آسٹریلیا کا چین سے ’جعلی تصویر‘ پوسٹ کرنے پر معافی کا مطالبہ

اپ ڈیٹ 30 نومبر 2020
آسٹریلیا نے اس تصویر کو جعلی تصویر اور’انتہائی بدنما‘ قرار دیا ہے — فوٹو: رائٹرز
آسٹریلیا نے اس تصویر کو جعلی تصویر اور’انتہائی بدنما‘ قرار دیا ہے — فوٹو: رائٹرز

آسٹریلیا نے چینی حکومت کے ترجمان کی جانب سے آسٹریلوی فوج سے متعلق جعلی اور متنازع تصویر پوسٹ کرنے پر اسے ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق آسٹریلیا کے وزیر اعظم اسکاٹ موریسن نے چینی حکومت کے ترجمان ژاو لیجیان کے تصدیق شدہ ٹوئٹر اکاؤنٹ پر پوسٹ کی جانے والی تصویر کو ہٹانے کا مطالبہ کیا جس میں ایک مسکراتے ہوئے آسٹریلوی فوجی کو ایک خون آلود چاقو افغان بچے کے گلے پر رکھتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔

مزید پڑھیں: چین کیلئے جاسوسی کے الزام میں آسٹریلیا کے رکن پارلیمنٹ کے دفتر پر چھاپہ

آسٹریلیا نے اس تصویر کو جعلی اور’انتہائی بدنما‘ قرار دیا ہے۔

آسٹریلوی وزیراعظم نے مطالبہ کیا کہ چینی حکومت اپنے عمل پر معافی مانگے اور ٹوئٹر سے ٹویٹ کو ہٹا دے۔

خیال رہے کہ چینی حکومت کے ترجمان نے تصویر کو فیڈ کے اوپری حصے میں پِن کیا تھی۔

اسکاٹ موریسن نے کہا کہ ’یہ سراسر اشتعال انگیزی ہے اور اس عمل کے حق میں کوئی جواز نہیں بنایا جاسکتا‘۔

انہوں نے کہا کہ چینی حکومت کو اس حرکت پر شرمندہ ہونا چاہیے اوریہ عمل دنیا میں ان کی ساکھ کو گرا دے گا۔

یہ بھی پڑھیں: آسٹریلیا نے کورونا وائرس تحقیقات پر چین کی ’معاشی جبر‘ کی دھمکی کو مسترد کردیا

آسٹریلوی وزیراعظم نے کہا کہ دنیا بھر کے ممالک دیکھ رہے ہیں کہ چین کے آسٹریلیا کے ساتھ تعلقات میں تناؤ پر بیجنگ کس طرح ردعمل ظاہر کر رہا ہے۔

آسٹریلیا اور چین کے مابین حالیہ مہینوں میں تعلقات بہت تیزی سے خراب ہوئے ہیں۔

چین نے آسٹریلیا کے سامان پر اقتصادی پابندیوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جبکہ چین کے سرکاری میڈیا نے متعدد معاملات پر آسٹریلیا کی پالیسی پر کھل کر تنقید کی ہے۔

آسٹریلیا اور چین کے درمیان تعلقات میں کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں چینی حکومت کے ملوث ہونے کی تحقیقات کے مطالبے کے بعد تلخی پیدا ہوئی ہے۔

مزید پڑھیں: امریکا میں عام دوا کی کورونا کے مریضوں پر آزمائش

واضح رہے کہ رواں برس اپریل میں آسٹریلیا نے کورونا وائرس پر چین کی مخالفت کے باوجود تحقیقات جاری رکھنے کے عزم کے ساتھ ہی چین کو ’معاشی جبر‘ سے متعلق خبردار کردیا تھا۔

آسٹریلیا میں چینی سفارتکار چینگ جنگ یے نے ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’چینی عوام آسٹریلوی مصنوعات اور یونیورسٹیز کو نظر انداز کرسکتے ہیں‘۔

خیال رہے کہ چند روز قبل افغانستان میں تعینات آسٹریلیا کی فورسز کی چار سالہ تفتیشی رپورٹ میں انکشاف ہوا تھا کہ سینیئر کمانڈرز کے جبری احکامات پر جونیئر سپاہیوں نے 39 غیر مسلح قیدی اور افغان شہریوں کو قتل کیا۔

آسٹریلیا نے کہا تھا کہ 19 موجودہ اور سابق سپاہیوں کو ممکنہ طور پر افغانستان میں 39 مقامی افراد کی مبینہ ہلاکت پر کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

آسٹریلیا کے جنرل جان کیمبل نے 2005 سے 2016 تک اسپیشل فورسز کی افغانستان میں موجودگی کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ افغانستان میں آسٹریلیا کے اسپیشل فورسز کے 25 جوانوں کی جانب سے 23 مختلف واقعات میں 39 مقامی افراد کو ہلاک کرنے کی قابل اعتبار معلومات ہیں۔

ضرور پڑھیں

تبصرے (0) بند ہیں