آپ کو یقین ہوسکتا ہے کہ صدیوں کی تحقیق اور ارگرد موجود اربوں افراد کے بعد ہم نے اپنے جسم کے اندر ہر عضو کو دریافت کرلیا ہے، تاہم آپ غلط ہیں، درحقیقت اب بھی نئے اعضا دریافت ہورہے ہیں۔

2017 تک مانا جاتا تھا کہ انسانی جسم میں 78 اعضا ہیں مگر پھر میسینٹری (آنتوں کو معدے کے بیرونی حصے سے جوڑنے والی جھلی) کا اضافہ ہوا جس کے بعد یہ تعداد 79 ہوگئی، جبکہ 2018 بھی ایک عضو دریافت کرنے کا دعویٰ سامنے آیا تھا جو درحقیقت انسانی جسم کا سب سے بڑا عضو بھی سمجھا جاسکتا ہے۔

یہ جسم کا سب سے بڑا عضو ہوسکتا ہے اور پھر بھی یہ صدیوں تک ماہرین کی نظر سے کیسے دور رہا؟

تحقیق کے مطبق درحقیقت انٹرسٹیٹیم نامی اس نئے عضو کے بارے میں عرصے سے سمجھا جارہا تھا کہ یہ بمشکل سخت اور ٹھوس ٹشو ہے جو جلد کے نیچے، اندرونی اعضاء، شریانوں اور رگوں کے ارگرد، مسلز کے ریشے دار پٹھوں کے درمیان موجود ہوتا ہے۔

آسان الفاظ میں سائسندانوں کا کہنا تھا کہ یہ نیا عضو بظاہر انسانی نظر سے اوجھل تھا مگر اب اس کی دریافت سے جسم میں کینسر کے پھیلنے کے عمل کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔

پھر 2019 میں سوئیڈن کے کیرولینسکا انسٹیٹوٹ کے محققین نے ایک نئے عضو کو دریافت کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے بتایا کہ یہ ایسے خصوصی خلیات ہیں جو درد کا احساس کرنے والے اعصابی خلیات کے گرد ہوتے ہیں جو جلد کی اوپری تہہ میں تک درد کا احساس دلاتے ہیں۔

آسان الفاظ میں چوٹ لگنے پر جب آپ کے تکلیف سے بھری آواز نکلتی ہے تو اس کے پیچھے یہ نیا عضو ہوتا ہے۔

محققین کے مطابق اس نئی دریافت سے درد کے بارے میں نئی تفصیلات جاننے کا موقع ملے گا اور اس سوال کا جواب جاننے میں مدد ملے گی کہ کیا یہ خلیات ہی دائمی درد کا باعث بننے والے امراض کی اصل وجہ تو نہیں۔

یعنی 2017 سے ہر سال ایک نیا عضو دریافت ہو رہا ہے اور اب 2020 میں بھی سائنسدانوں نے حادثاتی طور پر ایک نیا عضو دریافت کرلیا ہے یا کم از کم ان کا تو یہی دعویٰ ہے۔

نیدرلینڈز کینسر انسٹیٹوٹ کے ماہرین نے یہ عضو سر اور گردن کے کینسر کے مریضوں پر ایک نئے انداز کے اسکین کے دوران دریافت کیا۔

ماہرین کی جانب سے مثانے کے کینسر کے جسم کے مختلف حصوں میں پھیلاؤ کی ٹریکنگ نے کے لیے اس نئے اسکیننگ طریقے کو موثر دریافت کیا جس میں مریضوں کے جسم میں اسکین سے قبل ریڈیو ایکٹیو گلوکوز انجیکٹ کی جاتی ہے، جو کینسر زدہ رسولیوں اسکین میں روشن کرکے نمایاں کرتا ہے۔

مریضوں میں اس اسکین کے استعمال کے دوران تحقیقی ٹیم نے سر میں 2 ایسے حصوں کو دیکھا جو غیرمتوقع طور پر روشن ہوگئے تھے۔

جیسے جیسے وہ مریضوں میں اسکیننگ کرتے، یہ حصے جگمگانے لگتے اور تحقیق میں شامل تمام سو افراد کے اسکین میں یہ روشن حصے دیکھے گئے۔

محققین کو بتدریج احساس ہوا کہ یہ کوئی مسئلہ نہیں بلکہ ایک بالکل نیا عضو ہوسکتا ہے۔

اب طبی جریدے ریڈیو تھراپی اینڈ آن کولوجی میں اس نئی دریافت کے حوالے سے تفصیلات جاری کی گئی ہیں جس کے مطابق یہ لعاب دہن بنانے والے گلینڈز ۔ ماؤس ممبرین گلینڈز کے سیٹ متعدد نالیوں کے ساتھ ہیں، جو رینو فیرنکس یا ناک اور حلقوم کے عقب میں واقع ہیں۔

محققین کے مطابق ہم نے دریافت کیا کہ لوگوں میں لعاب دہن کے گلینڈز کے 3 بڑے سیٹس ہیں، حالانکہ اس سے پہلے ہمیں یہ معلوم تھا کہ یہ ناک اور حلقوم میں یہ گلینڈز بہت چھوٹے ہوتے تھے، تو آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ اس نئی دریافت سے ہم کتنے حیران ہوئے ہوں گے۔

ٹیم نے اپنی دریاافت کی تصدیق ایمسٹرڈیم میں اپنے ساتھیوں کو کی اور اس نئے عضو کو ٹبیریل گلینڈز (tubarial glands) کا نام دیا جو ان کے مقام کے حوالے سے ہے۔

انہوں نے یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ گلینڈز ریڈی ایشن تھراپی کے عمل سے گزرنے والے مریضوں میں پیچیدگیوں جیسے نگلنے میں مشکلات کا باع بنتی ہیں اور مستقبل میں اس دریافت سے ماہرین اس سے حصے سے گریز کرکے ممکنہ پیچیدگیوں کی روک تھام کرسکیں گے۔

انہوں نے کہا کہ ریڈی ایشن تھراپی سے ان لگینڈز کو نقصان پہنچ سکتا ہے جو ممکنہ پیچیدگیوں کا باعث ہووتا ہے، مریض کے لیے کھانا، نگلنا یا بات کرنا مشکل ہوجاتا ہے جو ایک حقیقی بوجھ ہوتا ہے۔

تحقیقی ٹیم نے ریڈی ایشن کے علاج کے عمل سے گزرنے والے 723 مریضوں میں اس کا جائزہ لینے کے بعد دریافت کیا کہ جتنی زیادہ ریڈی ایشن جسم کے اس ٹیبریل گلینڈز کے حصے میں بھیجی جاتی ہے، اتنی ہی زیادہ پیچیدگیوں کا سامنا مریضوں کو ہوتا ہے۔

جو کہ ایک اچھی خبر بھی ہے کیونکہ مستقبل قریب میں بیشتر مریضوں کے نئے عضو میں ریڈی ایشن بھیجنے سے روک کر انہیں مختلف مسائل سے بچایا جاسکتا ہے۔

خیال رہے کہ انسانی جسم کے اعضا کی فہرست میں اضافے کے لیے اکثر کئی برس لگ جاتے ہیں کیونکہ اس کے لیے فیصلہ کئی مراحل کے بعد ہوتا ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں