لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔
لکھاری لاہور یونیورسٹی آف مینیجمنٹ سائنسز میں اکنامکس پڑھاتے ہیں، اور IDEAS لاہور کے ویزیٹنگ فیلو ہیں۔

احمد ایک ایسے نجی پرائمری اسکول میں پڑھاتا ہے، جہاں ماہانہ فیس نہایت کم ہے۔ جب مارچ کے مہینے میں لگنے والا لاک ڈاؤن ختم ہوا اور لوگوں کی نقل و حرکت شروع ہوئی تو احمد نے ہر ہفتے اپنے طالب علموں کے گھر جاکر انہیں پڑھائی کی جانب راغب کرنا شروع کردیا۔

وہ ہر ہفتے ان سے ملتا، ان کی حوصلہ افزائی کرتا اور ہوم ورک کرنے میں ان کی مدد کرتا۔ ان طالب علموں کے پاس اسمارٹ فون یا ٹیبلٹ نہیں تھے جس سے وہ آن لائن تعلیم حاصل کرسکتے، اور اسی وجہ سے احمد ان کے گھر جاکر انہیں پڑھاتا تھا۔

احمد نے اپنا کچھ اس طرح کا معمول بنا لیا تھا کہ وہ اپنے تمام طلبہ سے رابطے میں رہتا تھا۔ اس نے یہ معمول اسکولوں کی بندش کے دوران بھی جاری رکھا۔ اس دوران ایسے حالات بھی آئے کہ اسکول مالک نے احمد سے کہا کہ وہ کچھ مہینے تک اس کو تنخواہیں نہیں دے سکتے۔ اگرچہ احمد کو نوکری سے نہیں نکالا گیا تھا لیکن وہ اور اسکول مالک دونوں ہی یہ نہیں جانتے کہ آخر اس وبا کے بعد اسکول دوبارہ کھلیں گے بھی یا نہیں؟

مزید پڑھیے: تعلیمی اداروں کا کھلنا اور والدین کی بڑھتی پریشانی!

احمد یہ سب صرف اپنے عزم کی بدولت کر رہا تھا۔ جس وقت اسکول دوبارہ کھلے تب تک احمد قرضوں میں ڈوب چکا تھا لیکن اس نے طالب علموں کو تعلیمی نقصان سے بچا لیا تھا۔

جب اسکول کھل گئے تو احمد کے اسکول مالک نے اپنے دوستوں سے کچھ قرض لیا تاکہ اسکول کو چلایا جاسکے۔ احمد نے بھی اکثر والدین کو اس بات پر آمادہ کرلیا کہ وہ اپنے بچوں کو اسکول بھیجیں۔ احمد نے اپنے رابطوں کے ذریعے اسکول کے لیے کچھ رقم بھی جمع کرلی جس سے ماسک، سینیٹائزر اور صابن خریدے گئے۔

اب جبکہ حالات دوبارہ معمول پر آنے لگے تھے، تو کورونا کی دوسری لہر نے ہمیں گھیر لیا ہے۔ فی الحال 10 جنوری 2021ء تک اسکول دوبارہ بند کردیے گئے ہیں۔ وبا کے پھیلاؤ کو دیکھتے ہوئے ہوسکتا ہے کہ بندش کا یہ دورانیہ مزید بڑھ جائے۔

اس وقت تک تو ملک میں لاک ڈاؤن نہیں لگا ہے اور احمد اپنے پرانے معمول کو اختیار کرنے کے لیے تیار ہے۔ اس نے اپنے طالب علموں کو ہوم ورک دے دیا ہے اور ان کے گھر آنے کا ایک شیڈول بھی ترتیب دے دیا ہے۔ احمد پُرامید ہے کہ اس مرتبہ وہ پہلے سے بھی بہتر طریقے سے طلبہ کی مدد کرسکے گا اور ان کی تعلیم کا بہت زیادہ نقصان نہیں ہوگا۔

پاکستان میں موجود ڈیجیٹل تقسیم ایک حقیقت ہے۔ ہم نے دیکھا کہ کس طرح اس پورے سال اس تقسیم نے تعلیمی عدم مساوات کو بڑھایا ہے۔ متوسط اور اعلیٰ طبقے کے گھرانوں سے تعلق رکھنے والے طلبہ تو آسانی سے آن لائن تعلیم پر منتقل ہوگئے لیکن نچلے طبقے کے طلبہ کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔

یہ بھی حقیقت ہے کہ پاکستان میں اسکول جانے والے بچوں کی اکثریت نچلے طبقے سے تعلق رکھتی ہے۔ اسکول جانے والے بچوں میں 55 سے 60 فیصد طلبہ سرکاری اسکولوں میں پڑھتے ہیں۔ 35 فیصد کے قریب بچے کم فیس والے نجی اسکولوں میں پڑھتے ہیں اور ان میں سے اکثریت کا تعلق نچلے طبقے سے ہوتا ہے۔ یہ بچے ڈیجیٹل تقسیم کا سب سے زیادہ شکار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا تعلیمی نظام احمد جیسے لوگوں کا محتاج ہے۔

مزید پڑھیے: آن لائن پڑھانے کا میرا اب تک کا تجربہ

احمد اکیلا نہیں تھا۔ پاکستان میں تقریباً 20 لاکھ استاد موجود ہیں، اور ان میں سے لاکھوں نے ان مشکل مہینوں میں اپنی ذمہ داری سے بڑھ کر کام کیا۔ اور ہمیں یقین ہے کہ وہ آئندہ مہینوں میں بھی اس کام کو جاری رکھیں گے۔

کئی اساتذہ نے خود مالی مشکلات کا شکار ہونے کے باوجود اپنے محلے کے غریب گھرانوں یا اپنے ضرورت مند طلبہ اور ان کے گھر والوں کے لیے چندہ جمع کیا۔ کچھ اساتذہ نے مل کر ان گھرانوں کی مدد کی جن کے گھر والے بیمار پڑگئے تھے۔ کئی اساتذہ نے اپنے پاس سے یا اپنے روابط سے چندہ جمع کرکے ضرورت مند طلبہ تک راشن، ماسک، سینیٹائزر اور صابن وغیرہ پہنچائے۔ یہاں تک کہ کچھ سرکاری اسکول، جہاں بنیادی سہولیات موجود نہیں تھیں وہاں اساتذہ نے آگے بڑھ کر اپنا کردار ادا کیا۔

لاکھوں اساتذہ نے گھروں پر جاکر یا فون پر طلبہ کے تعلیمی سلسلے کو جاری رکھنے کی کوشش کی۔ کچھ اسکولوں نے یہ نظام وضع کیا کہ طلبہ اسکول آکر اپنا ہوم ورک جمع کروا سکتے ہیں اور لے جا سکتے ہیں۔ یہ سب چیزیں نقصانات کا پورا پورا ازالہ تو نہیں کرسکتیں لیکن اس نقصان کو کم ضرور کرسکتی ہیں، اگر اساتذہ آگے نہیں بڑھتے تو کتنے ہی بچوں کا تعلیمی سفر ختم ہوچکا ہوتا۔

اب جبکہ اسکول ایک بار پھر بند ہوگئے ہیں تو ہمیں یقین ہے کہ اساتذہ پھر سے آگے آئیں گے اور گزشتہ تجربات سے سیکھتے ہوئے اس بار ان کی کاوشیں مزید منظم اور مربوط ہوں گی۔

اس پورے عرصے میں حکومت نے خاطر خواہ مدد نہیں کی۔ ریڈیو اور ٹی وی کے ذریعے تعلیم دینے کا سلسلہ تو شروع کیا گیا تھا لیکن یہ کافی نہیں ہے اور یہ بات بھی واضح نہیں ہے کہ یہ کتنا مؤثر ہے۔

مزید پڑھیے: 'کورونا نے ہمارے گلتے سڑتے تعلیمی نظام کو تو جیسے چکنا چور کردیا'

اگرچہ تعلیمی نظام 6 مہینوں تک تعطل کا شکار رہا لیکن اس دوران کسی نے بھی یہ نہیں سوچا کہ کیا حکومت نجی اور سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کی ان کے مذکورہ اقدام میں کوئی مدد کرسکتی ہے؟ کیا اس حوالے سے اسکولوں اور اساتذہ کو کچھ وسائل فراہم کیے جاسکتے ہیں؟

اس کے برعکس تمام تر کوششیں یکساں قومی نصاب کی تشکیل پر صرف کی گئیں۔ یقینی طور پر اس وقت یکساں نصاب سے زیادہ اساتذہ کی مدد کرنے کی ضرورت ہے۔ لیکن (تعلیمی ماہرین سمیت) کئی افراد کی جانب سے خبردار کیے جانے کے بعد بھی کہ ہمیں اگلے کچھ مہینے کورونا کی پابندیوں کے ساتھ گزارنے پڑیں گے، اس حوالے سے کسی کام کی کوئی امید نظر نہیں آتی۔

ہمیں معلوم ہے کہ بچوں کی تعلیم پر کورونا بہت منفی اثرات مرتب کرے گا اور اس وجہ سے اسکول جانے والے بچوں کی تعداد میں بھی کمی آسکتی ہے۔ ہمیں اس صورتحال سے بچنے کی ضرورت ہے۔ ملک کا ہر استاد ہمارا عظیم اثاثہ ہے۔ گزشتہ 6 مہینوں کے دوران ان میں سے ہر ایک نے آگے بڑھ کر کام کیا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان کی مدد کریں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ وہ اگلے چند ماہ تک اپنا کام بخوبی کرسکیں۔ لیکن اس کے لیے فوری طور پر حرکت میں آنے کی ضرورت ہے۔


یہ مضمون 27 نومبر 2020ء کو ڈان اخبار میں شائع ہوا۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (1) بند ہیں

علی Dec 01, 2020 10:51am
سندھ کے سرکاری اسکولوں کے استاذہ کئی ماہ سے گھر بیٹھے پوری کی پوری تنخواہیں لے رہیں۔ ان سے آن لائن کورس بنانے کا کام لیا جا سکتا تھا۔ اور کچھ نہی کرونا وبا کی معلوماتی مہم ہی چلائی جا سکتی تھی۔ سندھ کے سرکاری اسکولوں کے استاذہ کو تو بس گھر بیٹھے ہی سب کچھ چاھیے۔ احمد جیسا ایک بھی استاد ڈھونڈنا مشکل ہوگا۔ افسوس