صحافتی تنظیموں کا بھارت میں صحافیوں کے خلاف بغاوت کے مقدمات پر اظہار تشویش

اپ ڈیٹ 22 اکتوبر 2020
عالمی صحافتی تنظیموں نے بھارتی وزیراعظم کو خط لکھ کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا—فائل فوٹو: رائٹرز
عالمی صحافتی تنظیموں نے بھارتی وزیراعظم کو خط لکھ کر اپنے تحفظات کا اظہار کیا—فائل فوٹو: رائٹرز

کراچی: آزادی صحافت کے لیے مدیروں، میڈیا سربراہان اور نامور صحافیوں کے عالمی نیٹ ورک انٹرنیشنل پریس انسٹیٹیوٹ (آئی پی آئی) اور صحافیوں کی یونیز اور تنظیموں کی عالمی فیڈریشن، انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس (آئی ایف جے) نے بھارت میں صحافیوں کے خلاف بغاوت کے الزامات کے استعمال میں اضافے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔

ڈان اخبار میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے نام لکھے گئے ایک خط میں دونوں عالمی تنظیموں نے کہا کہ گزشتہ چند ماہ سے صحافیوں کی ایک بڑی تعداد پر انڈین پینل کوڈ کی دفعہ 124 اے کے تحت فرد جرم عائد کی گئی جس کے مطابق بغاوت پر 3 سال قید کی سزا ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ 5 اکتوبر کو کیرالہ کے ایک صحافی صدیق کپن اتر پردیش کے ضلع ہتھراس میں ایک ریپ متاثرہ کے اہلِخانہ تک پہنچنے کی کوشش کررہے تھے کہ انہیں گرفتار کر کے بٖغاوت کا مقدمہ درج کردیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ہندو راشٹریہ کے نمائندے مودی بھارت کو یہ نقصان کیوں پہنچا رہے ہیں؟

خط میں کہا گیا کہ 6 اکتوبر کر کیرالہ یونین آف ورکنگ جرنلسٹس نے صدیق کپن کی گرفتاری کے خلاف حبس بیجا کی درخواست دائر کی جو یونین کے دہلی یونٹ کے سیکریٹری بھی تھے۔

تنظیموں نے کہا کہ اسی طرح مئی میں گجراتی نیوز پورٹل ’فیس آف نیشن‘ کے مالک اور مدیر کو ایک رپوٹ شائع کرنے پر پولیس نے قید کر کے بغاوت کا مقدمہ درج کرلیا، رپورٹ میں خیال ظاہر کیا گیا تھا کہ ریاست کی سیاسی قیادت تبدیل ہوجائے گی۔

ان پر ڈیزاسٹر منیجمنٹ ایکٹ کی دفعہ 54 کے تحت جھوٹی افراتفری پھیلانے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔

جس پر ایڈیٹرز گِلڈ انڈیا نے اپنے ایک بیان میں یہ معاملہ اٹھایا اور بغاوت اور آئی پی سی کے ساتھ ساتھ خصوصی قوانین کے غلط استعمال پر سخت تشویش کا اظہار کیا تھا۔

اسی طرح چھتیس گڑھ پولیس نے بھومکل سماچار کے مدیر کمل شکلا کے خلاف فیس بک پر ایک کارٹون شیئر کرنے پر بغاوت کا مقدمہ درج کیا۔

مزید پڑھیں: مقبوضہ کشمیر میں خاتون صحافی کے خلاف غداری کا مقدمہ درج

مذکورہ کارٹون سپریم کورٹ کی جانب سے 2014 میں اسپیشل سینٹرل بیورو کے جج برج گوپال لویا کی پر اسرار موت کی آزادانہ تحقیقات کے مطالبے کی درخواست مسترد کرنے کے فیصلے سے متعلق تھا۔

اس کیس کی جانب این یو جے (آئی) اور آئی جے یو نے حکام کی توجہ مبذول کروائی تھی۔

ایسوسی ایشنز نے کہا کہ ایک دوسرے کیس میں معروف صحافی ونود دُوا پر ہماچل پردیش کی پولیس نے بغاوت کا مقدمہ درج کیا۔

مذکورہ کیس ونود دعا کی جانب سے یوٹیوب نشریات میں کووِڈ 19 سے متعلق تیاریوں پر حکومت کو مورد الزام ٹھہرانے اور وزیراعظم نریند مودی کے خلاف ذاتی الزامات عائد کرنے پر درج کیا گیا۔


یہ خبر 22 اکتوبر 2020 کو ڈان اخبار میں شائع ہوئی۔

تبصرے (0) بند ہیں