قبائلی ضلع شمالی وزیرستان میں ٹارگٹ کلنگ کے ایک اور واقعے میں 4 قبائلی عمائدین کو فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا۔

پولیس اہلکار نے ڈان کو بتایا کہ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بننے والے ان عمائدین کو اس لیے قتل کیا گیا کیونکہ ان کا کوئی خاندانی جھگڑا نہیں تھا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق یہ واقعہ میر علی بازار میں پیش آیا جو میران شاہ کے بعد شمالی وزیرستان ہیڈکواٹرز کا دوسرا بڑا ٹاؤن ہے۔

عینی شاہدین کا کہنا تھا کہ حملہ آور کالی شیشے والی گاڑی میں آئے اور انہوں نے اس کار پر فائرنگ شروع کردی جس میں خیصور علاقے کے 4 عمائدین سفر کر رہے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: شمالی وزیرستان: سیکیورٹی فورسز پر حملہ، چار اہلکار ہلاک

ان کا کہنا تھا کہ حملہ آوروں نے گاڑی پر قریب سے گولیوں کی بوچھاڑ کردی اور فرار ہونے میں کامیاب ہوگئے، مقتولین کی شناخت ملک میر سادی خان، ملک رضا، ملک عابد رحمٰن اور ملک عمر خان کے نام سے ہوئی ہے جبکہ اب تک کسی گروپ کی جانب سے اس واقعے کی ذمہ داری قبول نہیں کی گئی۔

مزید یہ کہ مقتول عمائدین کی لاشوں کو میرعلی کے تحصیل ہیڈکوارٹرز ہسپتال منتقل کردیا گیا۔

علاوہ ازیں پولیس نے جائے وقوع پر پہنچ کر اس کا محاصرہ کیا، ذرائع کا کہنا تھا کہ قبائلی عمائدین مقامی عہدیداروں سے ملاقات کرنے کے لیے کیمپ تحصیل کے راستے پر تھے۔

یہ علاقے میں ایک ہی ہفتے میں ہونے والا ٹارگٹ کلنگ کا دوسرا واقعہ تھا۔

مزید پڑھیں: شمالی وزیرستان: سیکیورٹی فورسز کے آپریشن میں 2 دہشتگرد ہلاک، ایک گرفتار

اس سے قبل گزشتہ ہفتے میر علی کے قریب ایپی میں پاک فوج کی انجینئرنگ ونگ کے ادارے فرنٹیئر ورکس آرگنائزیشن (ایف ڈبلیو او) کے لیے یومیہ اجرت پر کام کرنے والے 4 مزدوروں کو قتل کردیا گیا تھا۔

جب ان پر فائرنگ کی گئی تو وہ سفر کر رہے تھے۔

جون 2014 میں آپریشن 'ضرب عضب' سے قبل شمالی وزیرستان کو مقامی اور بیرونی انتہا ہسندوں کی محفوظ پناہ گاہ قرار دیا گیا تھا، جہاں ٹارگٹ کلنگ اور سڑک کنارے نصب دھماکا خیز مواد سے ہلاکتوں میں اضافہ ہوا تھا۔

عہدیداران کا کہنا تھا کہ رواں سال جنوری سے اب تک ٹارگٹ کلنگ کی کارروائیوں میں خواتین اور عمائدین سمیت تقریباً 45 لوگوں کو قتل کیا جاچکا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: شمالی وزیرستان: آپریشن کے دوران 2 دہشتگرد ہلاک، ایک گرفتار

ان واقعات میں 6 افراد زخمی بھی ہوئے تھے، پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اب تک کسی ایک مجرم کو گرفتار نہیں کرسکے۔

صوبائی حکومت کے ترجمان کامران بنگش نے پشاور میں بات کرتے ہوئے کا کہا تھا کہ ٹارگٹ کلنگ سمیت شمالی وزیرستان میں پیش آنے والے تمام واقعات کی تحقیقات کی جارہی تھیں۔

ان کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان کے قبائلی اضلاع میں زمین اور خاندانی تنازعات جیسے بہت سے عوامل جرائم میں تیزی سے اضافے کی وجہ بن رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ مقامی خاصہ دار فورس کو پولیس میں ضم کرنے کے بعد حالات خراب ہوچکے تھے اور صوبائی پولیس سربراہ نے قبائلی علاقوں میں فورس کی صلاحیت کو بڑھانے کے لیے حال ہی میں لاجسٹک اور پولیس کے ڈھانچے کی مدد طلب کی تھی اور حکومت پولیس کی تمام ضروریات کو پورا کرے گی۔

مزید پڑھیں: شمالی وزیرستان: سیکیورٹی فورسز پر حملہ، چار اہلکار ہلاک

خیبر پختونخوا کے محکمہ داخلہ و قبائلی امور کی جانب سے مرتب کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق 2020 میں دیگر قبائلی اضلاع کے مقابلے میں شمالی وزیرستان جرائم کی شرح میں سب سے آگے رہا۔

شمالی وزیرستان میں انٹیلی جنٹس کی بنیاد پر کیے گئے آپریشنز میں عسکریت پسندوں کے کئی کمانڈرز کو ہلاک کیا جاچکا ہے۔

اعداد و شمار کے مطابق شمالی وزیرستان میں فائرنگ کے 44 واقعات اور آئی ای ڈی دھماکوں کے 44 واقعات پیش آئے جبکہ جنوبی وزیرستان میں فائرنگ کے 20، آئی ای ڈی دھماکوں کے 11 اور بارودی سرنگ کے دھماکوں کے 9 واقعات پیش آئے۔

تبصرے (0) بند ہیں