سام سنگ کو ایک علاقائی کمپنی سے دنیا بھر میں جانے پہچانے برانڈ میں بدل دینے والے اس کے چیئرمین لی کن ہی طویل علالت کے بعد 78 سال کی عمر میں چل بسے۔

ان کی موت کی وجہ بیان نہیں کی گئی مگر وہ 2014 میں ہارٹ اٹیک کے بعد سے علیل تھے ۔

جنوبی کورین میڈیا کے مطابق لی کن ہی سام سنگ کے بانی لی بیونگ چل کے بیٹے تھے، جن کو 1980 کی دہائی میں سام سنگ پر مکمل اختیار حاصل ہوا تھا۔

یہ وہ وقت تھا جب جنوبی کوریا فوجی آمریت سے جمہوریت کی جانب منتقل ہورہا تھا اور اس زمانے میں سام سنگ سستے ٹی وی اور برقی مصنوعات تیار کرنے والی کمپنی تھی۔

1993 میں لی کن ہی نے کمپنی کی نئی انتظامیہ کا اعلان کیا تھا اور کمپنی کو عالمی معاشرے میں بہترین ٹیکنالوجی فراہم کرنے والا بنانے کا عزم کیا تھا۔

ان کو قانونی مشکلات کا بھی سامنا ہوا، پہلے 1995 میں وہ اس وقت کے جنوبی کورین صدر کو رشوت دینے کے الزام میں مجرم ثابت ہوئے جبکہ 2008 میں ٹیکس چوری کے الزامات ثابت ہوئے، مگر ہر بار سزا کو معاف کردیا گیا، تاہم دوسری بار سزا سنائے جانے کے بعد ان سے انٹرنیشنل اولمپک کمیٹی کا عہدہ واپس لے لیا گیا تھا۔

اپنے دور میں لی کن ہی نے الیکٹرونکس کے مختلف شعبوں بشمول سیمی کنڈکٹر، میموری چپس، ڈسپلے اور دیگر میں کمپنی آگے بڑھایا اور آج کی ڈیجیٹل ڈیوائسز میں ان کا استعمال عام ہے۔

1998 میں آسیان ممالک کے مالی بحران سے نمٹنے کے بعد انہوں نے اس شعبے پر سرمایہ کاری کی جو اب دنیا بھر میں مقبول ہے یعنی گلیکسی اسمارٹ فونز۔

اسمارٹ فونز کے شعبے میں قدم رکھنے کے بعد سام سنگ ایک صنعتی پاور ہاؤس سے عالمی برانڈ کی شکل اختیار کرگئی۔

سام سنگ گروپ کے شامل میں سام سنگ الیکٹرونکس اس وقت دنیا کی سب سے بڑی کمپنیوں میں سے ایک ہے جس کی قیمت 350 ارب ڈالرز سے زیادہ ہے۔

سام سنگ کو حالیہ برسوں میں مختلف مشکلات کا سامنا ہوا, 2014 میں لی کن ہی کو ہارٹ اٹیک کے بعد ان کی ذمہ داریاں ان کے بیٹے لی جائے یونگ نے سنبھال لی تھیں۔

ان پر 2016 میں جنوبی کوریا کی سابق خاتون صدر پارک گوین ہے کو رشوت دینے کے الزامات اس وقت عائد کیے گئے تھے ، جب سابق خاتون صدر کو کرپشن الزامات کے باعث عہدے سے الگ ہونا پڑا تھا۔

لی جائے یونگ پر الزام تھا کہ انہوں نے سابق خاتون صدر کی ایک خاتون دوست کو فلاحی تنظیم کے نام پر اربوں ڈالر رشوت دی تاکہ حکومت سام سنگ کو مختلف مسائل پر تحفظ فراہم کرے۔

رشوت، کرپشن اور دھوکے کے الزامات میں 2017 میں عدالت نے مجرم قرار دیتے ہوئے 5 سال قید کی سزا بھی سنائی تھی تاہم بعد ازاں سیول ہائی کورٹ نے ان کی سزا معطل کردی تھی۔

دوسری جانب ہارٹ اٹیک کے بعد سے لی کن ہی ہسپتال میں زیرعلاج رہے تھے اور انتقال کے وقت وہ 20 ارب ڈالرز کے مالک ہونے کے ساتھ جنوبی کوریا کے امیر ترین شخص بھی تھے۔

انہوں نے اپنے پسماندگان میں ایک بیوی اور 4 بچوں کو چھوڑا ہے۔

سام سنگ گروپ کیا ہے؟

سام سنگ گروپ نہ صرف جنوبی کوریا بلکہ ایشیا کے چند بڑے گروپس میں سے ایک اور دنیا کے بڑی کمپنیوں میں سے بھی ایک ہے۔

سام سنگ گروپ کی آغاز 1940 میں ہوا تھا اور ابتدائی طور پر اس گروپ نے ٹریڈنگ سے کام کا آغاز کیا اور بعد ازاں تعمیراتی شعبے میں بھی خدمات شروع کردیں۔

کچھ ہی سالوں میں اس گروپ میں اضافہ ہوتا گیا اور اس گروپ نے ٹیکسٹائل اور الیکٹرانک آلات سمیت فیشن اور دیگر شعبوں میں بھی کمپنیاں بنانا شروع کیں۔

اس گروپ کے جنوبی کوریا کے دارالحکومت سیول کے معروف علاقے سام سنگ کا نام دیا گیا اور دنیا بھر کے زیادہ تر لوگ اس راز سے واقف نہیں ہیں کہ سام سنگ سیول کا کوئی معروف علاقہ بھی ہے۔

اس وقت سام سنگ الیکٹرانکس سمیت سام سنگ انجنیئرنگ، سام سنگ سی اینڈ ٹی، سام سنگ ہیوی انڈسٹریز، سام سنگ لائف انشورنس اور سام سنگ فائر اینڈ میرین سمیت دیگر کمپنیاں کام کر رہی ہیں اور چیل انڈسٹریز کو بھی اس کا حصہ بنادیا گیا ہے۔

چیل انڈسٹریز کے تحت بھی فیبرکس، فائبر اور فیشن سمیت دیگر شعبوں کی متعدد ذیلی کمپنیاں الگ کام کرتی ہیں اور گروپ کے وائس چیئرمین لی جائے یونگ تمام کمپنیوں کے وارث بننا چاہتے ہیں۔

سام سنگ گروپ کا آغاز لی جائے یونگ کے دادا لی بائنگ چل نے کیا تھا، جس کے ان کے بیٹے اور حالیہ وائس چیئرمین کے والد لی کن ہی گروپ کے چیئرمین بنے تھے۔

مگر 2014 میں لی کُن ہی کو دل کا دورہ پڑنے کے بعد ان کے بیٹے 52 سالہ لی جائے یونگ نے کمپنی کے معاملات سنبھالے اور اب انہیں ہی کمپنی کا اصل مالک سمجھا جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ابھی تک قانونی طور پر ان کے پاس وائس چیئرمین کا عہدہ ہے جب کہ بیماری کے باعث کمپنی کے معاملات سے دور ان کے والد لی کن ہی تاحال گروپ کے چیئرمین ہیں۔

تبصرے (0) بند ہیں