ملتان میں پی ڈی ایم کا پاور شو، گھنٹہ گھر چوک جلسہ گاہ میں تبدیل

تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی کنٹینر پر موجود تھ —تصاویر: ڈان نیوز
تمام سیاسی جماعتوں کی قیادت بھی کنٹینر پر موجود تھ —تصاویر: ڈان نیوز
پارٹی کارکنان کی بڑی تعداد جلسہ گاہ پہنچ گئی—تصاویر: ڈان نیوز
پارٹی کارکنان کی بڑی تعداد جلسہ گاہ پہنچ گئی—تصاویر: ڈان نیوز

پاکستان میں کورونا وائرس کی دوسری لہر میں تیزی کے ساتھ ہی سیاسی ماحول بھی گرم ہے اور ملتان جلسے پر انتظامیہ اور اپوزیشن کے درمیان تنازع کے باوجود بالآخر اپوزیشن اتحاد پی ڈی ایم نے رکاوٹیں ہٹا کر ملتان کے گھنٹہ گھر چوک کو جلسہ گاہ میں تبدیل کردیا۔

جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن، مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز، پیپلز پارٹی کی آصفہ بھٹو زرداری گھنٹہ گھر چوک اور اطراف کی سڑکوں سے کنٹینرز پر جلسہ گاہ پہنچے۔

واضح رہے کہ حکومت نے کورونا کیسز میں اضافے کے پیش نظر اپوزیشن اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کو ملتان کے قلعہ کہنہ قاسم باغ اسٹیڈیم میں جلسے کی اجازت نہیں دی تھی لیکن پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں ہر حال میں جلسہ کرنے پر بضد تھی اور انہوں نے واضح کیا تھا کہ چاہے اسٹیڈیم میں ہو یا کسی سڑک پر لیکن ملتان میں جلسہ ہوگا۔

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ اب تک گوجرانوالہ، کراچی، کوئٹہ اور پشاور میں جلسے کرچکی ہے جبکہ آج اپنا پانچواں جلسہ کر رہی تھیں۔

جے یو آئی کے کارکنان کی بڑی تعداد بھی جلسہ گاہ پہنچ گیا—اسکرین شاٹ
جے یو آئی کے کارکنان کی بڑی تعداد بھی جلسہ گاہ پہنچ گیا—اسکرین شاٹ

جلسے سے قبل ہی انتظامیہ کی جانب سے حکومتی رٹ قائم کرنے کے لیے قلعہ کہنہ قاسم باغ کا کنٹرول سنبھال لیا گیا تھا اور اسٹیڈیم کے اطراف کنٹینرز لگا کر راستے بند کردیے گئے تھے۔

مزید پڑھیں: ملتان: قاسم باغ پر انتظامیہ کا کنٹرول، علی قاسم گیلانی سمیت درجنوں کارکنان گرفتار

تاہم بعد ازاں انتظامیہ کی جانب سے گھنٹہ گھر چوک پر کچھ رکاوٹیں ہٹائی گئی تھی جس کے بعد اپوزیشن جماعتوں کے کارکنان قلعہ کہنہ قاسم باغ کے اطراف لگی رکاوٹوں کو ہٹا کر اسٹیڈیم میں داخل ہوگئے تھے۔

پی ڈی ایم کارکنان کی بڑی تعداد کو دیکھتے ہوئے انتظامیہ کی جانب سے بھی اسٹیڈیم کے دروازے کھولنے کا حکم دیا گیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ بجلی کی بحالی کے احکامات بھی جاری کیے گئے تھے۔

تاہم جلسہ گاہ میں انتظامات نہ ہونے کے باعث مختلف جماعتوں کی قیادت نے اپنے کارکنان کے ہمراہ گھنٹہ گھر چوک کو ہی جلسہ گاہ میں تبدیل کردیا اور وہاں کنٹینرز پر موجود رہے۔

مسلم لیگ (ن) کے کارکنان کی بڑی تعداد بھی موجود ہے—اسکرین شاٹ
مسلم لیگ (ن) کے کارکنان کی بڑی تعداد بھی موجود ہے—اسکرین شاٹ

خیال رہے کہ اس سے قبل ملتان میں گھنٹہ گھر چوک کے راستوں کو بھی رکاوٹیں کھڑی کرکے بند کیا گیا تھا جبکہ وہاں پولیس کی بھاری نفری بھی تعینات تھی، مزید یہ کہ گیلانی ہاؤس کو جانے والے راستوں پر بھی رکاوٹیں لگائی گئی تھیں۔

اس کے ساتھ ساتھ ملتان شہر کے تمام داخلی راستوں پر بھی پولیس کی بھاری نفری تعینات کی گئی تھی وہی خواتین رہنماؤں سمیت سیاسی خواتین کارکنان کی موجودگی کے پیش نظر خواتین پولیس کی بھی بڑی تعداد گھنٹہ گھر چوک پر موجود تھی۔

گھنٹہ گھر چوک پر تعینات پولیس اہلکاروں کے پاس آنسو گیس کے شیل اور ربڑ کی گولیاں بھی موجود تھیں۔

یہ بھی پڑھیں: ملتان: قاسم باغ پر انتظامیہ کا کنٹرول، علی قاسم گیلانی سمیت درجنوں کارکنان گرفتار

شہر میں میٹرو اور اسپیڈو بس سروس کو بھی معطل کیا گیا تھا جبکہ انتظامیہ کی جانب سے شہر کے مختلف علاقوں میں موبائل فون سروس کو بھی معطل کیا گیا تھا جس سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

کارکنان کی بڑی تعداد جلسہ گاہ کے اطراف موجود نظر آرہی ہے—اسکرین شاٹ
کارکنان کی بڑی تعداد جلسہ گاہ کے اطراف موجود نظر آرہی ہے—اسکرین شاٹ

اس حوالے سے انتظامیہ کا کہنا تھا کہ شام تک موبائل سروس کو دوبارہ بحال کردیا جائے گا۔

آصفہ بھٹو کی ملتان جلسے سے سیاست میں اینٹری

آج کے جلسے کی ایک خاص بات یہ بھی تھی کہ اس میں پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کی چھوٹی صاحبزادی آصفہ بھٹو زرداری بھی شریک تھیں جسے ان کے سیاسی کیریئر کا آغاز سمجھا جارہا ہے۔

آصفہ بھٹو زرداری نے پیپلزپارٹی کی ریلی کی قیادت کی—تصویر: سوشل میڈیا
آصفہ بھٹو زرداری نے پیپلزپارٹی کی ریلی کی قیادت کی—تصویر: سوشل میڈیا

جلسے میں شرکت کے لیے آصفہ بھٹو زرداری ملتان ایئرپورٹ پہنچیں جہاں آصفہ بھٹو زرداری کا استقبال ایم پی اے علی حیدر گیلانی اور ان کی بہن نے کیا۔

بعد ازاں وہ ملتان میں گیلانی ہاؤس پہنچی جس کے بعد ان کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی ریلی کا آغاز گیلانی ہاؤس سے ہوا۔

اس موقع پر آصفہ بھٹو زرداری نے کارکنان سے خطاب میں ‘چلو چلو جلسہ گاہ چلو‘ کا نعرہ لگایا اور کہا کہ میرا یہی پیغام ہے۔

اس سے قبل بلاول بھٹو زرداری نے یہ پیغام دیا تھا کہ آصفہ بھٹو زرداری ملتان کے جلسہ عام میں میری نمائندگی اور پی ڈی ایم قیادت کا استقبال کریں گی۔

جلسے کے لیے اپوزیشن کی تیاری

دوسری جانب اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم بھی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے تیار نظر آئی اور ان کے کارکنان کی ملتان آمد کا سلسلہ جاری رہا۔

پاکستان پیپلزپارٹی نے اپنے جیالوں کو گیلانی ہاؤس پہنچنے کی ہدایت کی تھی جبکہ آصفہ بھٹو زرداری بھی گیلانی ہاؤس سے ریلی کی صورت میں جلسہ گاہ روانہ ہوئیں۔

اسی طرح پی ڈی ایم کے صدر اور جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن بھی جامعہ قاسم العلوم سے جلسہ گاہ روانہ ہوئے۔

مزید یہ کہ مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز کا استقبال چنگی نمبر 9 پر کیا گیا۔

علاوہ ازیں پیپلز پارٹی کے کارکنان نے گیلانی ہاؤس سے نشتر ہسپتال کی طرف آنے والے راستے پر لگے کنٹینر کو ہٹا دیا، اس موقع پر پی پی پی کارکنان کے ہمراہ علی موسیٰ گیلانی بھی موجود تھے۔

علی قاسم گیلانی کی ضمانت منظور ہوگئی، علی حیدر

دوسری جانب یوسف رضا گیلانی کے صاحبزادے علی حیدر گیلانی نے بتایا کہ لاہور ہائیکورٹ ملتان بینچ نے گرفتار علی قاسم گیلانی کی ضمانت منظور کرلی۔

علی حیدر گیلانی نے بتایا کہ 16 ایم پی او کے تحت بننے والا مقدمہ خارج کردیا گیا، جبکہ روبکار بھی ڈسٹرکٹ جیل بھیج دی گئی۔

ادھر علی موسیٰ گیلانی نے ڈان نیوز سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ جلسہ اور ریلی ہر ہال میں ہوگی۔

موسیٰ گیلانی کا کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کے مہمان سندھ سے آرہے ہیں ہم ان پر آنچ نہیں آنے دیں گے۔

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ میرا بھائی قاسم گرفتار ہے، ہم احتجاج کر سکتے تھے اس کے باوجود ہم پر امن ہیں۔

دوران گفتگو ان کا کہنا تھا کہ نیازی حکومت رات کے اندھیرے میں وار کرتی ہے جبکہ صبح میں ان لوگوں نے کنٹینر لگا دیے جسے ابھی ہم ہٹا کر آرہے ہیں۔

پی ڈی ایم کارکنان کی پکڑ دھکڑ

قبل ازیں ملتان میں اپوزیشن کے جلسے کو روکنے کے لیے پی ڈی ایم میں شامل بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کی پکڑ دھکڑ کی اطلاعات سامنے آئیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پنجاب کے مختلف اضلاع خاص طور پر جنوبی بیلٹ میں پولیس کی جانب سے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے رہنماؤں اور متحرک کارکنان کے گھروں پر چھاپہ مارنے اور انہیں حراست میں لینے اطلاعات موصول ہوئیں۔

انتظامیہ نے رکاوٹیں کھڑی کی تھی جبکہ کارکنان کی بھی پکڑ دھکڑ کی گئی تھی—تصاویر: ڈان نیوز
انتظامیہ نے رکاوٹیں کھڑی کی تھی جبکہ کارکنان کی بھی پکڑ دھکڑ کی گئی تھی—تصاویر: ڈان نیوز

اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے میڈیا کے ساتھ کچھ ڈپٹی کمشنرز کے حکم شیئرز کیے کہ پی ڈی ایم کے 2 بڑے حلقوں کی متحرک شخصیات کو 7 دن کے لیے سلاخوں کے پیچھے ڈالیں۔

اس بارے میں پیپلزپارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ نے کہا تھا کہ ملتان سے دور دراز اضلاع گجرات اور منڈی بہاالدین سے بھی پارٹی ورکرز کو اٹھایا گیا جبکہ بہاولپور، ملتانا ور ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں آنے والے اضلاع میں بھی کارروائیاں تیز کی گئیں۔

انہوں نے کہا کہ پارٹی کے عہدیداروں کو نظر بند کرنے کے ساتھ ساتھ پولیس نے فہرست کے ساتھ ٹوبہ ٹیک سنگھ، فیصل آباد، جھنگ، اوکاڑہ، پاک پتن اور ساہیوال میں بھی کارکنان کے گھروں پر چھاپے مارے۔

وہی مسلم لیگ (ن) نے بھی ان کارکنان کی فہرست شہئر کی جنہیں یا تو حراست میں لیا گیا یا نظر بند کردیا گیا۔

ان کے بقول ان افراد میں موجودہ اراکین صوبائی اسمبلی جیسے طلال چوہدری، عائشہ رجب، نوید کاشف، ثاقب خورشید اور چوہدری یوسف جبکہ سابق ایم پی ایز تہمینہ دولتانہ، اجینئر بلال کھر بھی شامل تھے۔

یہ بھی پڑھیں: ملتان جلسہ: پی ڈی ایم کارکنان 2 روز قبل ہی انتظامی رکاوٹیں توڑکر جلسہ گاہ میں داخل

علاوہ ازیں پولیس نے کوٹ سبزل (پنجاب-سندھ سرحد) پر کئی گاڑیوں کو نیشنل ہائی وے پر روکا اور انہیں اپوزیشن ورکرز خاص طور پر پیپلزپارٹی کے سندھ سے آنے والے ان کارکنان کو روکنے کے لیے استعمال کیا جو ملتان میں پارٹی کے یوم تاسیس میں شرکت کے لیے آرہے تھے۔

وہیں ضلعی انتظامیہ نے مختلف اضلاع سے ملتان آنے والے داخلی راستوں پر بھی رکاوٹیں کھڑی کیں اور مظفر گڑھ ملتان روڈ کو کنٹینر لگا کر بند کردیا تاکہ لوگوں کو پی ڈیم ایم جلسے میں شرکت سے روکا جائے۔

اسی طرح چوہدری عامر کرامت اور بلال کھر سمیت مسلم لیگ (ن) کے درجن بھر مقامی رہنماؤں کو بھی 16 ایم پی او کے تحت گرفتار کیا۔

یاد رہے کہ حکومت کی جانب سے ملک میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ کے پیش نظر جلسے اور جلوسوں پر پابندی لگائی گئی ہے تاہم اس کے باوجود پی ڈی ایم نے بغیر اجازت کے پشاور کا جلسہ کیا تھا.

پی ڈی ایم کیا ہے؟

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ، 20 ستمبر کو اپوزیشن کی آل پارٹیز کانفرنس کے بعد تشکیل پانے والا 11 سیاسی جماعتوں کا اتحاد ہے جو رواں ماہ سے شروع ہونے والے ’ایکشن پلان‘ کے تحت 3 مرحلے پر حکومت مخالف تحریک چلانے کے ذریعے حکومت کا اقتدار ختم کرنے کی کوشش کرے گی۔

ایکشن پلان کے تحت پی ڈی ایم نے رواں ماہ سے ملک گیر عوامی جلسوں، احتجاجی مظاہروں، دسمبر میں ریلیوں اور جنوری 2021 میں اسلام آباد کی طرف ایک ’فیصلہ کن لانگ مارچ‘ کرنا ہے۔

مولانا فضل الرحمن پی ڈی ایم کے پہلے صدر ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کے راجا پرویز اشرف سینئر نائب صدر ہیں اور مسلم لیگ (ن) کے شاہد خاقان عباسی اس کے سیکریٹری جنرل ہیں۔

اپوزیشن کی 11 جماعتوں کے اس اتحاد میں بڑی اپوزیشن جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (ن)، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی)، جمعیت علمائے اسلام (ف) سمیت دیگر جماعتیں شامل ہیں، تاہم جماعت اسلامی اس اتحاد کا حصہ نہیں ہے۔

تبصرے (0) بند ہیں