'کورونا ویکسین کے باوجود عالمی وبا کے معاشی نقصانات جلد ختم نہیں ہوں گے'

اپ ڈیٹ 26 نومبر 2020
وبا کی وجہ سے معاشی نقصانات طویل عرصہ تک جاری رہنے کا خدشہ ہے اور غریب اور پسماندہ ممالک کی معیشتیں زیادہ متاثر ہو سکتی ہیں، رپورٹ - فائل فوٹو:اے ایف پی
وبا کی وجہ سے معاشی نقصانات طویل عرصہ تک جاری رہنے کا خدشہ ہے اور غریب اور پسماندہ ممالک کی معیشتیں زیادہ متاثر ہو سکتی ہیں، رپورٹ - فائل فوٹو:اے ایف پی

اسلام آباد: کورونا وبا کے خاتمے کے حوالے سے بڑھتے ہوئے اعتماد کے باوجود اقوام متحدہ کی تجارت و ترقی سے متعلق کانفرنس (یو این سی ٹی اے ڈی) کی جاری کردہ ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ کورونا وائرس ویکسین معاشی نقصان روک نہیں سکے گا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یو این سی ٹی اے ڈی کی رپورٹ کے مطابق وبا کی وجہ سے ہونے والے معاشی نقصانات طویل عرصہ تک جاری رہنے کا خدشہ ہے اور بالخصوص غریب اور پسماندہ ممالک کی معیشتیں زیادہ متاثر ہو سکتی ہیں۔

یو این سی ٹی اے ڈی کی 'امپیکٹ آف کووڈ۔19پینڈیمک آن ٹریڈ اینڈ ڈیولپمنٹ' رپورٹ کے مطابق سال 2020 کے دوران کووڈ-19 کی وبا سے بین الاقوامی معیشت میں 4.3 فیصد سکڑاؤ متوقع ہے۔

مزید پڑھیں: یوٹیوب نے کورونا وائرس کے 'علاج' سے متعلق ویڈیو پر امریکی چینل کو معطل کردیا

عالمی ادارے نے خبردار کیا ہے کہ کورونا وائرس کی عالمی وبا کے باعث دنیا بھر کے مزید 13 کروڑ افراد انتہائی غربت کا شکار ہو سکتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اگر فی الفور پالیسی ایکشن نہ لیا گیا تو اقوام متحدہ کا پائیدار ترقی کا ایجنڈا 2030 بری طرح متاثر ہو سکتا ہے۔

تجارتی بحالی اور وبا کے نقصانات کو کم کرنے کے لیے تجارتی پالیسیوں پر نظر ثانی کے ساتھ ساتھ ماحولیات کے شعبہ پر بھی خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

یو این سی ٹی اے ڈی نے بین الاقوامی برادری کو خبر دار کیا ہے کہ کووڈ 19 کے معاشی نقصانات کو کم کرنے کے لیے عالمی سطح پر مربوط اقدامات کیے جائیں تاکہ کروڑوں انسانوں کو غربت سے بچانے کے ساتھ ساتھ معاشی بحالی کو بھی یقینی بنایا جا سکے۔

یہ بھی پڑھیں: کورونا وائرس کی وہ پیچیدگی جو موت کا خطرہ بڑھائے

رپورٹ میں یو این سی ٹی اے ڈی نے عالمی معیشت کے تمام شعبوں پر وائرس کے گہرے اثرات کا پتا لگایا ہے اور معلوم کیا ہے کہ اس بحران نے عالمی تجارت، سرمایہ کاری، پیداوار، روزگار اور بالآخر انفرادی معاش پر بھی کیا اثر ڈالا ہے۔

اس رپورٹ میں بتایا گیا کہ وبائی مرض کا اثر غیر متزلزل اور سب سے زیادہ کمزور ممالک پر اثر انداز ہوا ہے جو کم آمدنی والے خاندانوں، تارکین وطن، غیر رسمی کارکنوں اور خواتین کو متاثر کرتی ہے۔

1998 کے ایشیائی مالی بحران کے بعد پہلی بار عالمی غربت عروج پر ہے۔

1990 میں عالمی غربت کی شرح 35.9 فیصد تھی، 2018 تک اس کو 8.6 فیصد تک محدود کردیا گیا تھا تاہم رواں سال پہلے ہی یہ 8.8 فیصد تک پہنچ چکا تھا اور امکان ہے کہ یہ 2021 میں بڑھ جائے گا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں