد نہیں، امیر طبقات کا نمائندہ ہے، اسی لیے ٹرمپ نے اوباما کیئر کو ختم کیا۔

دوسری طرف صدر ٹرمپ ووٹروں کو سوشلزم سے ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں اور بار بار ووٹروں کو یقین دلانے کی کوشش کرتے نظر آتے ہیں کہ ڈیموکریٹس جیت کر ان پر بھاری ٹیکس عائد کردیں گے اور ان کی محنت سے کمائی گئی دولت ان سے چھینی جاسکتی ہے۔ اس الیکشن کو بھی کہیں نہ کہیں سوشلزم اور فاشزم کا مقابلہ بنانے کی شعوری کوشش کارفرما نظر آتی ہے۔

صدر ٹرمپ کی بیماری کو اکتوبر سرپرائز کا نام بھی دیا گیا۔ ہر صدارتی الیکشن میں اکتوبر سرپرائز ایک بڑی خبر ہوتی ہے جو الیکشن کا رخ بدل دیتی ہے۔ سوشل میڈیا پر اکتوبر سرپرائز کی بحث چھڑی رہی اور صدر ٹرمپ کی بیماری کو ووٹروں پر اثر انداز ہونے کی کوشش بتایا گیا۔ اکتوبر سرپرائز امریکی انتخابات میں غیر معمولی فتوحات اور غیر متوقع ناکامیوں کی بنیاد بنتا آیا ہے۔

1972ء میں ری پبلکن صدر رچرڈ نکسن دوسری مدت صدارت کے لیے انتخابی میدان میں تھے اور امریکی افواج ویتنام کی جنگ میں پھنسی ہوئی تھیں۔ ووٹنگ سے چند دن پہلے ان کے سیکیورٹی ایڈوائزر ہنری کسنجر نے بیان دیا کہ جلد امن ہونے کو ہے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی نکسن کے حمایتی جنگ کے خاتمے کی تعریفوں کے پلے کارڈ اٹھائے سڑکوں پر نکل آئے۔ نکسن کے حریف جارج میک گورن نے اس اعلان کو ‘ظالمانہ سیاسی دھوکا’ قرار دیا۔اس اعلان کی وجہ سے نکسن نے انتخابات میں کامیابی تو حاصل کرلی لیکن جنگ کو ختم ہوتے ہوتے مزید 3 سال لگ گئے۔

1979ء میں ایران میں امریکی سفارتخانے پر حملہ ہوا اور باون سفارتکاروں کو یرغمال بنا لیا گیا۔ صدر جمی کارٹر کی انتظامیہ نے تہران سے مذاکرات کیے اور مسئلہ جلد حل کی طرف بڑھتا نظر آیا۔ 21 اکتوبر کو اس وقت کے ایرانی صدر محمد علی رجائی نے غیر متوقع طور پر بیان دیا کہ یرغمالی رہا نہیں کیے جائیں گے۔ اس بیان نے ری پبلکن صدارتی امیدوار کے اس دعوے کو سچ ثابت کردیا کہ جمی کارٹر کی انتظامیہ کمزور ہے اور یرغمالیوں کو رہا کرانے کے قابل نہیں۔ ایرانی صدر کے بیان نے جمی کارٹر کی یقینی فتح کو شکست میں بدل دیا اور ریگن کو شاندار فتح ملی۔ اس انتخابات کے بعد سازشی تھیوری آئی کہ ریگن نے یرغمالیوں کی رہائی میں تاخیر کے لیے ایران کے ساتھ خفیہ ڈیل کی تھی۔

2000ء میں ری پبلکن امیدوار جارج ڈبلیو بش کا ڈیموکریٹ امیدوار الگور کے ساتھ کانٹے کا مقابلہ تھا۔ ووٹنگ سے 5 دن پہلے امریکی میڈیا نے رپورٹ شائع کی کہ بش 1976ء میں شراب پی کر ڈرائیونگ کرتے ہوئے گرفتار ہوئے تھے۔ بش کے حمایتیوں نے الزام لگایا کہ الگور نے یہ خبر میڈیا کو لیک کی ہے۔ خود بش نے بھی یہی الزام دہرایا اور کہا کہ ڈیموکریٹس گندی سیاست کر رہے ہیں۔ ووٹنگ میں الگور جیت گئے لیکن امریکی سپریم کورٹ نے متنازع بیلٹ کی دوبارہ گنتی کے لیے فلوریڈا کی عدالت کا حکم خارج کردیا اور الیکٹورل کالج میں بش جیت گئے۔

2004ء میں صدر بش کے مقابلے میں جان کیری صدارتی امیدوار تھے۔ امریکا عراق اور افغانستان کی جنگوں میں پھنسا ہوا تھا اور ووٹنگ سے ایک ہفتہ پہلے الجزیرہ نے اسامہ بن لادن کی ایک ویڈیو جاری کی جس میں اسامہ نے امریکی صدر کو طعنے مارے اور امریکا کو دھمکیاں دیں۔ بش نے اس ویڈیو کو انتخابی مہم میں استعمال کیا اور دعویٰ کیا کہ امریکا کو صرف وہ ہی محفوظ رکھ سکتے ہیں، یوں بش آسانی سے کامیاب ہوگئے۔

7 اکتوبر 2016ء کو واشنگٹن پوسٹ نے ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کی ویڈیو جاری کی جس میں وہ خواتین سے نازیبا حرکات کرتے اور اخلاق سے گرے ہوئے تبصرے کرتے نظر آئے۔ اس ویڈیو کی وجہ سے ری پبلکن پارٹی کے کئی اہم رہنما ٹرمپ کی حمایت سے دستبردار ہوگئے۔ 28 اکتوبر کو ایف بی آئی کے ڈائریکٹر نے کانگریس میں بیان دیا کہ وہ سابق وزیرِ خارجہ ہلیری کلنٹن کی طرف سے سرکاری خط و کتابت کے لیے ذاتی ای میل سرور کے استعمال کی تفتیش کر رہے ہیں۔ ہلیری کلنٹن، ایف بی آئی ڈائریکٹر کے اس بیان کی وجہ سے ابتدائی جائزوں میں مقبولیت میں آگے ہونے کے باوجود الیکشن ہار گئیں۔

صدر ٹرمپ ہسپتال سے واپس آئے تو وائٹ ہاؤس نے ان کی ویڈیو اور کئی تصاویر جاری کیں جن کا مقصد امریکی عوام کو یقین دلانا تھا کہ صدر کورونا کے خلاف جنگ جیت رہے ہیں۔ وائٹ ہاؤس کی ویڈیو اور تصاویر نے عوام کو یقین دلانے کے بجائے مزید شکوک و شبہات میں ڈال دیا اور مزید افواہوں اور ابہام نے جنم لیا۔

صدر ٹرمپ کی بیٹی اور ان کی مشیر ایوانکا ٹرمپ نے صدر کی ایک تصویر ٹویٹر پر شیئر کی جس میں انہیں والٹر ریڈ ہسپتال میں کام کرتے دکھایا گیا۔ ایوانکا نے اس کے ساتھ لکھا کوئی بھی بات ٹرمپ کو امریکی عوام کے لیے کام کرنے سے روک نہیں سکتی۔ ایک اور تصویر میں صدر ایک کاغذ پر دستخط کرتے دکھائی دے رہے ہیں لیکن اس کا غور سے معائنہ کیا جائے تو وہ سادہ کاغذ پر دستخط کرتے نظر آتے ہیں۔

ویسے تو صدر ٹرمپ کی کئی تصاویر جاری کی گئیں جن میں وہ بظاہر مختلف مقامات پر الگ الگ لباس میں نظر آرہے ہیں لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ سب تصاویر محض 10 منٹ کے دورانیے میں لی گئیں اور یہ تاثر دینے کی کوشش کی گئی کہ صدر سارا دن کام کرتے رہے۔ وائٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کی گئی 4 منٹ کی ویڈیو میں ایک مقام پر صدر کھانستے محسوس ہوتے ہیں جسے اناڑی پن کے ساتھ ایڈٹ کیا گیا ہے۔

صدر کی بیماری سے متعلق وائٹ ہاؤس معالج اور چیف آف اسٹاف کی تضاد بیانی نے بھی شبہات کو بڑھاوا دیا۔ جیسے ایک طرف معالج نے ہفتے کے روز میڈیا کو بتایا کہ صدر کی حالت اچھی ہے اور پچھلے 24 گھنٹوں سے انہیں بخار نہیں ہوا اور وہ کسی بھی وقت ہسپتال سے باہر آسکتے ہیں۔ لیکن دوسری طرف چیف آف اسٹاف مارک میڈوز نے پول رپورٹرز کو بتایا کہ پچھلے 24 گھنٹوں سے صدر کی حالت زیادہ اچھی نہیں اور اگلے 48 گھنٹے اہم ہیں۔ یہ خبریں بھی آئیں کہ صدر نے جمعہ کے روز ہسپتال منتقلی سے پہلے وائٹ ہاؤس میں آکسیجن بھی لی۔ ہفتے کی رات مارک میڈوز نے فاکس نیوز کو بتایا کہ صدر کو بخار تھا اور ان کے خون میں آکسیجن کی سطح کم تھی۔

صدر ٹرمپ کی تضاد بیانیوں کی وجہ سے ان کی بیماری کے ساتھ ہی سازشی تھیوریز بھی گردش کرنے لگی تھیں۔ ٹی وی رائٹر اور پروڈیوسر ڈیوڈ سائمن نے فوری ردِعمل میں کہا کہ ’جب کوئی شخص بے تحاشا جھوٹ بولتا ہے تو کیا میں اس کے بارے میں یہ تصور کرنے میں غلط ہوں کہ یہ ایک جھوٹ اور اکتوبر سرپرائز ہے؟ ٹرمپ کورونا پازیٹو ہونے کا دعویٰ کر رہے ہیں، وہ خود کو بغیر علامات والے وائرس کا شکار بتائیں گے، بلیچ کے ساتھ شفایابی کا دعویٰ کریں گے، پھر کورونا کو ڈیموکریٹ پارٹی کا فریب قرار دیں گے، کیا میں غلط کہہ رہا ہوں یا درست؟‘

ٹرمپ کے حامی، قدامت پسند مصنف کرٹ شلیکٹر نے کہا کہ ’اس خبر کا مقصد نیویارک ٹائمز کی منفی رپورٹنگ کے بعد خبروں کو نیا رخ دینا ہے، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ صدر ڈرامہ کر رہے ہیں‘۔

صدر نے ہسپتال سے وائٹ ہاؤس واپسی سے پہلے ریکارڈ کیے گئے ویڈیو پیغام میں کہا کہ ’امریکی عوام گھبرانے کے بجائے گھروں سے باہر آئیں اور کام کریں۔ مؤثر دوائیں بنالی گئی ہیں، کوئی بڑا خطرہ نہیں ہے۔ ویکسینز بھی جلد آ رہی ہیں‘۔

میری نظر میں صدر کی بیماری شاید اکتوبر سرپرائز نہ ہو بلکہ ویکسین اکتوبر سرپرائز بن سکتی ہے۔ ٹرمپ کئی ہفتوں سے بار بار کہہ رہے تھے کہ الیکشن سے پہلے ویکسین آجائے گی۔ اب اطلاع یہ ہے کہ وائٹ ہاؤس نے اپنے سائنسی مشیروں پر بھی عدمِ اعتماد کردیا ہے اور فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کی ویکسین گائیڈلائنز کو کالعدم کرتے ہوئے ویکسین جلد مارکیٹ کرنے کی تیاری کرلی ہے، حالانکہ امریکا کے سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول کے ڈائریکٹر رابرٹ ریڈفیلڈ نے ایک ماہ پہلے کانگریس میں بیان دیا تھا کہ الیکشن سے پہلے ویکسین کے تیار ہونے کے امکانات نہیں۔

ٹرمپ اس کے باوجود اصرار کرتے رہے کہ ویکسین وسط اکتوبر یا نومبر کے آغاز میں تیار ہوجائے گی۔ اگست میں صدر ٹرمپ نے الزام لگایا تھا کہ ‘ڈیپ اسٹیٹ’ یا اسے جو بھی نام دیا جائے، ویکسین کی منظوری میں رکاوٹ ہے تاکہ انتخابی امکانات کو متاثر کیا جائے۔ صدر ٹرمپ نے ایک بار یہ بھی کہا تھا کہ ایف ڈی اے کی ویکسین کے لیے گائیڈ لائنز کی وائٹ ہاؤس سے منظوری ضروری ہے۔ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن (ایف ڈی اے) گائیڈ لائنز کے مطابق ویکسین رضاکاروں کو آخری خوراک دینے کے 2 ماہ بعد تک اس کے اثرات کا جائزہ لیا جانا چاہیے لیکن وائٹ ہاؤس اس کو ماننے کو تیار نہیں۔ اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ 3 نومبر سے پہلے کسی بھی دن صدر ٹرمپ ویکسین کا اعلان کرسکتے ہیں اور اپنے دعوے کی تصدیق کے لیے کسی سائنسدان کو بھی سامنے لاسکتے ہیں۔

کورونا وائرس کو دونوں طرف سے سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے۔ جو بائیڈن بار بار امریکا میں وائرس متاثرین اور ہلاکتوں کی تعداد کا موازنہ بھارت اور روس سے کرتے ہیں۔ صدر ٹرمپ کی تضاد بیانی کو اجاگر کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور فیس ماسک استعمال نہ کرنے اور فیس ماسک کے استعمال کی حوصلہ شکنی کو بھی ان کی تقریروں میں نمایاں کیا جا رہا ہے۔

جو بائیڈن کورونا وائرس کے حوالے سے کوئی بھی سرپرائز دینے کی پوزیشن میں ابھی تو نظر نہیں آتے لیکن کارٹر بمقابلہ ریگن الیکشن کی طرز پر صدر ٹرمپ کی کوششوں میں رکاوٹ بن سکتے ہیں اور ٹرمپ بار بار اس خدشے کا اظہار بھی کر رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ اکتوبر سرپرائز دے کر اپنی جیت کے امکانات مضبوط کرسکتے ہیں لیکن کیا ایسی کسی ویکسین پر عوام کو اعتماد ہوگا؟

3 نومبر کی پولنگ کے بعد ایک اور امتحان درپیش ہونے کا خدشہ ہے اور وہ ہے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے کا۔ صدر ٹرمپ بار بار الیکشن فراڈ کے خدشات کا ذکر کرتے ہیں، بذریعہ ڈاک ووٹوں پر سوال اٹھاتے ہیں، گنتی میں تاخیر کا بھی امکان ظاہر کرتے ہیں اور اس تاخیر اور بعدازاں دوبارہ گنتی کے مطالبات اور ان کی آڑ میں دھاندلی کا ڈر ظاہر کرتے ہیں۔ صدر ٹرمپ سے بار بار پوچھا گیا کہ کیا وہ انتخابی نتائج تسلیم کریں گے اور ہر بار بار وہ یہ سوال ٹال گئے۔

ووٹنگ کا عمل شروع ہوچکا ہے۔ اتوار تک 33 لاکھ ووٹ کاسٹ ہوچکے تھے، ووٹروں کی مزید بڑی تعداد کورونا وبا کے ڈر سے بذریعہ ڈاک ووٹنگ یا قبل از وقت ووٹنگ کا سوچ رہی ہے اور 3 نومبر سے پہلے بڑی تعداد میں ووٹ کاسٹ ہوجائیں گے۔ امریکا کے انتخابی مبصرین کو سب سے بڑا سوال جو درپیش ہے، وہ یہ ہے کہ کیا ٹرمپ نتائج تسلیم کرلیں گے؟ اگر انہوں نے نتائج تسلیم کرنے سے انکار کیا تو کون ان سے تسلیم کروائے گا؟ اس کا حل کیا ہوگا؟

سب سے بڑا خدشہ جو سر اٹھا رہا ہے اس کا سوچ کر ہی مبصرین بے چین ہیں۔ انتخابی نتائج کے بعد ووٹوں کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کیا جا سکتا ہے، بذریعہ ڈاک موصول ہونے والے ووٹوں کو شمار سے باہر کرنے کی کوشش میں ہر ریاست میں عدالتی کارروائی کی تیاری ہوچکی ہے اور یہ تیاری ری پبلکن وکیل کر رہے ہیں۔ اگر ووٹوں میں بڑا فرق نہ ہوا تو مظاہرے بھی شروع ہوسکتے ہیں۔ الیکٹورل کالج کا تنازع عدالت کو حل کرنا پڑسکتا ہے اور اسی لیے صدر ٹرمپ حال ہی میں سپریم کورٹ کی خالی ہونے والی نشست پر تقرر الیکشن سے پہلے چاہتے ہیں جبکہ جو بائیڈن کا مطالبہ تھا کہ یہ تقرر نئے صدر پر چھوڑ دیا جائے۔ 3 نومبر کی پولنگ سے 20 جنوری کو صدر کے حلف تک کا درمیانی عرصہ امریکی سیاست میں طوفانی بھی ہوسکتا ہے۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں