زمبابوے کی ٹیم جب 3 ایک روزہ اور 3 ٹی20 میچوں کی سیریز کھیلنے کے لیے چند ہفتے قبل پاکستان پہنچی تو عام خیال یہ تھا کہ مہمان ٹیم پاکستان کے لیے تر نوالہ ثابت ہوگی اور پاکستان باآسانی یہ سیریز جیت جائے گا۔

لیکن صورتحال تو اس کے برعکس نظر آئی۔ دونوں ٹیموں نے اپنی کارکردگی سے اس بات کا کھل کر اظہار کیا کہ دونوں کی کارکردگی میں زیادہ فرق نہیں ہے۔

پہلے ایک روزہ میچ کی بات کریں تو اس میں قومی ٹیم نے زمبابوے کو 26 رنز سے شکست دی۔ اس میچ میں جس وقت برینڈن ٹیلر اور ویزلے میڈہیور نے پانچویں وکٹ کے لیے 119 رنز کی شراکت قائم کی تو زمبابوے کی فتح کے امکانات روشن ہوگئے تھے۔ لیکن پھر وہاب ریاض اور شاہین آفریدی نے تیزی سے وکٹیں حاصل کرکے زمبابوے کی امیدوں پر پانی پھیر دیا۔ پھر دوسرے ایک روزہ میچ میں پاکستان نے کم بیک کیا اور یک طرفہ مقابلے میں مہمان ٹیم کو 6 وکٹوں سے ہرا دیا۔

لیکن سیریز میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد شاید ہی کسی نے سوچا ہوگا کہ آخری میچ میں اتنا سارا ڈرامہ ہوگا اور اس ڈرامے میں ہمارے لیے شرمندگی کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔

ایک روزہ سیریز کے تیسرے میچ میں زمبابوے نے سپر اوور کے نتیجے میں پاکستان کو شکست دے کر اپنے ناقدین کو بھرپور جواب دیا۔ یہ ایک روزہ مقابلوں میں زمبابوے کی پاکستان کے خلاف پانچویں فتح ہے۔ اس سے پہلے زمبابوے نے آخری مرتبہ 2015ء میں ہرارے کے مقام پر پاکستان کو اس فارمیٹ میں شکست دی تھی۔ ہرارے اور شیخوپورہ کے بعد راولپنڈی تیسرا مقام ہے جہاں زمبابوے نے پاکستان کو ایک روزہ کرکٹ میں شکست کی ہزیمت سے دوچار کیا ہے۔

جدید زمانے میں پرانی سوچ

پاکستان اور زمبابوے کی اس سیریز کا جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ پاکستان ابھی تک 1990ء کی دہائی میں کھیلی جانے والی سوچ سے باہر نہیں آیا۔

قومی ٹیم اور کرکٹ بورڈ کے کرتا دھرتاؤں کو یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ ایک روزہ کرکٹ گزشتہ 10، 15 سالوں میں بہت تبدیل ہوچکی ہے۔ ایک روزہ کرکٹ میں آنے والی اس تبدیلی میں ٹی20 کرکٹ کے آغاز اور اس کے مقبول ہونے نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

اب تو 50 اوور کے کھیل میں بھی شروع سے ہی جارحانہ انداز اپنایا جارہا ہے اور بڑے ہدف کو سامنے رکھ کر اننگ ترتیب دینی ہوتی ہے۔ ایک روزہ کرکٹ کا بنیادی فارمولہ وہی ہے کہ جتنے رنز ابتدائی 30 اوورز میں بنیں، تو آخری 20 اوورز میں اس سے بھی زیادہ یا پھر کم از کم اتنے رنز تو لازمی بنائے جائیں۔ لہٰذا ٹیمیں اس فارمیٹ میں اب ابتدا ہی سے ایک بڑا اسکور ذہن میں رکھ کر اننگ کا آغاز کرتی ہیں، اور یہ بڑا اسکور کسی بھی طور پر 300 سے کم نہیں ہوتا۔

لیکں قومی ٹیم نے آج بھی اپنا الگ راستہ اختیار کیا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے جیسے 250 رنز سے زیادہ بنانے کی کبھی نیت ہی نہیں ہوتی۔ پاکستان کی حکمت عملی کی اس کمزوری کے باعث آج بھی قومی ٹیم 250 رنز یا اس سے زیادہ کے ہدف کا تعاقب کرتے ہوئے لڑکھڑا جاتی ہے اور اس لڑکھڑاہٹ کا نتیجہ بار بار شکست کی صورت میں نکل رہا ہے۔

خوف کے سائے میں ہونے والی کپتانی

پاکستان میں قاتل جبلت یعنی کِلر اِنسٹنکٹ کا فقدان ہے۔ زمبابوے کے خلاف موجودہ سیریز میں بھی پہلے اور تیسرے میچ میں یہ بات سامنے آئی کہ مخالف ٹیم کی ابتدائی وکٹیں جلدی گر جانے کے باوجود بھی کپتان بابر اعظم نے جارحانہ کھیل پیش کرتے ہوئے جلد سے جلد وکٹیں لینے کے بجائے سہل پسندی کی روش اختیار کرلی اور یوں اس روش کو اپنانے کے باعث مخالف ٹیم کو میچ میں واپس آنے کا موقع مل گیا۔ پہلے میچ میں تو اس پالیسی کا نقصان قومی ٹیم کو نہیں ہوا، لیکن تیسرے میچ میں ہمیں بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔

میں اب بھی حیران ہوں کہ جب تیسرے میچ میں مہمان ٹیم کے ابتدائی 4 کھلاڑی آؤٹ ہوگئے تھے تو پھر اپنے اہم ترین باؤلرز کی مدد سے جلد از جلد وکٹیں لینے کی کوشش کیوں نہیں کی گئی؟ کیوں یہ سوچا کہ اننگ آخری اوور تک جائے گی اور اسی سوچ کی وجہ سے اپنے پانچویں باؤلر کے کوٹے کے 10 اوور مکمل کرنے کو ترجیح دی؟

یہ درست ہے کہ 2 روز قبل ہی افتخار احمد نےدوسرے میچ میں 5 وکٹیں حاصل کیں تھیں لیکن ایک پارٹ ٹائم باؤلر سے روز روز ایسی جادوئی کارکردگی کی توقع کرنا کسی خام خیالی سے کم نہیں ہے۔ پھر اس میچ میں پاکستان نے 4 فاسٹ باؤلرز کا انتخاب کرکے بھی سب کو حیرت میں ڈال دیا۔

ٹیم سلیکشن کا فارمولہ یا اصول کیا؟

پاکستان کی ٹیم سلیکشن دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ میچ کے لیے 11 کھلاڑیوں کا انتخاب پچ اور میدان کی صورتحال اور کھلاڑیوں کی فارم اور صلاحیت سے زیادہ پسند اور ناپسند کی بنیاد پر ہوتا ہے یا پھر ایسا بھی ممکن ہے کہ ڈریسنگ روم میں موجود تمام کھلاڑیوں کے نام پرچیوں پر لکھ کر کسی ٹوپی میں ڈال دیے جاتے ہیں اور ان میں سے جو 11 نام پہلے ہاتھ میں آجاتے ہیں ان کو میدان میں اتار دیا جاتا ہے۔

ہم کیچ کب پکڑیں گے؟

پاکستان کی فیلڈنگ کا معیار ہمیشہ کی طرح اس بار بھی نہایت پست رہا۔ تیسرے میچ میں بھی فیلڈرز نے 3 کیچ چھوڑنے کے علاوہ اپنی سست مزاج فیلڈنگ کے باعث مہمان ٹیم کو 15 سے 20 رنز پلیٹ میں رکھ کر پیش کیے اور یہ رنز میچ میں فتح اور شکست کے درمیان فرق ثابت ہوئے۔

ناقص حکمتِ عملی

اس سیریز کے دوران پاکستان کی حکمتِ عملی میں موجود خامیوں کی فہرست بہت طویل ہے لیکن اس فہرست میں ٹیم منیجمنٹ نے اس وقت اضافہ کردیا جب سپر اوور میں بیٹنگ کے لیے آؤٹ آف فارم افتخار احمد کے ساتھ اپنا پہلا ایک روزہ میچ کھیلنے والے خوشدل شاہ کو بھیج دیا۔ سونے پر سہاگہ یہ ہوا کہ افتخار کے آؤٹ ہونے کے بعد بھی بابر اعظم نے خود آنے کے بجائے فخر زمان کو بھیج دیا۔

حالانکہ اسی اننگ میں سنچری اسکور کرکے بابر نے ناصرف اپنی بھرپور فارم کا مظاہرہ کیا تھا بلکہ کپتان ہونے کی حیثیت سے بھی یہ ان کی ذمہ داری تھی کہ وہ خود آگے بڑھ کر مشکل صورتحال کا سامنا کریں، لیکن بدقسمتی سے وہ ایسا نہیں کرسکے۔

آئی سی سی ورلڈ کپ سپر لیگ میں کمزور ہوتی ہماری پوزیشن

پاکستان اور زمبابوے کے مابین کھیلی جانے والی یہ سیریز آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ سپر لیگ کا حصہ ہے۔ یکم مئی 2020 سے 31 مارچ 2022 کے دوران اس ورلڈ کپ سپر لیگ میں شامل 13 ٹیموں کے مابین ہونے والی سیریز اس سپر لیگ کے حصے کے طور پر کھیلی جائیں گی۔

آئی سی سی کرکٹ ورلڈ کپ سپر لیگ کے پوائنٹس ٹیبل پر موجود ٹاپ 8 ٹیمیں عالمی کپ کے لیے براہِ راست کوالیفائی کرلیں گی جبکہ بقیہ 5 ٹیموں کو آئی سی سی کے ایسوسی ایٹ ممبران کے ساتھ عالمی کپ تک رسائی کے لیے کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنا پڑے گا۔

اس سپر لیگ کے سلسلے میں پاکستان اور ہالینڈ کے مابین ہونے والی ایک روزہ سیریز عالمی وبا کے باعث منسوخ ہوگئی جبکہ زمبابوے کے خلاف شکست کے باعث پاکستان 10 قیمتی پوائنٹس سے محروم ہوگیا۔ اس لیے پاکستان کو اگر عالمی کپ کے لیے براہِ راست رسائی حاصل کرنی ہے تو اپنے انداز کو بدلنا ہوگا ورنہ عالمی کپ تک براہِ راست رسائی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا، اور ہمیں کوالیفائنگ راؤنڈ کھیلنے کی شرمندگی اٹھانی پڑے گی۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں